عمر جاوید
پندرہ سال پہلے 20 اور 21 مارچ کی درمیانی رات کو امریکا اور برطانیہ نے 26 ملین افراد کے ملک عراق پر ایک غیرقانونی جنگ کا آغاز کیا۔ جب جارج بش اس جنگ کا اعلان کررہا تھا اس وقت دْنیا کو شاید یہ معلوم نہیں تھا کہ اس جنگ سے نہ صرف ایک جدید تہذیب کے حامل ملک کا سماجی نظام اور انفرااسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوگا، بلکہ اس سے مشرق وسطیٰ کا خطہ بھی دہشت گردی، جنگوں اور خانہ جنگیوں کی ایسی لپیٹ میں آ جائے گا کہ جس سے نکلنے کی کو ئی تدبیر 15 سال بعد بھی نظر نہیں آئے گی۔ امریکا میں قائم ’’براؤن یونیورسٹی‘‘ کے تحقیقی ادارے ’’واٹسن انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل پبلک افےئرز‘‘ کے اعدادوشمار کے مطابق عراق اور افغانستان میں امریکی جنگ کے باعث 370,000 ہلاک ہوئے ان میں سے اکثر ہلاکتیں عراق کی جنگ کے باعث ہوئیں۔
امریکا اور برطانیہ نے عراق پر حملہ کرنے کے لئے یہ جھوٹے جواز گھڑے کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں اور صدام حسین کا القاعدہ اور اسامہ بن لادن سے بھی تعلق ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود نہیں تھے اس کے پاس جو تھوڑے بہت ہتھیار موجود تھے وہ بھی اس کو 1980ء کی دہائی میں امریکا اور یورپ نے ایران کی جنگ کے خلاف فراہم کئے تھے جبکہ عراق کا ایٹمی پروگرام بھی اقوام متحدہ کی نگرانی میں مکمل طور پر بند ہوچکا تھا، جہاں تک صدام حسین کے القاعدہ اور اس طرح کے اسلامی انتہاپسند گروپس سے تعلق کی بات ہے تو اس حقیقت کو حقائق کی روشنی سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ صدام حسین اور اس کی جماعت بعث پارٹی مکمل طور پر ایک سیکولر پارٹی تھی۔
صدام حسین اور بعث پارٹی عرب قومیت کے علمبردار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صدام حسین کے دور میں بہت سی خرابیاں ہونے کے باوجود ان کے دور میں عراق میں کسی بھی طرح کی مذہبی یا فرقہ وارانہ دہشت گردی موجود نہیں تھی۔ 2003ء میں عراق کی جنگ سے پہلے القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے کئی ایسی ویڈیو پیغامات موجود ہیں جن میں صدام حسین کو ایک ’’سوشلسٹ‘‘ اور ’’سیکولر‘‘ حکمران قرار دے کر ان کی مذمت کی جاتی تھی۔ امریکا کے عراق پر حملے کے دو ہی بڑے مقاصد تھے ایک تیل کے وسائل سے مالا مال ملک کا کنٹرول اپنے پاس رکھنا اور دوسرا اس کنٹرول کے ذریعے مشرق وسطیٰ سمیت ایشیا اور یورپ میں اپنے سامراجی مفادات کو تحفظ فراہم کرنا۔ عراق پر جنگ نے جہاں ایک طرف مشرق وسطیٰ کے امن کو متاثر کیا تو دوسری طرف خود امریکا کی معیشت بھی ان جنگوں سے متاثر ہوئی۔ براؤن یونیورسٹی کے ادارے کوسٹ آف وار پروجیکٹ کے مطابق گزشتہ سال 2017ء تک امریکا کو 9/11 کے بعد شروع کی گئی جنگوں میں 5.6 ٹریلین (کھرب) ڈالرز خرچ کرنا پڑے اور اس رقم کا بڑا حصہ عراق کی جنگ پر خرچ ہوا۔ عراق کی جنگ میں 4,800 امریکی فوجی بھی ہلاک ہوئے جبکہ تین لاکھ سے زائد امریکی فوجی ایسے ہیں جو اس جنگ کے باعث جسمانی اور ذہنی طور پر معذور ہوئے۔ 9/11 کے بعد جنگوں کا جواز بناتے ہوئے امریکی حکمران طبقات نے امریکا میں مواصلاتی رابطوں، موبائل کالز، ٹیلی فون کالز اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے رابطوں پر بھی ریاست کی نگرانی کو اتنا زیادہ سخت کردیا کہ امریکا عملی طور پر جمہوری ریاست کی بجائے ’’قومی سلامتی‘‘ کی ایک ریاست بن کر رہ گیا۔
عراق جنگ کے حوالے سے امریکی حکمران طبقات کو جہاں ایک طرف امریکی سماج کے کئی حصوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری طرف کئی ریاستی عہدیداروں کی جانب سے بھی عراق کی اس جنگ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
امریکی ادارے ’’سی آئی اے‘‘ کے سابق عہدیدار جان نکسن کا شمار بھی ایسے عہدیداروں میں ہوتا ہے۔ جان نکسن نے عراق کی جنگ اور صدام حسین پر حاصل کئے گئے حقائق کو 2016ء میں اپنی کتاب ڈیبریفنگ دی پریذیڈنٹ میں پیش کیا۔ جان نکسن، صدام حسین کی گرفتاری سے بہت پہلے صدام اور اس کے اقتدار پر تحقیق کررہے تھے۔ نکسن نے جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں صدام حسین کی شخصیت اور اقتدار پر ہی اپنا تھیسس لکھا تھا۔ نکسن 1998ء میں سی آئی اے میں شامل کئے گئے اور انہیں عراقی قیادت یعنی صدام حسین پر مکمل تحقیق کرنے کا کام سونپا گیا، جس وقت صدام حسین کو گرفتار کیا گیا اس وقت بھی وہ صدام حسین اور عراقی امور پر ہی انٹیلی جنس کی بنیادوں پر کام کر رہے تھے۔
امریکی حکومت کے حکم پر جب نکسن نے صدام حسین سے اپنی تفتیش کا آغاز کیا تو اس کو ایسے محسوس ہوا کہ صدام حسین کے بارے میں امریکیوں کی سوچ مکمل طور پر درست نہیں تھی۔ نکسن نے جب صدام حسین سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں دریافت کیا تو صدام نے جواب دیا ’’عراق کوئی دہشت گرد ریاست نہیں تھی۔ ہمارے اسامہ بن لادن کے ساتھ کوئی تعلقات نہیں تھے نہ ہی ہمارے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود تھے، مگر تمہارا صدر (بش) کہتا ہے کہ عراق میرے والد (بش سینئر) کو مارنا چاہتا ہے۔‘‘ نکسن نے جب صدام حسین سے پوچھا کہ کیا کبھی اس نے سعودی عرب میں امریکی افواج پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے حملہ کرنے کے بارے میں سوچا؟ اس پر صدام نے جواب دیا ’’ہم نے کبھی ایسا نہیں سوچا۔ کیا دنیا میں ذرا سی بھی عقل رکھنے والا شخص کیمیکل ہتھیاروں سے حملہ کرنے کا سوچ سکتا ہے۔ ہم پر بھی یہ ہتھیار کبھی استعمال نہیں کئے گئے تو ہم ایسا کرنے کا کیوں سوچتے؟‘‘ اس پر نکسن نے سوال کیا تو پھر امریکا نے آپ کی بات کیوں نہیں سنی۔