Sunday, July 20, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

عورت کا استحصال کیوں اور کیسے۔۔؟

قاضی کاشف نیاز
یہ ہمارے دین اسلام کا کیسا اعجاز ہے کہ اس نے آج سے 1400 سال پہلے ہی انسانوں کے ایک کمزور اور نازک طبقے، یعنی خواتین کا خصوصی خیال رکھتے ہوئے اس کے لئے اعلیٰ ترین اور پُرکشش ترین سہولت کا بندوبست کردیا۔ اس طبقے کے لئے اعلان کیا گیا کہ آپ صرف گھر بیٹھیں، آپ صرف گھر سنبھالیں، اس کے بدلے آپ کی تمام ضروریات آپ کا شوہر، آپ کا باپ، آپ کا بھائی اور آپ کا بیٹا پوری کرے گا، لیکن افسوس اتنی عظیم پیشکش کو ہمارے اس طبقے نے اپنے حقوق کے منافی قرار دے دیا۔ عورت کی ہر طرح کی ناز برداری برداشت کرنے والے ایک مرد کی اطاعت و فرمانبرداری چھوڑ کر اس نے پورے معاشرے کے مردوں کی غلامی کو ترجیح دے دی۔ پہلے وہ صرف گھرداری کرتی تھی، نئی نسل کی پرورش و تربیت کا سب سے کٹھن فریضہ ادا کرتی تھی اور گھر میں شہزادیوں کی طرح رہتی تھی۔ اب وہ مغرب کے پھیلائے ہوئے جال میں آ کر ڈبل نوکری کررہی ہے۔ گھر کی بھی اور باہر کی بھی، جبکہ اس نے اپنی عزت و صحت کو الگ بٹہ لگایا ہوتا ہے۔ ملازمت پیشہ عورتیں اپنے خاوندوں کو عموماََ یہ کہتی پائی جاتی ہیں کہ جو آپ کے پیسے ہیں، وہ میرے پیسے ہیں اور جو میرے ہیں وہ تو ہیں ہی میرے، یعنی وہ اپنے پیسوں پر تو خاوند کا کوئی حق نہیں سمجھتیں، لیکن خاوند کے پیسوں پر وہ اپنا پورا حق سمجھتی ہیں۔ ایسی عورتیں عموماً یہ چاہتی ہیں کہ ملازمت تو وہ جہاں مرضی، جیسی چاہیں کریں کہ یہ ان کے برابر کے حقوق کا مسئلہ ہے، لیکن جب گھر میں اخراجات کا مسئلہ ہو تو تب وہ کہتی ہیں، یہ تو شوہر کی ذمہ داری ہے۔ بھائی شوہر تو یہ ذمہ داری پوری ادا کرنا چاہتا ہے اور کرتا بھی ہے، لیکن یہ کیا ہوا کہ جب آپ نے حق لینا ہو تو مغربی ایجنڈے پر سوار ہوجائیں اور جب حق دینے کی باری آئے تو آپ فوراََ بگٹٹ اسلامی گھوڑے پر سوار ہوجائیں۔ پھر آپ کو پورا اسلام یاد آ جاتا ہے۔
ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ ماڈرن عورتوں کو اسلام کے بنیادی احکام کا بھی شاید ہی علم ہوتا ہے، لیکن اسلام نے انہیں جو حقوق دیئے ہوئے ہیں اس کی ایک ایک بات کا انہیں اتنا علم ہوتا ہے کہ شاید کسی عالم کو بھی نہ ہو۔ لیکن انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ اسلام میں ان کے فرائض کیا ہیں؟ فرائض کے معاملے میں وہ ایسے لاعلم ہوجاتی ہیں جیسے انہوں نے اس بارے میں کبھی کچھ سنا ہی نہ ہو۔ یہ مغرب زدہ دوہرے رویے کی حامل عورت کسی غیرمحرم مرد کے ساتھ بازاروں، ہوٹلوں اور پارکوں میں جانا تو اپنے برابری کے حقوق کا تقاضا سمجھے۔ مردوں کو خود اپنے ساتھ ہلا گلا کے لئے بلائے اور کہے ”میرا جسم میری مرضی“ پھر ان کے ساتھ مل کے بے باکانہ ڈانس کرے لیکن جب بازار میں جا کر، اس پارک میں جا کر اور اس ہوٹل میں جا کراس کے ساتھ کوئی انہونی ہوجائے تو پھر سارا قصور مرد کا اور مردوں کا اور سارے مقدمے مردوں پر قائم۔ دنیا کے تمام قوانین میں یہ بات سنی اور تسلیم کی گئی ہے کہ اگر کسی سے اشتعال میں آ کر اچانک قتل ہوجائے تو اسے بہرحال ویسی سزا کا مستحق نہیں سمجھا جاتا جو قانون میں واقعی ایک قاتل کی سزا ہوتی ہے۔ لیکن یہاں مرد کو جنسی طور پر اس قدر مشتعل کیا جائے اور عورت کے دیئے گئے اشتعال یا دیئے گئے فری ہینڈ کی وجہ سے مرد بھی جواباً کچھ کر بیٹھے تو ظالم صرف مرد اور عورت مکمل معصوم کی معصوم اور مظلوم کی مظلوم۔ مرد عورت کی عریانی و فحاشی، بے پردگی اور آزاد روی و آوارہ پن کی وجہ سے اسے گھور بھی بیٹھے یا اس کو صرف ہاتھ ہی لگا دے تو مرد پر فوراً جنسی ہراسانی کا الزام، حالانکہ جنسی طور پر ایسی عورت ہی مرد کو ہراساں کرتی ہے، لیکن اس عورت پر کوئی مقدمہ نہیں۔ شوبز کی بڑی بڑی اداکارائیں اور ماڈلز آج یہ راز افشا کرتی پھرتی ہیں کہ فلاں مرد اداکار نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا، انہیں ہاتھ لگایا یا کچھ اور دست درازی کی، لیکن یہ موقع انہیں کس نے دیا؟ شوبز میں، فلموں میں عام طور پر اداکار کا اداکارہ کو ہاتھ لگانا، گلے لگانا اور جسم کو کہیں سے بھی مس کر لینا کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی، بلکہ اسے پروفیشن اور سین کا تقاضا کہہ کر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اس آڑ میں جو فحش ترین سین فلمائے جاتے ہیں انہیں فحش سین کی بجائے ”بولڈ سین“ اور ایسی اداکارہ کو فاحشہ کی بجائے ”بولڈ اداکارہ“ کا معززانہ نام دیا جاتا ہے۔ ہاں اگر اس ماڈل و اداکارہ کی کسی مرد اداکار کی طرف سے شان میں کوئی سبکی ہوگئی تو پھر یکدم اسی مادرپدر آزاد عورت کو اسلام کے سارے تقاضے یاد آ جاتے ہیں اور وہ عموماً اپنی کسی ذاتی انا کی توہین کا بدلہ لینے کے لئے مرد کو اسلام کی سولی اور بلی چڑھا دیتی ہے، اب وہ اسلامی عزت و غیرت اور ناموس کی پیکر بن جاتی ہے۔
عام طور پر پینٹ اور جینز میں کسے ہوئے جسم کے ساتھ یہ جگہ جگہ تھرکتی عورت تھانے اور عدالتوں میں لمبی چادر اور پورا برقعہ تک پہن کر، حیا و ناموس کی پوری پتلی بن کر مرد کے خلاف مقدمے کے لئے پیش ہوجاتی ہے۔ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ عورت کے جو جائز حقوق ہیں وہ ہر صورت میں اسے ملنے چاہئیں۔ اس کے اصل حقوق تو یہ ہیں کہ اس پر اندر اور باہر کی ڈبل ڈیوٹی ختم کی جائے۔ اس کی ڈیوٹی کو آدھا کیا جائے۔ اسے مردوں اور درندوں کے جنگل میں جانے پر مجبور نہ کیا جائے۔ جہاں اس کے ساتھ آئے دن ”انہونیاں“ ہوتی ہیں۔ یہ ”انہونیاں“ مغرب میں تو عام ہوچکی ہیں۔ وہاں کی عورت یہ آزادی پا کر آج اس بے بسی کی حالت میں ہے کہ اپنے اوپر زیادتی اور ظلم کو وہ ظلم اور زیادتی بھی نہیں کہہ سکتی۔ وہاں ان آزادیوں کے طفیل بغیر نکاح کے اس سے اس کی جوانی تک خوب فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور بہانہ یہ کیا جاتا ہے کہ ابھی ہم انڈر اسٹینڈنگ پیدا کررہے ہیں، لیکن انڈر اسٹینڈنگ تو شاید ہی پیدا ہو، البتہ بچے ضرور پیدا ہوجاتے ہیں، جس کی ذمہ داری یہ لفنگا مرد عورت پر ڈال کر خود کسی نئی لڑکی اور نئی گرل فرینڈ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ یا پھر انڈر اسٹینڈنگ ہونے تک لڑکی کی جوانی ختم ہوجاتی ہے تو اس میں شادی کے لئے وہ کشش ہی ختم ہوجاتی ہے، پھر اس کی ساری عمر اولڈ ہوم کی نذر ہوجاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری ماؤں بہنوں کو ایسی دردناک آزادی اور اسی کے بُرے انجام سے بچائے۔ انہیں اس دین اسلام پر چلائے جس میں الحمدللہ ان کے حقوق سے بھی بڑھ کر تحفظ دیا گیا ہے۔ جہاں اس کے قدموں میں جنت تک رکھ دی گئی اور یہ اعزاز مرد کو نہیں، صرف عورت کو دیا گیا ہے۔ جہاں اس کو ہر طرح کی وراثت میں حق دیا گیا۔ باپ کی طرف سے بھی اور شوہر کی طرف سے بھی۔ اس وقت جب وراثت تو دور کی بات، لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایسے معاشرے میں اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی آمد پر ان کا کھڑے ہو کر اور ماتھا چوم کر استقبال کرتے، آپؐ نے عورت کا حق مہر مقرر کیا اور وہ بھی مرد کی نہیں، عورت کی صوابدید پر کہ وہ جتنا چاہے مقرر کرسکتی ہے۔ دوسری طرف عورت کو جہیز کی لعنت سے آزاد کیا۔ گویا رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کے سوا عورت پر ہر معاملے میں کم سے کم بوجھ اور ذمہ داری رکھی۔ اپنے آخری خطبے تک میں حضور اکرمؐ یہی کہتے رہے کہ عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو، ڈرتے رہو۔ ان کو بھی وہی کچھ کھلاؤ، پہناؤ جو تم خود کھاؤ اور پہنو، یعنی معروف قاعدے کے مطابق افسوس کہ ہم عہد جدید و قدیم کی ہر بُری بات کو تو فوراً گلے لگا لیتے ہیں، نہ جہیز چھوڑتے ہیں، نہ وراثت میں حق دیتے ہیں اور نہ عورت کو مادرپدر آزادی دے کر ننگ دھڑنگ ہونے سے روکتے ہیں، اور الزام اسلام پر……کاش ہم دین اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیمات پر پورے پورے عمل پیرا ہونے والے بن جائیں تو نہ کہیں عورت کے حقوق کا مسئلہ رہے، نہ اس کا کوئی کسی طرح بھی استحصال کرسکے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل