Friday, July 18, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

عورت اور معاشرتی رویّے

عورت چاہے گھریلو ہو یا کام کرنے والی، دونوں کو وقت کے پہیے میں مختلف چیلنجز کا سامنا ہر دور میں رہا ہے، جہاں کام کرنے والی خواتین، بچوں، شوہر، کیریئر اور گھر کی دیکھ بھال کے لئے وقت نکالنے میں جدوجہد کرتی ہیں وہیں ایک گھریلو خاتون کو اپنے لئے وقت نکالنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں
ازکیٰ کاظمی
مرد اور عورت نسلِ آدم کی دو اصناف ہیں اور یقینا دونوں کی اپنی اپنی قدر اور اہمیت ہے۔ اس بات کو جانتے ہوئے بھی کوئی تفریق چاہے معاشرتی ہو یا انسانی رویّوں کی، انسان کو برابر تکلیف دیتی ہے۔ آج کے ماڈرن اور نام نہاد لبرل دور میں بھی صنفی امتیاز یا صنفی امتیاز کا لفظ تو زبانِ زدِ عام ہے جس کا مطلب کسی صنف کو اس کے حقوق سے محرومی یا عدم دستیابی کا لیا جاتا ہے، جو یقینا کہیں نہ کہیں دیکھنے میں بھی آجاتی ہے۔ انسانی تاریخ میں کی ٹرم بیسویں صدی سے باقاعدہ جانی جانے لگی تھی اور مرد اور خواتین کی برابری کی فضا باقاعدہ ماحول میں بدلنے لگی۔ اس اہمیت کو جانتے ہوئے لوگوں میں شعور بیدار ہوا کہ حقوقِ انسانی، خصوصاً حقوقِ صنفِ نازک، بھی کسی بلا کا نام ہے۔ تحریک چلی تو چلتے چلتے ہر سُو پھیلنے لگی اور یوں ہم نے جینڈر ایکوایلیٹی یا جینڈر ڈیسکریمنیشن جیسے الفاظ سے نیا ناتا جوڑ لیا۔ پاکستان میں حالیہ برسوں میں صنفی مساوات کو فروغ دینے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، آج کی پاکستانی خواتین اپنی پچھلی نسلوں کی نسبت فیصلہ سازی کے زیادہ اختیارات رکھتی ہیں۔ لیبر فورس ہو یا ریاست، خواتین کی نمائندگی ہر شعبہئ زندگی میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ جس کے مثبت نتائج اس طرح دیکھنے میں آتے ہیں کہ آج کی خواتین ہر محاذ پر مردوں کے شانہ بشانہ نظر آتی ہیں۔ ملکی ترقی اور استحکام ہو یا اُمورِ خانہ داری، صنفِ نازک کی اوّل صفوں میں موجودگی اِس بات کا اظہار ہے کہ خواتین کسی صورت مردوں سے کم نہیں۔
یہ تو ہوگئی صنفی امتیاز کی بات لیکن ایک امتیاز ہماری سوسائٹی میں خواتین کا خواتین کے مابین بھی دیکھا جاتا ہے جس کو ہاؤس وائف اور ورکنگ ویمن کے نام سے منسوب کردیا گیا ہے۔ جب ہم دو مختلف اَصناف کی اہمیت کو آج کے معاشرے میں نظرانداز نہیں کرسکتے تو پھر کسی ایک صنف، کو دو اقسام میں کیسے بانٹ سکتے ہیں؟ یہ تفریق معاشرے سے کہیں زیادہ ہمارے رویوں نے پیدا کی ہے لہٰذا ہم اس کا بوجھ معاشرے کے کندھوں پر نہیں ڈال سکتے۔ ایک مشرقی معاشرے میں، گھر میں رہ کر 24/7 ”ملازمت“ کرنے والی خاتون کو، 9 سے 5 ملازمت کرنے والی خواتین سے، کم تر سمجھا جاتا ہے، یا یہ کہا جائے کہ ملازمت کرنے والی گھر کی خاتون کو غیرملازمہ گھر کی خواتین کی نسبت زیادہ عزت دی جاتی ہے لیکن یہ صورتِ حال ہر جگہ ایک سی نہیں، ہم دیہی علاقوں کا رُخ کریں تو وہاں گھریلو خاتون کو دی جانے والی ترجیح واضح دکھائی دیتی ہے۔ اسے عزت دی جاتی ہے جبکہ ایک عورت کے لئے باہر کے کام کرنا وہاں معیوب گردانا جاتا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کے مختلف رویے ہیں جو ایک ہی صنف کے لئے مختلف نوعیت کا انداز رکھتے ہیں۔
جب کوئی بیج بویا جاتا ہے تو وہ اردگرد کی مٹی کی نمی اور خوراک سے پرورش پاتا ہے۔ علاوہ اس کے اس کو حدّت بھی پہنچتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پھل پھول کر زمین سے نکلتا ہے اور باہر کی ہوا اس کے پھلنے پھولنے میں مزید مدد دیتی ہے چنانچہ پہلے پتے نکلتے ہیں اور پھر پھل پھول لگتے ہیں۔ بالکل اسی طرح سے کوئی سوچ انسانی ذہن میں جنم لیتی ہے اور پھر اس کو انسانی ماحول اور ہوا نشوونما میں مدد دیتی ہے۔ اب یہ ہمارے ماحول پر منحصر ہے کہ ہماری سوچ کس زاویئے سے پروان چڑھے گی۔ ماحول مثبت ہوگا تو سوچ اور خیالات بھی مثبت سمت میں پروان چڑھیں گے اور اگر سوچ منفی ہوگی تو یقینا نتائج بھی منفی صورت میں ظاہر ہوں گے۔ اِن تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ہم ایک شوہر کی حیثیت سے دیکھیں تو وہ ہمیشہ ایک کام کرنے والی خاتون کو بہتر سمجھتا ہے کیونکہ ایک ورکنگ لیڈی معاشی طور پر کنبے میں حصہ ڈال سکتی ہے اور شوہر کا بوجھ بانٹ سکتی ہے لیکن ساتھ میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو قدامت پسند سوچ رکھتے ہیں اور اپنی بیویوں کو کام کرنے اور وہ حیثیت دینے میں عار محسوس کرتے ہیں جس کی وہ مستحق ہوتی ہیں۔ اس رویے کو ان (مردوں) کا احساسِ عدمِ تحفظ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ایک بچے کی حیثیت سے دیکھیں تو ایک غیرملازمت والی ماں بہتر ہے کیونکہ وہ بچے کی بہتر پرورش کرتی ہے اور اس کو وہ وقت دے سکتی ہے جس کی اس کی اولاد کو زندگی کے اس دورانیے میں سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، یہاں یہ بات ہرگز نہیں کہی جارہی کہ ایک ملازم پیشہ خاتون اچھی ماں ثابت نہیں ہوسکتی۔ ہمارے پاس بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں ایک عورت ورکنگ لیڈی ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین ماں بھی ثابت ہوئی ہے، جوکہ یقینا قابلِ فخر بات ہے۔ جو عورت گھریلو اور دیگر جملہ فرائض بخوبی نبھائے وہ معاشرے کے لئے قابلِ احترام بھی ہے اور باعث تحسین بھی۔ لیکن مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر سوچا جائے تو یقینا بچے کی پرورش میں ماں کا کردار باپ سے کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی کوتاہی نہ ہو، اس کے لئے یہ ترجیح ہے کہ ماں بچوں پر خصوصی توجہ اور وقت دے جس کی اُس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے اور مزید یہ کہ اپنے اپنے نقطہئ نظر کے مطابق بچے کی پرورش کے مراحل پر غور کیا جائے۔
 گھر سے باہر رہ کر مردوں کے معاشرے میں کام کرنا یقینا ایک جرأت مندانہ عمل ہوگا لیکن ہم کیسے اپنی ماؤں، بہنوں کو کمتر محسوس کروا سکتے ہیں جو دن رات 24/7 گرمی کی حدت اور سردی کی شدت سے لڑتے ہوئے ہمارے اور گھر والوں کے لئے اپنی خدمات کا نذرانہ پیش کرتی ہیں۔ معاشرتی طور پر ایک ورکنگ وومین کا رویہ ایک گھریلو خاتون کی طرف کسی پہاڑ توڑنے کے مترادف ہے اور ایسے میں جب کوئی گھریلو خاتون اپنی آپ بیتی کا تھوڑا سا اظہار کردے تو اس کو کسی خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ فرق ہے ہماری سوچ کا۔۔۔ ہمارے رویوں کا۔۔۔ خواتین کسی بھی میدان میں ہوں گھریلو یا ورکنگ، وہ ملٹی ٹاسکنگ کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہمیں اپنے معاشرتی رویوں کو بدلنا ہوگا، ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ ایک گھریلو خاتون کسی طور پر بھی ورکنگ وومین سے کم نہیں ہے۔ ایک ورکنگ وومین کو تو اپنے کام کی ”اجرت“ مل جاتی ہے لیکن غور کیا جائے تو کیا ایک گھریلو خاتون کو اس کی ”اجرت“ دی جارہی ہے؟
ان حالات اور حقائق کو دیکھتے ہوئے اس بات کا حتمی فیصلہ دینا مشکل ہے کہ کون کس سے بہتر ہے کیونکہ یہ تناظر اور حالات پر منحصر ہے۔ ایک عورت ماں بھی ہے، بیٹی بھی، بہن بھی اور بیوی بھی۔ زندگی کے ہر روپ میں عورت کو خدا نے ایک خاص مقام عطا کیا ہے اور اس خاص مقام کی بدولت ہی خدا نے اس کے قدموں تلے جنت رکھی ہے۔ غرض عورت کے وجود سے ہی کائنات کی رونق ہے اور خود عورت ہونا ایک فخر کی بات ہے۔۔۔ لیکن افسوس کا مقام وہاں آتا ہے جب ہم ورکنگ ویمن ہونے کے تمغے کو ماتھے پر سجا کر ان خواتین کو احساسِ محرومی یا کمتری میں مبتلا کرتے ہیں جو گھروں میں رہ کر اپنے فرائض کی انجام دہی کررہی ہوتی ہیں۔ یہ بات انتہائی قابلِ افسوس ہے کہ ہمارا زیادہ تر پڑھا لکھا طبقہ بھی اس طرح کی سوچ رکھتے ہوئے زمانہئ جاہلیت کی باتوں میں پھنسا ہوا ہے۔ اگر ایک مرد گھریلو اور ملازمت پیشہ خواتین کے لئے الگ الگ رائے قائم کرتا ہے تو اس کی یہ سوچ کسی حد تک قابلِ قبول ہوسکتی ہے لیکن ایک عورت ہو کر دوسری عورت کے لئے اس طرح کی سوچ رکھنا آپ کے جانبدارانہ روّیے کا اظہار ہے۔
عورت چاہے گھریلو ہو یا کام کرنے والی، دونوں کو وقت کے پہیے میں مختلف چیلنجز کا سامنا ہر دور میں رہا ہے۔ جہاں کام کرنے والی خواتین، بچوں، شوہر، کیریئر اور گھر کی دیکھ بھال کے لئے وقت نکالنے میں جدوجہد کرتی ہیں وہیں ایک گھریلو خاتون کو اپنے لئے وقت نکالنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ضرورت ہے تو اِس بات کو سمجھنے کی کہ ایک ورکنگ لیڈی صرف 9 سے 5 کام کرنے والی خاتون نہیں ہوتی بلکہ ہر وہ خاتون بھی ہے جو 24 گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دِن بلامعاوضہ اپنے گھر والوں کی خدمت پر مامور رہتی ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ کوئی بھی بات یا فعل ایسا نہ ہو جس سے معاشرے کا کوئی بھی فرد حوصلہ شکنی کا شکار ہو یا اس میں احساسِ کمتری پیدا ہو کیونکہ زمانہ کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلے، تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور انسانی رویّوں کی دیکھ بھال ہر دَور کی ضرورت رہی ہے۔ اس لئے اس طرح کے امتیاز کو ذہنی اور معاشرتی طور پر کم کرنا چاہئے کیونکہ حوّا کی بیٹیوں کے دَم سے ہی اس بزمِ جہاں میں رونق ہے اور وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں، معاشرے کی فلاح اور پروان میں دونوں کا اپنا اپنا کردار ہے اور دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پر انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ بقول علامہ اقبال:
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اِسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دُروں

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل