Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

عزل

معبدوں سے نہ صنم خانوں سے خوف آتا ہے
ہم کو اِس دور کے انسانوں سے خوف آتا ہے

جانے کیوں اشک و تبسم کے گنہگاروں کو
بزمِ تقدیس کے پیمانوں سے خوف آتا ہے

جبر کے شہر میں سہمے ہوئے انسانوں کو
حاکمِ وقت کے ارمانوں سے خوف آتا ہے

ایسے طوفانِ جنوں خیز کی آمد ہے کہ اب
سنگ و دشنام کو دیوانوں سے خوف آتا ہے

عمر کے آخری مہرے ہیں بساطِ جاں پر
زندگی اب تو تیرے شانوں سے خوف آتا ہے

ہم کو اِس عہدِ زباں بندی میں اکثر ساحلؔ
واعظِ پاک کے فرمانوں سے خوف آتا ہے


ساحلؔ منیر


مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل