کیوں نہ اس کا قلق حشر ڈھائے
جو کلی بن کھلے سوکھ جائے
زیر لب مسکرائیں ہوائیں
پھول شاخوں پہ جب کھلکھلائے
آج میں بے سبب ہنس رہا ہوں
جانے تقدیر کیا گل کھلائے
کام آتے نہیں بے کسی میں
خواہ اپنے ہوں وہ یا پرائے
خون صحرا میں زخمی ہرن کا
خود شکاری کو رستہ دکھائے
لاف یاراں ہے بس روشنی تک
کب اندھیروں کے ساتھی ہیں سائے
آ بھی جاؤ کہ میں ہوش میں ہوں
جانے پھر کی جنوں رنگ لائے
رہ گئی رات آنکھوں میں ڈھل کر
تم کو آنا نہ تھا تم نہ آئے
کس سے پوچھوں کہ وہ انجمن میں
کیوں مجھے دیکھ کر مسکرائے
کیا خبر کس ارادے سے کاوشؔ
دل میں بیٹھا ہے طوفان چھپائے
کاوشؔ عمر