Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

عراق پر حملہ آور امریکی اور برطانوی فوجی ناقابل علاج

احمد نجیب زادے
عراق پر حملہ آور ہونے والے لاکھوں امریکی و برطانوی فوجیوں کو جس پُراسرار بیماری نے آن گھیرا تھا، اس کی تشخیص کے لئے بنائے جانے والے برطانوی بورڈ نے ہاتھ کھڑے کر لئے ہیں۔ شاہی طبی کمیشن نے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں فیصلہ نہیں کرسکتا کہ ”گلف وار سینڈروم“ کون سی بیماری ہے اور یہ کس وجہ سے امریکی و برطانوی فوجیوں کو لاحق ہوئی ہے۔ اس حوالے سے ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ متاثرہ فوجیوں کو فالج، گھبراہٹ، جسم میں اکڑاؤ، سوچ کے کمتر ارتکاز، عقل سلب ہوجانے سمیت یادداشت کھو جانے اور ہاتھ ہیروں پر کنٹرول ختم ہوجانے جیسے ان گنت عوارض لاحق ہوئے تھے، جس کی وجہ سے لاکھوں فوجی اس وقت ”عضو معطل“ بن کر زندگی کے دن گھسیٹ رہے ہیں اور ان کے علاج کیلئے تشخیص کی تمام تر کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ یاد رہے کہ جنگ عراق میں امریکی، برطانوی اور اتحادی افواج کی عراقی سویلینز پر کی جانے والی بے محابا بمباری، بے گناہ ہلاکتوں اور عراقی باشندوں پر امریکی و برطانوی فوجیوں کے بے سفاکانہ تشدد کا نشانہ بننے والے افراد اور ان کے لواحقین کی جانب سے امریکی و برطانوی فوجیوں کی ”گلف وار سینڈروم“ نامی اس بیماری کو عذاب الٰہی قرار دیا جا چکا ہے۔ عراقی دارالحکومت بغداد کے ضلع کاظمیہ سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی ایک عراقی شہری حسین کامل نے لاکھوں اتحادی فوجیوں کی بیماری کو ”خدائی پکڑ“ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مظلوم کی آہیں سن کر قدرت نے امریکی و برطانوی فوجیوں کو گرفتار بلا کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی بیماری کی نہ تو کوئی تشخیص ہورہی ہے اور نہ ہی ان کا کوئی شافی علاج ممکن ہے۔ ادھر برطانوی جریدے ڈیلی میل کی ایک رپورٹ میں ”گلف وار سینڈروم“ کی تباہ کاری کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس وقت بھی کم و بیش ڈھائی لاکھ سے زیادہ برطانوی فوجی اس نامعلوم عارضہ میں مبتلا ہیں اور ان کی ان گنت علامات والی اس بیماری کا ہلکا ترین اثر یہ ہے کہ یہ فوجی اپنے پیروں پر کھڑے بھی نہیں ہوسکتے اور ان کے سر مسلسل چکراتے رہتے ہیں۔ ”برٹش رائل لیجن“ کی جانب سے ایک تازہ سائنسی مطالعہ میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ جنگ خلیج میں عراق پر بمباری اور لڑائی میں شامل سپاہیوں میں ”گلف وارسینڈروم“ بیماری امریکی و برطانوی توپ خانہ کے برسائے جانے والے گولوں میں مستعمل ”ڈپلے ٹیڈیورینیم“ میں سانس لینے کی وجہ سے نہیں پیدا ہوئی تھی، جیساکہ ماضی میں امریکی و برطانوی حکومتوں اور عسکری کمیشن سمیت طبی ماہرین کا خیال تھا۔ برطانیہ کی یونیورسٹی آف پورٹ اسمتھ سے تعلق رکھنے والے ایکسپرٹس نے اس پُراسرار بیماری سے متاثرہ فوجیوں کے جسم میں باقی رہ جانے والے ”ڈپلے ٹیڈیورینیم“ کی مقدار جاننے کیلئے کئی اقسام کے تجربات کئے ہیں اور اب حتمی طور پر ان کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے کسی بھی متاثرہ فوجی کے اندر یہ پُراسرار بیماری ڈپلے ٹیڈیورینیم کی خاطرخواہ مقدار سے نہیں ہوئی تھی۔ اس تحقیق میں شامل پروفیسر رینڈل پیرش نے کہا کہ ان کی اس تحقیق کے نتائج ان تمام محققین کو حیران کرسکتے ہیں جن کا ایک طویل عرصے سے یقین تھا کہ ڈپلے ٹیڈیورینیم کی وجہ سے ان کے اندر یہ پُراسرار عوارض پیدا ہوئے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ امریکی افواج میں آرٹلری کے گولوں پر تابکار مادے یعنی ڈپلے ٹیڈیورینیم کی کوٹنگ یا تہہ چڑھائی جاتی ہے، جس سے یہ اپنے ہدف کو زیادہ ہلاکت خیزی سے نشانہ بناتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ ہدف بنائے گئے علاقوں میں شدید تابکاری پھیلاتے ہیں جس سے ماحولیات، پانی کے ذخائر، جانوروں، پرندوں اور انسانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ کئی محققین کا اس پُراسرار بیماری کے حوالے سے ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکی و برطانوی سپاہیوں میں ”گلف وار سینڈروم“ کی بیماری اعصاب پر حملہ آور ہونے والے کیمیکل سارین کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے لیکن اس سلسلے میں اس خیال کو بھی عام تائید حاصل نہیں ہے اور چند سال قبل رائل وار میڈیسن کارپس کی تحقیق میں اس وقت کے ماہرین کا نیا دعویٰ تھا کہ گلف وار سینڈروم کا بنیادی سبب جنگ کے موقع پر فوجیوں کیلئے بے تحاشا ویکسینیشن تھا لیکن بعدازاں ”تحقیق“ نے اس کو بھی رد کردیا گیا۔ تحقیق میں شامل ”رائل برٹش لیجن“ کا کہنا ہے کہ اس بیماری سے متعلق فہم کی کمی کی وجہ سے جنگ میں حصہ لینے والے فوجیوں پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ برطانوی وزارتِ دفاع کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ اس کا ”گلگ وار سینڈ روم“ کے بارے میں مزید تحقیق کا کوئی ارادہ نہیں ہے مگر وہ اس حوالے سے شائع ہونے والے دیگر تحقیقی مطالعات پر نظر رکھے گی۔ ان گنت امریکی و برطانوی و عالمی طبی و جنگی محققین کا تجزیہ ہے کہ خلیجی جنگ میں حصہ لینے والے تقریباً ڈھائی لاکھ سے زیادہ سپاہیوں میں یہ جنگ منظرنامہ کی بیماری موجود ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے بے خوابی اور یادداشت کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ گلف وار سینڈ روم کا شکار سابق برطانوی فوجی کیری فولر عراق جنگ میں حصہ لینے کے وقت بالکل صحت مند جوان تھے، جو 1991ء کی اس جنگ سے قبل جسمانی کسرت کو بے حد پسند کرتے تھے۔ ان کو اس جنگ سے لگی بیماری کے سبب چالیس سال کی عمر میں فالج کا دورہ پڑا اور اب وہ کہتے ہیں کہ وہ اتنے بیمار ہوچکے ہیں کہ ان کا بستر سے نکلنا مشکل اور عام زندگی بسر کرنا ناممکن ہوچکا ہے۔ کیری نے بے چارگی کے عالم میں دیئے جانے والے انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ان کی پوری زندگی اور پورا وجود ایسے ہی تبدیل ہوگیا۔ مایوس کیری فولر کا ماننا تھا کہ اب ان کی صحت کی جانب واپسی ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بس نقصان ہوچکا ہے اور میری بیماریاں اب سنگین تر ہورہی ہیں۔

مطلقہ خبریں