Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

عزل

کیوں نہ اس کا قلق حشر ڈھائے
جو کلی بن کھلے سوکھ جائے

زیر لب مسکرائیں ہوائیں
پھول شاخوں پہ جب کھلکھلائے

آج میں بے سبب ہنس رہا ہوں
جانے تقدیر کیا گل کھلائے

کام آتے نہیں بے کسی میں
خواہ اپنے ہوں وہ یا پرائے

خون صحرا میں زخمی ہرن کا
خود شکاری کو رستہ دکھائے

لاف یاراں ہے بس روشنی تک
کب اندھیروں کے ساتھی ہیں سائے

آ بھی جاؤ کہ میں ہوش میں ہوں
جانے پھر کی جنوں رنگ لائے

رہ گئی رات آنکھوں میں ڈھل کر
تم کو آنا نہ تھا تم نہ آئے

کس سے پوچھوں کہ وہ انجمن میں
کیوں مجھے دیکھ کر مسکرائے

کیا خبر کس ارادے سے کاوشؔ
دل میں بیٹھا ہے طوفان چھپائے


کاوشؔ عمر


مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل