سب یہاں سمت و نشاں والے ہیں
اک ہمی گمشدگاں والے ہیں
شعر، جیسے کوئی لو لہرائے
ہم چراغوں کی زباں والے ہیں
خاک سے رشتہ مروت کا ہے
ہم الگ کاہکشاں والے ہیں
تم وہاں سکّے یقیں کے لائے
جہاں بازار گماں والے ہیں
ہم ہیں پھولوں بھری شاخوں جیسے
آپ تو عہدِ خزاں والے ہیں
پھر بھی خواہش ہے منافع کی ہمیں
کام تو سارے زیاں والے ہیں
ہمیں سیلاب لئے پھرتا ہے
آپ ساحل کے نشاں والے ہیں
خیمہ و چشم اٹے ہیں اپنے
راہرو ریگِ رواں والے ہیں
عالمِ جذب میں رقصِ درویش
سلسلے کون و مکاں والے ہیں
قیوم طاہر