Thursday, July 17, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ضلع ملیر کو سرسبز و شاداب بنا کر مثال قائم کریں گے

ڈسٹرکٹ ملیر میں شجرکاری مہم 2 ماہ سے جاری ہے، پینے کے پانی کا مسئلہ بلدیاتی بجٹ سے حل کررہے ہیں، بلاول بھٹو کہتے ہیں جہاں انسان رہتے ہیں وہاں کام کریں، جعفر طیار کے منصوبے پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا، ضلع کے بے گھر لوگوں کا سروے کرکے رہائشی اسکیم بنائیں گے، کچرا صفا کرنے کیلئے چین سے معاہدہ ہوچکا ہے، ڈسٹرکٹ ملیر کے چیئرمین جان محمد بلوچ کا نمائندہ ’’زاویۂ نگاہ‘‘ زین العابدین کو انٹرویو

کراچی میں صفائی، سیوریج اور پینے کے پانی کی فراہمی کا مسئلہ سنگین ہوچکا ہے، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی توجہ سے شہری سہولتوں کا فقدان ہے، پھیلتا ہوا شہر سوک اداروں سے سنبھل نہیں پا رہا۔ چھوٹے چھوٹے پلاٹس پر بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر نے سیوریج، پینے کے پانی اور صفائی کے حوالے سے بڑے مسائل کھڑے کر دیئے ہیں، بلدیاتی اداروں میں سیاست سے بھی کارکردگی متاثر ہوتی ہے، 2009ء میں بلدیاتی نمائندوں کی معیاد ختم ہونے کے بعد سوک ادارے ایڈمنسٹریٹر کے ذریعے چہائے جاتے رہے، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد حکومت نے بلدیاتی انتخابات کرائے، 2016ء سے بلدیاتی اداروں میں عوامی نمائندے براجمان ہیں، ان نمائندوں کے آنے کے بعد صفائی، سیوریج، پینے کے پانی اور پارکس و گراؤنڈز کی حالت قدرے بہتر ہونا شروع ہوگئی ہے، ڈسٹرکٹ ملیر کے چیئرمین جان محمد بلوچ نے ’’زاویۂ نگاہ‘‘ کے لئے دئے گئے انٹرویو میں کہا کہ ملیر کو شہر کا مثالی ضلع بنائیں گے۔ یہ دعویٰ کتنا درست ثابت ہوگا یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
سوال: رقبے کے لحاظ سے ایک بڑا ضلع آپ کے پاس ہے، دیگر اضلاع کی طرح کچرے کی صفائی، سیوریج کی ناقص صورتِ حال اور پینے کے پانی کے مسائل حل کرنے کے لئے آپ نے کیا حکمت عملی بنائی اور کس طرح اس پر عمل پیرا ہیں؟
جان محمد بلوچ: ہمارے منتخب ہونے سے قبل 8 سال سے کچرے کی ڈمپنگ ہورہی تھی، وسائل کی کمی تھی، 6 گاڑیاں تھیں جس میں ٹرالر بھی شامل تھے، کام بہت تھا، عوام اور میڈیا کا دباؤ بھی تھا، ہماری لگن تھی ہم نے پرائیویٹ ڈمپر ہائر کئے، دھائی سے تین مہینے ہمارے کارکنوں نے بڑی محنت کی، جس کے نتیجے میں خاصی حد تک صفائی کردی گئی، ضلع ملیر میں 800 سے 850 ٹن روزانہ کی بنیاد پر کچرا اکٹھا ہوتا ہے، 6 گاڑیوں سے اس کو ٹھکانے لگانا ممکن نہیں تھا، ہم نے مزید 22 گاڑیاں جو خراب حالت میں تھیں انہیں ٹھیک کیا، جس سے صفائی کا نظام بہتر ہوا ہے، انہیں ٹھیک کیا، جس سے صفائی کا نظام بہتر ہوا ہے۔
سوال: آپ کو فنڈنگ کا مسئلہ نہیں ہوا کیونکہ یہ عام شکایت ہے کہ بلدیاتی اداروں کے پاس کام کرنے کے لئے رقم نہیں ہوتی؟
جان محمد بلوچ: میں نے لوکل گورنمنٹ کے منسٹر سے رجوع کیا، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ صاحب سے رابطہ کیا، انہوں نے فرمایا اپنی ضروریات کے لئے ڈرافٹ بنا کر لائیں، ہم نے سروے کیا اور ایک جامع رپورٹ بنائی جس کے بعد فنڈز جاری کردیئے گئے، ہم نے ٹیم ورک کا مظاہرہ کیا اور اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ صفائی کے لحاظ سے صورتِ حال کنٹرول میں ہے۔
سوال: صفائی سے متعلق عملے کی کمی بھی مسئلہ رہی ہے، خصوصاً سیوریج کے معاملے میں صورتِ حال بہت خراب ہے، کیا عملے کی کمی پورا کرنے کے لئے نئی بھرتیاں کی گئیں؟
جان محمد بلوچ: عملے کی کمی کا سامنا تھا، 40 سوئپرز رکھے گئے، 20 سے 22 بندے کچرا اٹھانے کے لئے رکھے جارہے ہیں، گٹروں کی صفائی کے لئے 4 کنڈی مینز رکھنے کی سفارش بھی کی ہے۔ یوسی 10، 11، 12 اور 13 میں حالات بہت خراب تھے، کھوکھراپار، بھٹائی آباد میں کچرے کے ڈھیر تھے، یہ ضلع شہری اور دیہی پر مشتمل ہے، ہم نے لوگوں کے تعاون سے اپنا کام کیا اور کامیاب ہوئے۔
سوال: پانی کا ڈسٹرکٹ چیئرمین سے براہ راست واسطہ نہیں، لیکن عوامی نمائندوں سے عوام کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، وہ مسائل کا حل چاہتے ہیں، پینے کے پانی کی سپلائی بہتر کرنے کے لئے آپ نے کیا اقدامات کئے؟
جان محمد بلوچ: پینے کے پانی کی فراہمی واٹر بورڈ کی ذمہ داری ہے، آپ نے درست کہا کہ عوامی نمائندوں پر دباؤ ہوتا ہے کیونکہ انہیں دوبارہ الیکشن میں جانا ہوتا ہے، ہم نے واٹر بورڈ کے حکام سے رابطہ کیا، اپنے علاقے میں ڈی ایم سی کے بجٹ سے کام کیا، جس کے بعد پانی کی فراہمی بہتر ہوئی، 70 فیصد بہتر آئی ہے، ابھی بھی کچھ مسئلہ ہے، اس پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں۔
سوال: پارکس اور پلے گراؤنڈ کی صورتِ حال بھی بدترین ہے، آبادی بڑھتی جارہی ہے لیکن پارکس اور گراؤنڈز کم ہوتے جارہے ہیں، جو ہیں اُن کی حالت بہت خراب ہے؟
جان محمد بلوچ: حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پارکس اور گراؤنڈز کے شعبے میں افرادی قوت کی کمی نہیں ہے لیکن عملی کام نہیں کرتا، میں نے انکوائری کی تو معلوم ہوا بہت اسٹاف ہے پھر ہم نے انہیں سمجھایا کہ اگر آپ تنخواہ لیتے ہیں تو کام بھی کریں۔ ہم نے پارکس اور گراؤنڈز کے اطراف آبادیوں سے تعاون مانگا، ڈور ٹو ڈور لوگوں سے رابطہ کیا جس کے مثبت نتائج نکلے، پارکس اور گراؤنڈز کے مسئلے کو حل کرنے میں 15 فیصد کامیابی ملی ہے، ابھی بہت کام کرنا ہے۔
سوال: ملیر ندی ریتی، بجری اور بالو کے حوالے سے خبروں کی زینت بنی رہتی ہے، سنا ہے اربوں روپے کی کمائی ہوتی ہے، ایک مافیا اس کام میں لگا رہتا ہے؟
جان محمد بلوچ: یہ صوبے کی بلدیاتی منسٹری کا شعبہ ہے، صوبائی حکومت کو شکایت کے حوالے سے توجہ دینی چاہئے، ریتی بجری کا ایک نیٹ ورک موجود ہے، آج کل ملیر ندی سے ریتی بجری اٹھانے کی پابندی ہے، بہت بڑی مقدار میں بجری اور ریتی نکالنے سے زیرزمین پانی متاثر ہوا ہے۔ ریتی، بجری قدرتی فلٹریشن کا کام کرتے ہیں، ڈملوئی پمپ اور میمن گوٹھ کے زیرزمین پانی کے ٹی ڈی ایس مثبت آئے تھے یعنی یہاں کا پانی صحت بخش تھا لیکن اب معاملہ خراب ہورہا ہے۔
سوال: ایگری کلچر کے حوالے سے ملیر زرخیز خطہ تھا، یہ شناخت متاثر ہوچکی ہے بہتری کے لئے آپ کیا کررہے ہیں؟
جان محمد بلوچ: بڑھتی ہوئی آبادی اور ٹاؤن پلاننگ کی وجہ سے زرعی زمین ختم ہوتی جارہی ہیں لیکن جوزمیندار اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں وہ اپنی آبائی زمینوں پر کاشتکاری کررہے ہیں، حالانکہ اب زرعی زمینوں کی اتنی زیادہ آمدنی نہیں ہے، ملیر میں کیلے، امرود، ناریل کے بڑے بڑے باغات تھے، مٹر، ٹماٹر، ہری مرچ تو ملیر کی پہچان تھی بڑے رقبے پر فصل کاشت کی جاتی تھی لیکن پانی کی کمی اور کھاد کا مہنگا ہونا اور دیگر مسائل کی وجہ سے ایگری کلچر کا شعبہ بہت متاثر ہوا۔
سوال: 2015ء میں ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے کراچی شہر میں سینکڑوں لوگ جاں بحق ہوئے تھے، سب سے زیادہ اموات ڈسٹرکٹ ملیر کے علاقوں میں ہوئی تھی، اس سال بھی ہیٹ اسٹراک کا خطرہ ہے، شجرکاری کے حوالے سے آپ کیا کررہے ہیں؟
جان محمد بلوچ: ڈسٹرکٹ ملیر میں شجر کاری مہم 2 مہینے قبل شروع ہوچکی ہے، ہم مختلف علاقوں میں گل مور، نیم، گروشیا، ایولستوریا کے پودے لگا رہے ہیں، اسٹار گیٹ سے ایئرپورٹ تک شاہراہ ہر ہم نے درخت لگوائے، گرین بیلٹ کو خوبصورت پھولوں کے پودوں سے آراستہ کیا اور یہی کچھ ہم پورے ملیر ڈسٹرکٹ میں کررہے ہیں، آئندہ 2 سال میں ملیر ڈسٹرکٹ ہرابھرا نظر آئے گا۔ ہیٹ ویوو کے خطرات کو مدنظر رکھ کر ہم جامع پلان پر عمل کررہے ہیں۔
سوال: آپ کے ڈسٹرکٹ میں جعفر طیار کے علاقے میں پینے کے پانی کے بڑے پراجیکٹ پر کام ہورہا ہے، اطلاعات ہیں کہ تقریباً ایک ارب روپے کا منصوبہ بغیر ٹینڈر جاری کئے، حکومت سندھ نے ایک پرائیویٹ ادارے کو دے دیا ہے، کیا عوامی نوعیت کے اس مسئلے پر آپ کو اعتماد میں لیا گیا جبکہ اس پر تنازعات بھی کھڑے ہورہے ہیں؟
جان محمد بلوچ: پینے کے پانی کے اس منصوبے میں ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا، اگر منصوبے سے عوام کا مفاد ہے، مسائل کم ہوں گے تو اسے مکمل ہونا چاہئے، تنازعہ تو پیدا ہوجاتا ہے اس کے محرکات کو دور کرکے قابو پایا جاسکتا ہے، جہاں تک شفاف طریق کار کا تعلق ہے اس بارے میں متعلقہ ادارے ہی جواب دے سکتے ہیں۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل