Thursday, July 31, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

عزل

شبو کا انسداد تھا درپن کی نیند تھی
ہر انگ جاگتا تھا کس الجھن کی نیند تھی

جتنا تھا شور، میرے لہو کا فشار تھا
اور جتنی خامشی تھی، مرے فن کی نیند تھی

اک ایش ٹرے، غبار کی اک تہہ، اور ایک پھول
اک میلے میز پوش پہ بندھن کی نیند تھی

ہم کٹ گئے ہیں اپنے زمانے سے کس طرح
لمحے سا ایک خواب تھا دھڑکن سی نیند تھی

آنگن میں پھیکی شام کی جھلمل تھی پُر تھکن
چڑیا کی سونی آنکھ میں جامن کی نیند تھی

اک شام بے صدا میں بدن بھر تھکن کا زہر
اک خواب پر فضا میں اُس اترن کی نیند تھی

گہرائیوں میں شب نہیں جاتی سو کیا کہے
تالاب میں بھنور تھا کہ چندن کی نیند تھی

خود سے کھنک رہے تھے کٹورے خیال کے
جھرنوں کا انجماد تھا جھانجن کی نیند تھی

طاری مرے وجود پہ مجھ پہ مزاج پہ
اُس شہریار حُسن کے جوبن کی نیند تھی

آکاش پر کھلے تھے تمناؤں کے گلاب
جھڑ بیریوں کی چھاؤں میں بچپن کی نیند تھی

جاگے تو جھڑ چکا تھا بدن کا شجر خمارؔ
بستر کی نیند اصل میں مدفن کی نیند تھی

خمارؔ میر زادہ

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل