کسی نے چاند جلایا تو میری آنکھ کھلی
چراغ سامنے آیا تو میری آنکھ کھلی
میں تین چار بجے تک تو جاگتا ہی رہا
پھر اس نے آ کے سُلایا تو میری آنکھ کھلی
میں اپنا آپ بہت دیر کھٹکھٹاتا رہا
کوئی جواب نہ آیا تو میری آنکھ کھلی
قدیم خواب پڑا رہ گیا تھا بستر میں
کسی نے یاد دلایا تو میری آنکھ کھلی
وہ میری نیند بھی ایسے لپیٹ کر سویا
ذرا جو اُس کو جگایا تو میری آنکھ کھلی
وہ لوگ دائرے میں کھینچتے رہے مجھ کو
پھر اُس نے ہاتھ بڑھایا تو میری آنکھ کھلی
نحیف شام کی اُنگلی پہ اٹکے سورج نے
نگل لیا کوئی سایہ تو میری آنکھ کھلی
طلسم پھونکتا وہ بڑھ رہا تھا میری طرف
درود پڑھ کے گرایا تو میری آنکھ کھلی
آصف انجم