Sunday, July 20, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

عورت اور ماں

بشریٰ اعجاز
’’جب سے مجھے اس واقعے کا پتا چلا ہے، میں سو نہیں سکی۔ اُف یہ ماں ہے کہ ڈائن اپنے تین بچوں کو کھا گئی، وہ بھی ایک بازاری مرد کے لئے، میرے سامنے آئے تو میں اس کا منہ نوچ لوں، چیخ چیخ کر اسے بتاؤں، اس نے کتنی گھناؤنی حرکت کی ہے۔ اتنی شرمناک کہ اس نے تمام ماؤں کے سر شرمندگی سے جھکا دیئے ہیں۔‘‘ میری دوست رو رو کر مجھ سے اس اندوہناک سانحے پر بات کررہی تھی، جو چند روز قبل لاہور کے رہائشی علاقے عسکری الیون میں پیش آیا اور جس کے بعد ہر صاحبِ دل نے ایک درد اپنے دل میں محسوس کیا اور ہر ماں نے حیرت اور صدمے سے انگلیاں منہ میں داب لیں۔ بھلا کوئی ماں ایک اسفلی جذبے پر اپنے تین بچے کیسے قربان کرسکتی ہے؟ ماں تو وہ مثالی ہستی ہے جو دنیا کا ہر جبر اپنی جان پر سہتی ہے، مگر اپنے بچے تک گرم ہوا کا جھونکا بھی نہیں آنے دیتی۔ خود ہر مصیبت برداشت کرتی ہے مگر اپنے بچے کے سامنے ڈھال بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ ماں، عورت کا خوبصورت ترین روپ ہے۔ انسانی عظمت و شرف کا وہ درجہ جس پر فرشتے بھی رشک کریں۔ عورت، جب ماں بنتی ہے تو حسنِ تخلیق سے پوری لبریز ہوجاتی ہے، یعنی اس کے بعد اس کی ہستی کی تکمیل ہونے لگتی ہے۔ مجھ سے ادبی سفر کے اولین دنوں کے ایک انٹرویو میں محترم ڈاکٹر اجمل نیازی نے پوچھا، آپ کو عورت کا کون سا روپ پسند ہے؟ اس سوال پر میرے سامنے اپنی شفیق اور مہربان ماں کا پورا سراپا آ گیا، جسے دیکھ کر میرے منہ سے بے ساختہ نکلا، ماں صرف ماں!
اور یہ حقیقت ہے کہ ماں ہی وہ رشتہ ہے جو ہر زمانے میں رشتوں کی کسوٹی پر پورا اترا، اور جس نے ازمنۂ قدیم سے لے کر آج تک اپنا وقار، اپنا تشخص اور اپنا کردار قائم رکھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ رشتوں کی دنیا کے تمام رشتے اپنی قدروقیمت کھوتے رہے۔ باپ، بھائی، بہن، بیٹی جیسے لازوال رشتے بھی، اپنے حسن اور معانی سے دور ہوتے چلے گئے۔ مگر ماں، کہ چاہے مغرب کی ہو یا مشرق کی، شمال کی یا جنوب کی۔ ماں بس ماں ہے۔ مگر انیقہ اور اس جیسی عورتیں؟ جو کبھی کسی آشنا کی خاطر بچوں کی جان لے لیتی ہیں۔ کبھی شوہروں سے لڑ جھگڑ کر اپنے بچے کا گلا گھونٹ دیتی ہیں۔ کبھی گھریلو جھگڑوں میں شوہروں کو نیچا دکھانے کے لئے بچوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں، کیا انہیں مائیں کہا جاسکتا ہے؟ مشہور فلسفی شوپنیمار جو عورت سے شدید نفرت کرتا تھا، اس نے کہا تھا ’’جس طرح قدرت نے شیروں کو پنجوں اور دانتوں سے، ہاتھیوں کو سونڈ اور دانتوں سے، اور بیلوں اور سینگوں سے مسلح کیا ہے، اسی طرح اس نے عورت کو مکروفریب سے مسلح کیا ہے۔ عقل اپنی فطرت میں عورت کی طرح ہے، یہ اسی وقت کچھ دے سکتی ہے، جب یہ کچھ لے لیتی ہے، اپنی ذات میں، یہ محض ایک کھوکھلے چھلکے کی مانند ہے۔‘‘ یہ ایک عظیم فلسفی کی عورت کے متعلق رائے ہے، جو بعد کے زمانوں میں تادیر قائم رہی، کم و بیش ہر فلسفی اور دانا نے عورت کو شر اور فتنہ قرار دیا اور اس کی کھلے عام مذمت کی، بلکہ یونان میں ایک سرکاری قانون کے مطابق جو عورت جسمانی طور پر معذور بچہ پیدا کرتی تھی، بطور سزا اسے اور اس کے بچے کو موت کے حوالے کردیا جاتا تھا۔ تاریک صدیوں میں کلیسا کی جانب سے عورت کو جادوگرنی، شیطان کی بیٹی، مکروفریب کا جال قرار دے کر، اسے بے رحم سزائیں دینے کا رواج عام تھا۔
مگر اسلام نے 14 صدیاں قبل اس پسی ہوئی بے زبان مخلوق کو (جسے عرب جوئے میں ہارتے تھے اور پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دیتے تھے) صدیوں کی بہیمانہ تاریکی سے نکال کر روشنی کے سفر پر روانہ کیا۔ بیٹی کو رحمت قرار دیا اور ماں کے قدموں تلے جنت کی بشارت دے کر، یہ ثابت کیا کہ یہ پسی ہوئی مخلوق فطر کے کس قدر قریب ہے اور وہ عظیم تخلیق کار جو خالقِ کائنات ہے اسے اپنی بہترین مخلوق قرار دے کر اپنے بندے پر اپنی رحمت کی اگر مثال دیتا ہے، تو اسے ماں سے بڑھ کر اور کوئی ہستی دکھائی نہیں دیتی، جو رحم، محبت، ہمدردی، ایثار، قربانی اور عظمت میں اس رحیم کریم کا پرتو ہو، جو اپنے بندے سے ستر ماؤں جیسا پیار کرتا ہے۔
مگر یہی ماں، جب ڈائن بن کر اپنے ہی بچوں کو نگلنے لگتی ہے، تو انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے ’’کیا ماں کا کردار بھی بدل رہا ہے؟ یہ رشتہ جو دنیا کا سب سے محفوظ رشتہ ہے، کیا اب یہ بھی غیرمحفوظ ہوتا جارہا ہے؟‘‘ انیقہ اپنے تین بچوں کے قتل کے بعد غصے اور انتقام میں بھری جب اس مرد کے دروازے پر پہنچی، جسے جیتنے کے لئے اس نے اپنے تین معصوم بچوں کی جان لی تھی، تو اس نے اسے حقارت سے دھتکار دیا اور گھر کا دروازہ بند کرلیا۔ اس کے بعد کی کہانی ہمارے سامنے ہے، یہ کہانی اگر دردناک ہے تو شرمناک بھی ہے۔ جس کے بعد انسان دنیا کے اس سب سے معتبر اور پاکیزہ رشتے کے متعلق بھی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ایسے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے ماں کے روایتی کردار پر گہری خراشیں نمودار ہونے لگی ہیں۔ یہ سوال کتنا ہولناک ہے، کیا ماں بھی قابل اعتبار نہیں رہی؟ اگر ایسا ہے تو پھر دنیا میں کون سا رشتہ باقی ہے، جو قابل بھروسہ ہو، محفوظ ہو، مکمل ہو؟۔
یہ اور ان جیسے تمام سوالوں کا میرے نزدیک اب بھی ایک ہی جواب ہے۔ ماں، صرف ماں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کچھ عورتیں بچے پیدا تو کرتی ہیں مگر مائیں نہیں بن سکتیں، وہ عورتیں ہی رہتی ہیں جبکہ کچھ عورتیں چاہے شادی کریں نہ کریں، بچے پیدا کریں نہ کریں، قدرت نے ان کے اندر مامتا کا لازوال جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے، جس کی فی زمانہ سب سے بڑی مثال مدرٹریسا ہیں اور وہ تمام راہبائیں جو کوڑھیوں، جذامیوں، یتیموں، لاوارثوں، بیماروں اور مفلس بچوں کے لئے مامتا کا جہاں بن کر، انہیں اپنے جذبۂ محبت سے شفایاب بھی کرتی ہیں اور ان کی ہستیوں کے خالی خانوں میں مامتا کے رنگ بھی بھرتی ہیں، مامتا کا جذبہ، مخصوص حالات کی پیداوار ہرگز نہیں۔ یہ تو فطری ہے نہ صرف ہر عورت کے اندر اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے بلکہ بعض اوقات مردوں کو بھی رب العزت اس جذبے سے نواز دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لاتعداد ایسے باپ ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو ماں بن کر پالا اور ایک ماں کی طرح اپنی ذات اور اپنے جذبات کی قربانی دی۔ انیقہ اور اس جیسی چند خواتین کا المیہ یہ ہے کہ وہ ساری عمر عورت پن سے باہر نہیں آسکتیں، ان کا نفس انہیں منہ زور خواہشات کے پیچھے بھگائے رکھتا ہے اور اس بھاگم بھاگ میں وہ جلے پاؤں کی بندریا کی طرح اپنے ہی بچوں کو روندتی، نفس کی غلامی میں اس مقام تک جا پہنچتی ہیں جہاں سے واپسی ممکن ہی نہیں ہوتی۔ رہی ذات کی تکمیل تو اس کے لئے اک مرد کی محبت، اک اسفل جذبے کی تندی کا سامان درکار نہیں، مامتا کا پاکیزہ جذبہ ہی اس کے لئے کافی سے زیادہ ہے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل