Monday, June 23, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

عقل پر پردہ کب پڑتا ہے؟

ڈاکٹر سید کلیم امام
(سابق وفاقی سیکریٹری/ انسپکٹر جنرل آف پولیس)
”میں صرف اور صرف اس لڑکے سے شادی کروں گی“ لڑکی نے دوٹوک جواب دے دیا۔ والدین نہ مانے اور لڑکی نے کورٹ میں جا کر شادی کرلی۔ والدین رو دھو کر اور رسوائی کا داغ اٹھائے گمنامی کی زندگی بسر کرنے لگے لیکن بات یہاں ختم نہ ہوئی۔ لڑکا بدمعاش تھا اور چند روز بعد ہی اس کو بُرے کردار کی حامل عورت کے ہاتھ فروخت کیا اور غائب ہوگیا۔ جوانی کے شروع میں عشق کا جادو سرچڑھ کر بولتا ہے اور یوں یہ پہلا پردہ ہوتا ہے جو انسان کی عقل پر پڑ جاتا ہے۔ سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں مفقود۔ شادی کرتے ہوئے یہ پردہ صرف نئی نسل کی عقل پر نہیں پڑتا، اکثر والدین کی آنکھوں پر بھی پٹی بندھ جاتی ہے۔ لڑکے والے کرائے کی بڑی سی گاڑی میں لڑکی کے گھر تشریف لائے، اپنی امارت کے جھوٹے قصے سنائے اور سیدھے سادھے یا عقل سے عاری والدین ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئے۔ پولیس میں ایک صاحب سپاہی کے عہدے پر فائز تھے۔ رشتہ لے کر گئے اور اپنا تعارف بحیثیت انسپکٹر کروایا۔ اصل حقیقت شادی کے بعد معلوم ہوئی، لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی۔
پرویز مشرف نہایت قابل اور دلیر جرنیل تھے۔ حالات نے پلٹہ کھایا، قسمت نے ساتھ دیا اور وہ پورے ملک کے مختارِکل بن گئے۔ اب کیا تھا، مخلص لوگ پیچھے دھکیل دیئے گئے اور چاپلوسوں نے ان کی گاڑی کے اسٹیرنگ وہیل پر قبضہ جما لیا۔ کرسی صدارت پر بیٹھے ہوئے ان کے آگے پیچھے پھرنے والے اور واہ واہ کرنے والے اتنے تھے کہ وہ واقعی اپنے آپ کو ایک عوامی اور ہردلعزیز لیڈر سمجھنے لگے۔ حکومت چھوڑتے ہی عقل پر ایسا پردہ پڑا کہ اپنی ایک سیاسی جماعت بھی بنا ڈالی۔ آج شاید بہت سے لوگوں کو اس جماعت کا نام بھی یاد نہ ہو۔ رومن سلطنت کا مشہور اور کامیاب بادشاہ مارکس آریلیس اپنے پیچھے ہر وقت ایک ملازم رکھتا، جب بھی کوئی اس کی تعریف کرتا تو وہ اس کو آہستہ سے کان میں کہتا رہتا، ”مارکس، تم صرف ایک انسان ہو“ اور یوں درباریوں کی اس کو آسمان پر پہنچانے اور خدا بنانے کی کوششوں کا ساتھ ساتھ تدارک ہوتا رہتا۔ میں جب ایس ایس پی راولپنڈی تعینات ہوا تو میرے اردگرد بھی تعریف کرنے والے بے شمار لوگ آگئے۔ کچھ نے تو یہ تک بول دیا کہ آپ نوکری چھوڑیں اور الیکشن لڑیں، آپ جیسے عوامی ایس ایس پی کو پولیس کی کرسی پر نہیں پارلیمنٹ کی نشست پر ہونا چاہئے۔ ایک لمحے کے لئے میں بھی ڈگمگایا لیکن شاید کسی کی دُعا تھی کہ آنکھوں پر پردہ پڑنے سے پہلے اپنی حقیقت سمجھ گیا۔ اور جب میری پنڈی سے پوسٹنگ ہوئی تو کسی نے بعد میں پلٹ کر پوچھا تک نہیں۔
پولیس کو معلوم ہے اور عدلیہ کے واضح احکامات بھی موجود ہیں لیکن ایک شخص کے خلاف ایک ہی جرم کی پورے ملک میں ان گنت ایف آئی آر کٹ رہی ہیں۔ ایک صوبہ کی ہائی کورٹ رہائی کا حکم دیتی ہے تو سننے میں آیا کہ دوسرے صوبے نے اپنا جہاز بھیج کر 75 سالہ بزرگ ملزم کو اپنے صوبے میں بلوا لیا۔ کیا پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ حکام مصلحت کے تحت خاموش رہے یا اچھی پوسٹنگ چھن جانے کا ڈر تھا؟ کہاں گئے باضمیر افسران؟ بظاہر لگتا ہے کہ اپنی ضمیر کی آواز کو انہوں نے دبا دیا۔ یہ وقت تو گزر جائے گا مگر بعد میں پولیس کے پاس شرمندگی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب آنکھوں پہ پردہ پڑتا ہے تو بُرا وہی لگتا ہے جو ہمیں کوئی نصیحت کررہا ہوتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ اگر تمہیں کوئی بُرا کہے اور تمہیں اس پر غصہ آجائے تو سمجھو کہ تم واقعی بُرے ہو۔ ایک طرف تو انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ تو دوسری طرف اس قدر انسان کی تذلیل! کچھ عرصے سے غیراخلاقی ویڈیوز بھی لیک ہونا شروع ہوگئی ہیں حتیٰ کہ میاں بیوی کی نجی ویڈیو بنا کر انہی کی بیٹی کو بھیج دی گئی۔ کیا ان ویڈیوز کو اس طرح لیک کرنے والوں کا اپنا دامن پاک اور صاف ہے اور کیا ان کی مائیں بہنیں نہیں ہیں؟ مگر کیا کیجئے عقل پر پردہ پڑ چکا ہے۔
حال ہی میں ایک صاحب ایک بہت بڑے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ یقیناً قابل ہوں گے جو اتنے بڑے عہدے پر پہنچے، لیکن عقل پر ایسا پردہ پڑا کہ اپنی الوداعی تقریر میں اپنی ہی تعریفیں کرنے لگے اور بھول گئے کہ ایسے موقع پر آپ کی تعریف دوسرا شخص کرتا ہے۔ حیرت تو مجھے ان کے تقریر لکھنے والے کی فراست پر ہوئی۔ آخر وقت تک خوشامد کا ساتھ نہ چھوڑا۔ ان کو شاید امید تھی کہ یہ بڑے صاحب جاتے جاتے بھی کوئی بڑا پلاٹ دے جائیں گے۔ بیوروکریسی میں اکثر لوگ مڈل کلاس سے آتے اور بیشتر کے رشتے دار غریب یا گاؤں دیہات کے رہنے والے ہوتے ہیں۔ میں خود بھی ایک عام سے سرکاری ملازم کا بیٹا تھا اور گھر بھی چھوٹا سا تھا۔ نہ گھر میں کوئی نوکر اور نہ ہی انواع اقسام کے کھانے۔ لیکن زندگی الحمداللہ والدہ کے سگھڑاپے اور والد کے رزق حلال کی وجہ سے اچھی گزرتی رہی۔ جب بیوروکریسی کی زندگی میں قدم رکھا تو دیکھا یہاں تو اکثر کی عقل پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ پبلک سرونٹ مجال ہے کہ اپنے آپ کو پبلک سرونٹ سمجھے۔ اصل میں تو یہ حاکم تھا اور ازل سے حکومت کرنے اور حکم چلانے کے لئے پیدا ہوا تھا۔ جتنا بڑا افسر اتنی بڑی اس کی شان۔ تقریر کرنے کھڑا ہو تو اس کی عینک اور فائل بھی روسٹرم پر اس کا اسٹاف آفیسر رکھے گا۔ ڈی سی یا ایس پی صاحب کے دفتر میں مجال ہے کہ کوئی بغیر اجازت داخل ہو۔ بڑے افسران اپنے دوستوں کے ہمراہ دفتر میں خوش گپیوں میں مصروف رہتے اور باہر لوگوں کو تاثر دیا جاتا کہ اندر اہم میٹنگ ہورہی ہے۔ یہ کروفر اور فرعونیت کا پردہ صرف بیوروکریٹس پر نہیں پڑتا۔ ہمارا بڑا بزنس مین، فیکڑی کا سیٹھ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران بھی اس صف میں برابر بیٹھے نظر آئیں گے۔ کسی مزدور یا چھوٹے ملازم کی تنخواہ میں ہزار روپے کا اضافہ کرنا پڑے تو اگرمگر لگی رہے گی۔ ہاں اگر اپنی تنخواہوں میں لاکھوں کا اضافہ ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ سیٹھ کروڑوں کا منافع اپنے ملازمین کے ساتھ شیئر کرنے کے لئے تیار نہیں اور یوں عقل پہ پڑا ہوا یہ پردہ ناانصافی کی کبھی نہ ختم ہونے والی دیوار کھڑی کردیتا ہے۔
کہتے ہیں جب کثرت سے دولت، شہرت اور طاقت آجائے تو انسان اپنے جامع میں نہیں رہتا اور یہ بھی بڑے بزرگ کہہ گئے کہ جس کے پاس کچھ نہیں اور جس کے پاس سب کچھ ہے، اس کی عقل پر بھی پردہ پڑ سکتا ہے۔ لیکن ہر جگہ ایسا نہیں، جن افسران یا اہل ثروت کی تربیت میں ان کے والدین نے انسانی حقوق کی اہمیت، رزق حلال اور خدا خوفی ڈالی ہو ان کے قدم نہیں ڈگمگاتے۔ اگر کبھی پردہ پڑنے بھی لگے تو روشنی کی کرن ان کی آنکھیں کھول دیتی ہے۔ مخلص دوست سمجھتاتے ہیں، اللہ کی مدد آتی ہے اور آنکھوں پہ پڑا پردہ خودبخود ہٹ جاتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اکثر سو جاتا ہوں بے خوف ہو کر کیوں کہ جس رب نے آج تک سنبھالا ہے آگے بھی وہی سنبھالے گا۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل