Thursday, July 31, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

عالمی طاقتوں کی پنجہ آزمائی یا عالمی جنگ۔۔؟؟

امریکی دُنیا پر بالادستی کو 2010ء میں چیلنج ہوگیا تھا جس کا اعتراف خود امریکا نے اُسی سال کیا کہ اُس کو چین اور روس سے خطرہ لاحق ہوگیا ہے، اِس کے بعد امریکا نے بشمول امریکی امراء، پینٹاگون اور ملٹری کمپلیکس نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ امریکی بالادستی کو بحال کرنے کے لئے چار اقدامات اٹھانے ہوں گے، اِن چار اقدامات میں برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالنا، ایشیائی اور افریقی باشندے جو امریکا اور مغرب میں ملازم ہیں اُن کو اپنے اپنے ممالک کو واپس بھیجنا اور تیسرے عالمی کسادبازاری یعنی مہنگائی، چوتھے ایک جنگ۔ امریکا نے برطانیہ کو یورپی یونین سے نکال لیا کیونکہ امریکا کا یہ خیال تھا کہ اگر برطانیہ یورپی یونین میں رہا تو یورپی یونین خود ایک مضبوط حریف بن کر ابھر جائے گا، اب وہ فرانس اور برطانیہ کے درمیان کشیدگی بڑھا رہا ہے۔ فرانس اور آسٹریلیا کے درمیان ایٹمی ایندھن سے چلنے والی آبدوز کا معاہدہ تھا، اُس کو توڑا اور آسٹریلیا اور برطانیہ کے درمیان یہ معاہدہ طے کرایا، اس طرح یہ معاہدہ کئی بلین ڈالرز کا تھا جس سے فرانس کی معیشت پر کاری ضرب پڑی اور یوں کشیدگی بھی بڑھی، اِس کے علاوہ کرونا کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں نے مغربی ممالک کے اپنے اپنے وطن میں واپسی کی اور مہنگائی بھی عروج پر ہے اور ساتھ ساتھ اس نے جنگ کا ماحول خلیج تائیوان، جنوبی بحری چین، خلیج فارس، بحر اسود اور بحر احمر میں پیدا کردیا ہے۔ امریکا تائیوان کو چین کے خلاف اسلحہ فراہم کررہا ہے، وہاں اُن کے فوجی برائے تربیت تعینات کردیئے گئے اور اُس کے بحری اور فضائی جہاز وہاں گشت کررہے ہیں۔ تائیوان میں ابھی امریکا نے چین کی متعین کردہ سرخ لائن عبور نہیں کی، البتہ اشتعال انگیزی عروج پر ہے جبکہ جنوبی بحر چین میں اُس کی ایک ایٹمی آبدوز حادثے کا خود شکار ہوئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا اپنی ایٹمی آبدوز کے پھیرے وہاں کرا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بحر اسود میں اس نے جنگی سطح خطرناک حد تک پہنچا دی ہے، جس پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے برملا کہا ہے کہ امریکا اور نیٹو ہماری دی گئی سرخ لکیر کی خلاف ورزی کرچکا ہے، اس لئے کسی وقت بھی کوئی مشکل کھڑی ہوسکتی ہے۔ امریکا روس کو چاروں طرف سے اُس طرح سے گھیر رہا ہے جیسا کہ وہ چین کو Quad اور AUKUS جیسے معاہدے سے گھیر رہا ہے، Quad میں بھارت، جاپان، آسٹریلیا اور امریکا شامل ہیں مگر بھارت کی کم ہمتی دیکھ کر اس نے سفید فام ممالک پر مشتمل ایک معاہدہ آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا کے درمیان جسے وہ AUKUS کہتے ہیں کرلیں، بحر اسود میں امریکی جنگی بحری بیڑہ موجود ہے اور وہاں B-52 اور F-35 فضائی طیارے جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں، وہ روس کی سرحد سے صرف دس کلومیٹر کے فاصلے پر پروازیں کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ روس یوکرائن پر حملہ کرنا چاہتا ہے، یوکرائن کے صدر زیلنسکی یواکرائنی علاقہ ڈون باس جہاں روسی بڑی تعداد میں رہتے ہیں، ڈرون حملہ کررہا ہے اور ساتھ ساتھ ایک بڑے حملے کی تیاری کررہا ہے، جس کے بعد جنگ کا چھڑ جانا لازمی ہوجائے گا۔ اس سے پہلے روس نے کریمیا کے علاقہ پر قبضہ کرکے یوکرائن کو زک پہنچائی تھی، اس لئے یوکرائن کا خیال ہے کہ وہ ڈون باس کے علاقے پر بھی حملہ کرے گا۔ اس پر امریکا نے یوکرائن کو نیٹو میں شمولیت کی دعوت دی ہے اور نیٹو کے سربراہ اسٹولین برگ نے 27 نومبر 2021ء کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر روس نے یوکرائن کے خلاف فوج استعمال کی تو اس کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ روسی جارحیت کا جواب مزید پابندیوں کی صورت میں ہوگا، یہ بیان نیٹو کے بیان کے مقابلے میں مصالحانہ ہے، اِس کے ساتھ ساتھ امریکا نے بحری قذاقوں کی شکل میں ایرانی فوجیوں پر حملہ کیا ہے، جس میں 9 ایرانی فوجی جاں بحق ہوئے، جواباً ایرانیوں نے جو حملہ کیا اس کی وجہ سے امریکیوں کو کافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا مگر اُس نقصان کی تفصیل منظرعام پر نہیں آئی، البتہ امریکیوں نے یہ ضرور کہا کہ یہ حملہ چاہ بہار کی بندرگاہ سے کیا، اس کا مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ امریکا چاہ بہار کی بندرگاہ پر حملہ کا ارادہ رکھتا ہے اور یوں گوادر کی بندرگاہ پر ڈائریکٹ حملہ کئے بغیر متاثر کرنا چاہتا ہے، اِس کے ساتھ ساتھ امریکا نے پہلے بھی ایرانیوں کے تیل بردار جہاز پر الزام لگایا تھا کہ وہ تیل سپلائی کے جہازوں کے ذریعے حوثی باغیوں کو اسلحہ فراہم کرتا ہے اور انہوں نے ایک جہاز کو پکڑ کر اس کا تیل نکال لیا تھا، جواباً ایرانیوں نے اس امریکی جہاز کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا، یوں یہ تیسری جگہ ہے جہاں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ اِس کے علاوہ امریکا بڑے پیمانے پر تیل جمع کررہا ہے، اگرچہ اُس کے پاس ریاست ہوائی میں بڑے پیمانے پر تیل کے ذخائر موجود ہیں مگر وہ وہاں سے تیل نہیں نکالتا ہے اُس کو محفوظ رکھا ہوا ہے، چین اور روس کو مصروف رکھ کر وہ شاید یہ حکمت عملی بنا چکا ہے کہ ایران کا ایٹمی قضیہ نمٹا دیا جائے اور چین اور روس میں سے کوئی بھی ایران کی مدد کو نہ آسکے۔
دوسری طرف چین اور روسی صدور کی ملاقات میں اہم فیصلے کئے گئے، اِس کے بعد چینی اور روسی وزرائے دفاع کی ملاقات 23نومبر 2021ء کو ویڈیو لنک پر ہوئی، چین کے وزیر دفاع جنرل وی مینگ اور روسی جنرل سرگئی گو نے باہمی دفاع پر بات چیت کی، اِس کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا وہ بہت اہمیت کا حامل ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ چین اور روس کی اسٹرٹیجک دوستی پہاڑ کی طرح مضبوط ہے، اس میں تفرقہ نہیں ڈالا جاسکتا، اُس کو توڑا نہیں جاسکتا، دونوں ممالک کی افواج کے درمیان یکجہتی موجود ہے اور وہ مل کر کام کررہی ہیں، عام فوجی اور اسٹرٹیجک معاملات میں تعلقات روزبروز بڑھتے جارہے ہیں، دونوں اسٹرائیک مشقیں کررہی ہیں، ایک ساتھ گشت بھی کررہی ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ہمہ وقت تیار ہین کہ اُن کی سلامتی کے ساتھ اُن کے دونوں ممالک کے مفادات کو نقصان نہ ہو، اس کے ساتھ ساتھ عالمی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے کام کررہی ہیں۔
یہ صورتِ حال عالمی سلامتی کے لئے بہت خطرناک ہے، مغربی پنڈت اس سلسلے میں یہ کہہ رہے ہیں کہ جو منظرنامہ بن رہا ہے وہ ایک یقینی جنگ کا ہے، جس کو ٹالا نہیں جاسکتا۔ اس میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ طاقت کی پنجہ آزمائی ہے اور آخر میں یہ معاملہ نمٹ جائے گا مگر امریکا کے 2010ء کو پیش نظر رکھا جائے تو اس میں سے تین اقدامات ایک ساتھ چل رہے ہیں، جس میں جنگ آخری مرحلہ ہے۔ کرونا کی نئی نئی اقسام نکال کر دُنیا کو ویسے ہی محدود اور تباہ کیا جارہا ہے، چین کی معاشی پیش رفت کو روکنے کا ایک ذریعہ کہا جاسکتا ہے، ایسی صورتِ حال میں یہ دیکھنا ہوتا کہ بھارت اس میں کیا کردار ادا کرے گا، وہ ہتھیاروں سے لیس ہے، وہ پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے، اس نے S-400 کے نظام خرید لئے ہیں تو پاکستان نے شاہین A-1 کا تجربہ کیا ہے، جو شاید یہ پیغام دیتا ہے کہ پاکستان نے S-400 کو بے اثر کردیا ہے، اِس کے علاوہ اور بھی کچھ کرسکتا ہے مگر پاکستان اس کے لئے تیار ہے، البتہ دُنیا اس وقت سخت جنگ کے خطرے کا شکار ہوتی نظر آ رہی ہے۔
نصرت مرزا (ایڈیٹر انچیف)

مطلقہ خبریں