Sunday, July 20, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

شنگھائی تعاون تنظیم اور ون بیلٹ ون روڈ

یحییٰ مجاہد

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعاون کے لئے بنائی گئی تنظیم ہے جسے شنگھائی میں 2001ء4 میں قائم کیا گیا۔ ایس سی او میں چین، روس، قازقستان، کرغیزستان اور تاجکستان شامل تھے۔ ان پانچ ممالک کی وجہ سے اسے شنگھائی فائیو کا نام دیا گیا تاہم جب ازبکستان اس میں شامل ہوا تو اس کا نام بدل کر شنگھائی تعاون تنظیم رکھ دیا گیا۔ پاکستان 2005ء سے اس تنظیم کا مبصر ملک تھا جو باقاعدگی سے اجلاسوں میں شریک ہوتا رہا۔ 2010ء میں پاکستان کی طرف سے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے لئے درخواست دی گئی جس پر جولائی 2015ء میں اوفا اجلاس میں پاکستان اور بھارت کی طرف سے رکنیت کے لئے دی گئی درخواست منظور کرلی گئی اور دونوں ملکوں کی تنظیم میں باقاعدہ شمولیت کے لئے طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ وطن عزیز پاکستان کی مذکورہ تنظیم میں شمولیت سے رکن ممالک کی تعداد آٹھ ہوگئی۔ جب پاکستان نے تنظیم کی رکنیت کے لئے ’’ذمہ داریوں کی یادداشت‘‘ پر دستخط کئے تو یہ اس کا مستقل رکن بن گیا۔ 9 جون 2017ء میں پاکستان اور بھارت کو تنظیم کی مستقل رکنیت دی گئی۔ اگرچہ بھارت بھی ’’ایس سی او‘‘ شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن بن چکا ہے تاہم اس کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا بلکہ وہ خود خطہ میں دہشت گردی پروان چڑھانے میں مصروف ہے۔ پاکستان کا تو وجود بھی انڈیا کسی طور برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ہمیشہ دہشت گردی و تخریب کاری کے ذریعہ وطن عزیز پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ 1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے والا بھارت ایک مرتبہ پھر وہی ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے بھارتی ایجنسیوں نے بلوچستان، سندھ و دیگر علاقوں میں لسانیت و صوبائیت پرستی کی بنیاد پر تحریکیں کھڑی کیں اور تخریب کاری کے لئے اربوں روپے خرچ کئے گئے۔ ملک میں دھماکے اور خودکش حملے پروان چڑھانے کے لئے کلبھوشن جیسے نیٹ ورک قائم کئے گئے اور افغانستان میں دہشت گردوں کو نہ صرف محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی گئیں بلکہ سرحدی علاقوں میں قونصل خانوں کے نام پر دہشت گردی کے اڈے قائم کئے گئے۔ بھارتی فوج یہاں دہشت گردوں کو ٹریننگ دے کر پاکستان کے مختلف علاقوں میں داخل کر رہی ہے جو یہاں تخریب کاری و دہشت گردی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ کوئٹہ، پشاور، کراچی، لاہور اور اسلام آباد، راولپنڈی سمیت ملک کا کوئی شہر بھارتی ایجنسیوں کی تخریب کاری سے محفوظ نہیں رہا۔ پاکستانیوں نے ہزاروں شہداء کی لاشیں اٹھائی ہیں۔ افواج پاکستان، رینجرز، پولیس اور دیگر اداروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔ سانحہ پشاور اے پی ایس جیسے واقعات بھی پیش آئے۔ دہشت گرد معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہے تاہم افواج پاکستان اور دفاعی اداروں نے پچھلے چند برسوں میں دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی اور بے پناہ قربانیاں پیش کر کے ملک دشمن ایجنسیوں کے نیٹ ورک بکھیر کر رکھ دیئے۔ اگرچہ اب بھی کبھی کبھار دہشت گرد کوئٹہ جیسے دھماکے کر کے اپنی موجودگی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیاب ہوا ہے اور اس کامیابی کو پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے۔
پاکستان میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر اور معاشی طور پر ملک کو مضبوط ہوتا دیکھ کر بھارت سخت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اسے اب تک یہاں تخریب کاری کے لئے خرچ کئے گئے اپنے اربوں روپے ضائع ہوتے نظر آرہے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ بھی انڈیا کو برداشت نہیں ہو رہا۔ جنوبی ایشیا میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل یہ منصوبہ جوں جوں تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے انڈیا کے اوسان خطا ہو رہے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اس منصوبہ کو ’’گیم چینجر‘‘ کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ سی پیک کے ذریعہ چینی علاقے کاشغر سے شروع ہونے والا یہ تجارتی راستہ پاکستانی بندرگاہ گوادر تک پہنچے گا۔ چین آبنائے ملاکہ جو انڈونیشیا اور ملائیشیا کو علیحدہ کرتی ہے اور چین سے لے کر ویت نام، ہانگ کانگ سے تائیوان اور جنوبی کوریا سے جاپان تک تمام ممالک کا تجارتی راستہ ہے اس پر انحصار کم کر کے ایک چھوٹا تجارتی راستہ بنانا چاہتا ہے تاکہ دنیا بھر میں چینی مصنوعات کم خرچ اور کم وقت میں پہنچ سکیں۔ آبنائے ملاکہ سے چینی تجارتی سامان کو یورپ اور دیگر منڈیوں تک پہنچنے میں پینتالیس دن لگتے ہیں جبکہ کاشغر تا گوادر اقتصادی راہداری کی تکمیل کے بعد یہ سفر کم ہو کر دس دن کا رہ جائے گا۔ پاکستان کو اس راہداری سے یہ فائدہ ہوگا کہ وہ تجارتی سرگرمیوں میں شامل ہو کر معاشی ترقی اور ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ملک تک کا سفر تیزی سے طے کرسکے گا۔ چین کی کوشش ہے کہ وہ صرف گوادر تا کاشغر اقتصادی راہداری کی تکمیل ہی نہیں بلکہ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ مل کرا سی طرح کے سمندری تجارتی راستے بھی کھولے تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدے اٹھائے جاسکیں۔ سی پیک سے پاکستان کے تمام صوبوں کو فوائد حاصل ہوں گے اور ملک میں امن وخوشحالی کا انشا اللہ ایک نیا دور آئے گا۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ناکامی سے دوچار کرنے کے لئے انڈیا نے باقاعدہ ایک سیل قائم کیا ہے جس کی نگرانی ہندو انتہاپسند تنظیم بی جے پی کے وزیراعظم نریندر مودی کے دست راست اجیت دوول کر رہے ہیں۔ بھارت اس سے قبل بھی پاکستان میں کام کرنے والے چینی انجینئروں کے قتل کی سازشیں کرتا رہا ہے تاکہ دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہوں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ دونوں ملک بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور بھارت سرکار کی سازشوں کو سمجھتے ہیں اس لئے پاک چین دوستی کمزور ہونے کی بجائے دن بدن مزید مضبوط ہوئی ہے۔ بھارت سی پیک کو ناکام بنانے کے لئے کروڑوں ڈالر خرچ کر رہا ہے تاہم یہ سب سازشیں دم توڑ رہی ہیں۔ چینی سفیر نے چند دن قبل چینی سفارت خانے میں اپنی گفتگو کے دوران جہاں پاکستان میں اپنے ملک کے باشندوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بات کی ہے کہ یہاں ان کے لئے سیکورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے وہیں انہوں نے بھارت کا نام لئے بغیر یہ بات بھی کہی ہے کہ بعض ملک سی پیک منصوبہ کو ہر صورت ناکام کرنا چاہتے ہیں۔ چین کی اسٹیٹ کونسل نے تین سال قبل ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ کا اعلان کیا جس کے تحت سینٹرل ایشیا، جنوب ایشیا اور عرب علاقوں تک تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے سڑکوں، ریل، پائپ لائنز اور توانائی مراکز قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے ذریعہ چین کا یورپ کے ساتھ رابطہ ہوگا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بحرہند، خلیج فارس اور بحیراوقیانوس سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے چین ون بیلٹ ون روڈ کے ساتھ میری ٹائم سلک روڈ کو بھی تعمیر کر رہا ہے تاکہ دنیا کے 60 سے زائد ممالک کے درمیان سڑک، ریل کے علاوہ سمندری راستوں کے ذریعے بھی تجارتی سرگرمیاں بڑھانے میں مدد حاصل ہو۔ سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے کچھ عرصہ قبل بیجنگ کانفرنس میں واضح طور پر کہا تھا کہ سی پیک منصوبہ سے خطے کے تمام ممالک استفادہ حاصل کرسکتے ہیں لیکن چانکیائی سیاست پر عمل پیرا بھارت نے خود کو اس منصوبہ سے بالکل الگ تھلگ رکھا ہوا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اقتصادی راہداری منصوبہ کے تحت سڑکیں آزاد کشمیراور گلگت سے گزریں۔ حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کے اجلاس میں وزرائے دفاع نے امن و استحکام، ترقی و خوشحالی اور امن کے لئے مشترکہ برادری بنانے کے لئے شنگھائی اسپرٹ کی حمایت کی ہے۔ یہ تنظیم کا پندرھواں اجلاس تھا جس میں پاکستانی وزیردفاع خرم دستگیر خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اپنے شہریوں اور فوجیوں کی قربانیوں کی قیمت پر اپنی سرزمین سے دہشت گردی ختم کی ہے جبکہ مالی طور پر اس جنگ میں 120 ارب ڈالرز سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ افغانستان میں شورش و بدامنی سمیت داعش کی موجودگی ہمسایوں اور خطہ کے لئے عدم تحفظ کا باعث ہے۔ اس وقت خطہ کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں تشدد و شدت پسندی، غربت، منشیات، پناہ گزین، انسانوں کی اسمگلنگ اور بارڈرز کنٹرول شامل ہیں۔ اجلا س سے بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے بھی خطاب کیا اور ایک مرتبہ پھر صاف طور پر ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ میں شامل ہونے سے انکار کیا۔ بھارت کا اس منصوبہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ اقتصادی راہداری کے اس منصوبہ کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ سشما سوراج کی ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ کی مخالفت اور پاکستان کے خلاف زہرآلود باتوں سے انتہاپسند بھارتی حکومت کے ارادے کھل کر واضح ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان بھی انڈیا کی دہشت گردی کو عالمی سطح پر بے نقاب کرے اور دنیا کو بتائے کہ جب تک بھارت کی تشدد پر مبنی پالیسیاں جاری رہیں گی خطہ میں دہشت گردی پر قابو پانا کسی طور ممکن نہیں ہے۔

مطلقہ خبریں