محمد ایاز
شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
الجمہوریۃ العربیۃ السوریۃ جسے اہلِ پاکستان ’’شام‘‘ کے نام سے جانتے ہیں، مشرقِ وسطیٰ کا انتہائی اہم، بڑا اور قدیم ملک ہے، اس کا محلِ وقوع کچھ یوں ہے کہ اس کے مغرب میں لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور اسرائیل، جنوب میں اردن، مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی واقع ہے۔ شام کی موجودہ خانہ جنگی اکیسویں صدی کی بھرپور خانہ جنگی ہے، ملک شام صرف آج ہی اس صورتِ حال سے دوچار نہیں بلکہ ماضی میں بھی مختلف نوعیت کے بحرانوں کا شکار رہا ہے۔ البتہ شام کی موجودہ خانہ جنگی عالمی طاقتوں کی باہم زور آزمائی کا نتیجہ ہے۔ شام کے ماضی پر اگر نظر ڈالی جائے تو ماضی میں شام پر کنعانی، عبرانی، اسیریائی اور بابلی اقوام نے نت نئی تہذیبوں کو جنم دیا، ان اقوام کا زمانہ 2500 قبلِ مسیح سے بھی پہلے کا ہے یعنی شام اْس وقت کی متمدن دنیا کا اہم حصہ تھا۔ اس کے بعد رومیوں، بازنطینیوں، یونانیوں، ایرانیوں اور عربوں نے بھی اس خطے پر حکومت کی۔
مسلمانوں (عربوں) نے 671ء میں اس خطے کو فتح کیا اور 661ء سے 750ء تک یہاں پر سلطنتِ امویہ قائم رہی۔ 750ء میں عباسیوں کے ہاتھوں سلطنت امویہ کی بے دخلی سے یہ خطہ عباسیوں کے زیرنگیں آگیا مگر دارالخلافہ بغداد منتقل کردیا گیا۔ مملوکوں (قرونِ وسطیٰ میں مسلم خلفاء اور ایوبی سلاطین کے لئے خدمات انجام دینے والے مسلم سپاہی تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ زبردست عسکری قوت بن گئے اور ایک سے زیادہ مرتبہ حکومت بھی حاصل کی) نے 1260ء میں اس کو دوبارہ سلطنت کا دارالخلافہ بنایا۔ مختصراً یہ کہ یہ خطہ انیسویں صدی تک عثمانیوں کے تحت رہا۔ سلطنت عثمانیہ کی کمزوریوں کے بعد 1918ء میں فرانسیسیوں اور برطانیویوں کی ایماء پر وہاں ایک حکومت قائم ہوئی اور اس کے نتیجے میں شام کا زیادہ تر علاقہ فرانسیسیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ شریفِ مکہ نے برطانوی سامراج کی ایماء پر خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے دمشق میں ایک حکومت قائم کرنے میں مدد دی جو فیصل بن حسین نے قائم کی۔ جس کے لئے 1919ء میں انتخابات ہوئے اور ایک پارلیمنٹ کا قیام وجود میں آیا مگر اصل طاقت برطانوی سامراج اور اس کے ہمنواؤں کے پاس رہی۔ اس سے پہلے ایک معاہدہ 1916ء میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان خفیہ طور پر ہوا تھا۔ “اسکیس-پیکوٹ ایگریمنٹ ” جس کے تحت برطانیہ اور فرانس نے ایشیائی ممالک کو آپس میں بانٹ دیا تھا، اس طرح اس معاہدے کے تحت شام فرانس کے حصے میں آیا تھا۔ 1920ء میں فرانسیسی افواج نے شام پر مکمل قبضہ کرلیا۔ اسی اثناء میں اس خطے میں کئی مزاحمتی تحریکوں نے جنم لیا۔ فرانس نے شام کو کئی دفعہ مصنوعی آزادی کا فریب دیا۔ 1932ء میں شام میں پہلی دفعہ آزادی کا اعلان ہوا مگر پارلیمنٹ فرانس کی مرضی کی تھی اور تمام کابینہ ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جو فرانس کے حواری تھے۔ اسی وجہ سے شام اس وقت ایک آزاد ملک نہ بن سکا۔
آزادی کی تحریکیں چلتی رہیں حتیٰ کہ اس پارلیمنٹ کو فرانس نے 1939ء میں دوسری جنگ عظیم کا بہانا بنا کر ختم کردیا۔ فرانس خود 1940ء میں جرمنی کے قبضے میں آگیا مگر شام پھر بھی آزاد نہ ہوسکا اور برطانوی اور فرانسیسی افواج نے 1941ء میں پھر شام کو روند ڈالا۔ اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے فرانس نے کئی پارلیمنٹس بنوائیں اور مصنوعی حکومتیں تشکیل دیں مگر خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوا۔ ایسی ہی ایک پارلیمنٹ 1943ء میں تشکیل دی گئی جس کے ساتھ 1944ء میں فرانس نے آزادی کا معاہدہ کیا۔ مگر 1945ء میں فرانسیسی افواج نے دمشق کا محاصرہ کر کے زبردست بمباری کی اور پارلیمنٹ کی عمارت تباہ کردی۔ اس بمباری میں شامی حکومت کے افراد کے علاوہ دو ہزار سے زیادہ عام لوگ، عورتیں اور بچے بھی ہلاک ہوئے۔ اس وقت شام کے صدر شکری القوتلی تھے جن سے برطانوی سفیر نے ملاقات کی اور فرانس کے ساتھ صلح نامے پر دستخط کی تجویز دی جو انہوں نے رد کردی۔ ان کے اس عزم و حوصلے کے باعث ہی فرانس گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا اور اسے اگلے سال شام خالی کرنا پڑا۔ شام کے اس بدقسمت خطے نے دیگر طاقتوں کے مظالم کو جیسے تیسے برداشت کیا اور بالآخر نجات پائی مگر اب اپنوں کے زخم لگانے کی باری تھی۔ 30 مارچ 1949ء کو شامی فوج نے اپنی ہی حکومت کے خلاف شب خون مارا اور اس طرح یکے بعد دیگرے بغاوتوں کا یہ سلسلہ 1955ء تک جاری رہا۔ اس مختصر دورانیے میں تقریباً تین بار فوجی بغاوتیں ہوئیں، نوآزاد ملک کو مختصر وقت میں بہت سخت مراحل سے گزرنا پڑا۔ بالآخر عوامی دباؤ پر 1955ء میں انتخابات ہوئے اور ایک غیرفوجی حکومت قائم ہوئی۔ جس نے مصر اور روس کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا اور مصر کے ساتھ تعلقات اس قدر بڑھ گئے کہ 22 فروری 1958ء کو مصر اور شام نے اتحاد کیا اور ایک متحدہ مملکت قائم کی جس کا نام متحدہ عرب جمہوریہ تھا۔ اس اتحاد کو ایک اور فوجی بغاوت نے توڑا اور شام ایک بار پھر ایک الگ ریاست کے طور پر سامنے آیا۔ 1970ء میں حافظ الاسد نے حکومت پر قبضہ کرکے صدر امین حفیظ کو برطرف کردیا اور اگلے سال ریفرنڈم کرواکر ملک کا صدر بن گیا۔ شام کا موجودہ صدر بشار الاسد اسی حافظ الاسدکا بیٹا ہے۔ حافظ الاسد 1964ء میں شام کی فضائیہ میں کمانڈر کے عہدے پر فائز ہوا اور اس کے تین سال بعد وزیر دفاع بنا۔ 1970ء میں حکومت کا تختہ الٹ کر شام کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر ’’بعث‘‘ پارٹی کا لیڈر منتخب ہوا۔ (شام میں ایک پارلیمانی جمہوری نظام قائم ہے۔’’بعث‘‘ پارٹی کو قانوناً سب سے زیادہ اختیار ہے۔ اگرچہ دیگر پارٹیاں بھی کام کرتی ہیں اور حکومتی نظام کا حصہ ہیں مگر ’’بعث‘‘ پارٹی کو ایک قانون کے تحت برتری حاصل ہے اور عملاً اسی کے نظریات کے تحت حکومت چلتی ہے۔ یہ پارٹیاں مل کر ایک کونسل بناتی ہیں جس کا انتخاب ہر چار سال بعد ہوتاہے مگر اس کونسل کو محدود اختیارات حاصل ہیں۔ اصل اختیارات صدر کو حاصل ہیں جس کی صدارت کی توثیق کے لئے ہر سات سال بعد ایک ریفرنڈم ہوتا ہے۔ صدر کابینہ کا انتخاب کرتا ہے۔ صدر ہی فوج کا سربراہ ہوتا ہے اگرچہ خود فوجی نہیں ہوتا، یہ نظام بعث پارٹی کی حیثیت کو مضبوط رکھتا ہے)۔
ایک سال کے بعد وہ ریفرنڈم کے ذریعے شام کے صدر بنے اور پھر کئی ریفرنڈموں کے ذریعے آخری دم تک عہدۂ صدارت پر باقی رہے۔ ایران کے ساتھ تعلقات میں شدید اضافہ اور اسرائیل کی مخالفت حافظ الاسد حکومت کی پالیسی کی نمایاں خصوصیات ہیں اور یہی تعلقات جو ایران کے ساتھ اس نے استوار کیے تھے آج کل شامی مسلمانوں کے لئے دردسر بنے ہوئے ہیں۔ 2000ء میں حافظ الاسد کے بعد ان کے بیٹے بشارالاسد کو صدر منتخب کیا گیا۔ اس نے بھی اپنے والد کی پالیسیوں کو آگے بڑھایا۔
شام کا حالیہ مسئلہ اس وقت کھڑا ہوا جب معاویہ سیاستی نے اپنے اسکول کی دیوار پر ایک جملہ لکھا کہ ’’ڈاکٹر اگلی باری تمہاری ہے‘‘۔ معاویہ سیاستی ایک شامی طالب علم تھا جو ساتویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ معاویہ کے اس جملے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ تیونس میں زین العابدین عوام کی مزاحمت کو برداشت نہ کرسکا اور بھاگ گیا تو اس پر معاویہ سیاستی نے مذکورہ جملہ لکھا تھا۔ یہ جملہ حکومتی کارندوں سے بالکل برداشت نہیں ہوا اور معاویہ سیاستی کو اٹھا لیا گیا، معاویہ کے ساتھ دو ساتھی اور بھی تھے جب ان بچوں کے والدین ایجنسیز کے پاس اپنے بچوں کو لینے گئے تو ان کی ساتھ حددرجے بدتمیزی کی گئی۔ ان سے کہا گیا کہ ’’بچوں کو بھول جاؤ، نئے پیدا کرلو، تم پیدا نہیں کرسکتے تو اپنی عورتیں ہمارے پاس بھیج دو ہم پیدا کردیں گے‘‘۔ جب یہ گفتگو منہ در منہ کان در کان ہر شہری تک پہنچ گئی تو گویا یہ آخری تنکا تھا جس نے شامی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا اور عوام آناً فاناً سڑکوں پر آگئی اور فوج زندہ باد اور ہمارے بچے واپس کردو کہ نعرے لگانا شروع کردیئے۔ لیکن کسی نے بشارالاسد کا نام لے کر مخالف نعرہ نہیں لگایا مگر دوراہ (اس علاقے کا نام ہے جہاں پر معاویہ نے اپنے اسکول کی دیوار پر جملہ تحریر کیا تھا) سے دور واقع دارالحکومت دمشق میں یہ نعرے عرب اسپرنگ کی آمد سمجھے گئے لہٰذا ترنت ہیلی کاپٹروں سے اسپیشل فورسز دوراہ روانہ کردی گئیں۔ پُرامن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے طاقت کا استعمال ہوا، پہلے روز دو، دوسرے روز آٹھ ہلاکتیں ہوئیں اور یوں سرکاری پھرتیوں کے سبب ایک مقامی جھگڑا انٹرنیٹ پر اپ لوڈ ویڈیوز کے طفیل قومی جھگڑے کا وائرس بن کر دمشق، حماہ، حلب اور رقہ تک احتجاجی انداز میں پھیلتا چلا گیا۔ مزید طاقت مزید مزاحمت اور پھر طاقت کے جواب میں طاقت۔ دوراہ میں حکام نے ان تین بچوں کو عوامی دباؤ میں آکر سینتالیس روز بعد چھوڑ تو دیا مگر سینتالیس دنوں کے بیچ تشدد درتشدد کی کہانی اتنی آگے بڑھ چکی تھی کہ تینوں بچوں کی رہائی کا کوئی مطلب ہی باقی نہ بچا تھا۔28 مارچ 2011ء کو شامی صدر بشار الاسد نے اس زعم میں کہ طاقت کے استعمال سے عوامی مظاہروں کو کچل دیا جائے گا۔ 15 مارچ سے شروع ہوئے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں 28 مارچ تک ساٹھ مظاہرین ہلاک کر دیئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے شام بھر میں پھیلنے لگے۔ 18 اگست 2011ء کو شامی حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کے جواب میں تب امریکی صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور امریکا میں تمام شامی حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ اقدام امریکہ نے بشار الاسد پر روس نوازی کی وجہ سے کیا تھا تاہم شامی صدر نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کر دیئے اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی گئی، شامی حکومت کے ان اقدامات سے شامی عوام سیخ پا ہوگئے اور مختلف مہارت رکھنے والوں نے اپنی خدمات حکومت کی مخالفت میں پیش کیں جس کی مثالیں ملاحظہ ہوں: شامی فضائیہ کے ایک سابق پائلٹ عبود نے قصبے کے نواحی گاؤں نعیمہ میں پندرہ نوجوانوں کو سرکاری اسپیشل فورسز کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ابتدائی تربیت دی، ایک اور شامی شہری ابوقصی جو دبئی میں بطور انجینئر ملازمت کررہا تھا نے جب اپنے شہر کا ماجرا سنا تو نوکری چھوڑ چھاڑ کر واپس آگیا۔ اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا استعمال کرتے ہوئے اس نے پائپوں اور دھاتی اسکریپ کو استعمال کرتے ہوئے دیسی بندوقیں بنانے کا تجربہ کیا، ابوقصی نیم تباہ اور قبضے میں آنے والے سرکاری اسلحے کو دوبارہ مرمت کرکے قابلِ استعمال بناتا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود بھی تشدد کا یہ سلسلہ نہ رکا اور 19 جولائی 2012ء تک حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہوگیا، حلب کی تباہی سے کون واقف نہیں؟ جو کچھ حلب میں ہوا وہ کون نہیں جانتا؟ اگر اب بھی کوئی ناواقف ہے تو حلب کے اوپر ڈھائے گئے مظالم کا اندازہ حلب کے کھنڈرات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، اس طرح درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں بھی جھڑپوں میں شدت آگئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جارہی تھی۔ دسمبر 2012ء میں برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کا قانونی نمائندہ تسلیم کرلیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیریئن کولیشن سے تعاون بھی شروع کردیا گیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیئے۔ دوسری طرف اسد کے خلاف جاری لڑائی میں عسکری گروہ بھی ملوث ہوگئے۔ ان میں القاعدہ نمایاں تھی۔ 19 مارچ 2013ء کو خان العسل میں کیمیائی حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر تعداد شامی فوجیوں کی تھی۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے مطابق یہ سارین گیس کا حملہ تھا تاہم معلوم نہ ہوسکا کہ یہ کارروائی کس نے کی تھی۔ حکومت اور باغی فورسز نے اس حملے کے لئے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی سال عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔ 27 ستمبر 2013ء کو شامی تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے دمشق حکومت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ نہ بنایا تو اس کے خلاف عسکری طاقت استعمال کی جائے گی۔ تب صدر اسد نے ان خطرناک ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے پر رضامندی ظاہر کردی۔ اسی دوران سیاسی خلا کی وجہ سے انتہاپسند گروہ داعش نے شام میں اپنا دائرہ وسیع کرنا شروع کردیا۔ جنوری 2014ء کو شامی شہر الرقہ پہلا شہر تھا، جہاں انتہاپسند گروہ داعش نے مکمل کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جون میں داعش نے اس شہر کو اپنا ’’دارالخلافہ‘‘ قرار دے دیا۔ تب ان جنگجوؤں نے اسی مقام سے اپنے حملوں کا دائرہ وسیع کرنا شروع کردیا۔ 22 ستمبر کو امریکی اتحادی افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔ 23 ستمبر 2015ء کو شامی تنازعے میں روس اگرچہ پہلے بھی بشار الاسد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے تھا تاہم اس دن ماسکو حکومت شامی خانہ جنگی میں عملی طور پر فریق بن گئی۔ تب روسی جنگی طیاروں نے اسد کے مخالفین کے خلاف بمباری کا سلسلہ شروع کردیا۔
مارچ 2016ء میں روسی فضائیہ کی مدد سے شامی دستوں کو مزید تقویت ملی اور جلد ہی انہوں نے جنگجوؤں کے قبضے میں موجود کئی علاقوں کو زیرنگیں کرلیا۔ اس لڑائی میں اب شامی فوج کو ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا تعاون بھی حاصل ہوچکا تھا۔ مارچ میں ہی اس اتحاد نے پالمیرا میں داعش کو شکست دے دی۔ دسمبر 2016ء میں روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے تعاون سے شامی فوج نے حلب میں بھی جہادیوں کو پسپا کردیا۔ تب تک یہ شہر خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ شہری علاقے میں شامی فوج کی یہ پہلی بڑی کامیابی قرار دی گئی۔
جنوری 2017ء کوامریکا، ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کی وجہ سے شامی حکومت اور غیرجہادی گروہوں کے مابین ایک سیزفائر معاہدہ طے پا گیا تاہم اس ڈیل کے تحت جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا۔ اپریل 2017ء کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد حکم دیا کہ شامی حکومت کے اس فوجی اڈے پر میزائل داغے جائیں، جہاں سے مبینہ طور پر خان شیخون میں واقع شامی باغیوں کے ٹھکانوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا۔ اس پوری خانہ جنگی میں امریکہ کا کردار منافقانہ رہا، بشار الاسد چونکہ روس نواز تھا لہٰذا امریکہ نے بشار حکومت گرانے کے لئے باغیوں کی حمایت کی مگر بشار کی ناکامی اسلام پسندوں کی جیت تھی اس لئے وہ اس سے جلد ہی پیچھے ہٹ گیا۔ امریکا نے اعتدال پسند شامی باغیوں کی مدد میں بھی اضافہ کردیا تاہم دوسری طرف روس شامی صدر کو عسکری تعاون فراہم کرتا رہا۔ جون 2017ء کو امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے فائٹرز نے الرقہ کا محاصرہ کرلیا۔ کرد اور عرب جنگجوؤں نے اس شہر میں داعش کو شکست دینے کے لئے کارروائی شروع کی۔ اسی ماہ روس نے اعلان کردیا کہ ایک فضائی حملے میں داعش کا رہنما ابوبکر البغدادی مارا گیا ہے تاہم اس روسی دعوے کی تصدیق نہ ہوسکی۔ اکتوبر 2017ء کو اس فورس نے الرقہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر کارروائی کا آغاز کیا۔ مہینے بھر کی جنگ کے نتیجے میں اس فورس نے 17 اکتوبر کو اعلان کیا کہ جہادیوں کو مکمل طور پر پسپا کردیا گیا ہے۔ اس پیش قدمی کو داعش کے لئے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تاہم شامی خانہ جنگی کے دیگر محاذ پھر بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔ چند مہینے پہلے ترکی نے اپنے دفاع کے لئے شامی علاقے افرین پر کردوں کے خلاف آپریشن زیتون کا آغاز کیا ہے، ترکی کا دعویٰ ہے کہ کردوں نے متعدد بار ترکی کو مذموم سرگرمیوں کا نشانہ بنایا ہے اور کردوں سے ترکی کی سلامتی کو خطرہ ہے، اس آپریشن میں ترکی کو شامی حکومت، روس اور ایران کی اخلاقی حمایت حاصل ہے ان سب کا یہ کہنا ہے کہ کرد باغیوں کو امریکہ سپورٹ کررہا ہے اور ترکی کو اس آپریشن سے روک رہا ہے مگر ترکی وہ کررہا ہے جو اس کے اور شامی عوام کے حق میں ہے۔ یاد رہے کہ دوسرے طرف روس اور شامی حکومت نے شام کے شہر ’’غوطہ‘‘ میں نہتے عوام پر بمباری کا سلسلہ شروع کررکھا ہے جس میں اب تک سینکڑوں شہری شہید ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
شامی خانہ جنگی کی مختصر روداد ملاحظہ کرنے کے بعد ایک عام آدمی بھی اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اگر ان آٹھ برس میں لڑائی شامی بمقابلہ شامی تک ہی محدود رہتی تو شاید ایک آدھ برس میں کسی ایک فریق کی فتح اور دوسرے کی شکست پر منتج ہوچکی ہوتی۔ لیکن شومئی قسمت کہ ایسا نہ ہوسکا اور یہ لڑائی چند ماہ بعد ہی شامیوں کے ہاتھ سے نکل کر عالمی طاقتوں کے مفاد کی جنگ بن گئی اور سرزمین شام عالمی طاقتوں کی پنجہ آزمائی کے لئے گویا ایک میدان جنگ بن گیا ۔ نئے اسلحے کے تجربے ہوں یا زہریلی گیسوں کا انسانوں پر استعمال، انسانی سروں کو بے دردی سے کاٹنا ہو یا عمارتوں کو مکینوں سمیت زمیں بوس کرنا یہ اور اس طرح دیگر واقعات جس سے انسانیت شرما جائے، پچھلے سات آٹھ سال میں سرزمین شام پر رونما ہوئے۔ کثیرتعداد میں شامی بچے یتیم، عورتیں بیوہ اور نوجوان قتل اور بے گھر ہوگئے، لاکھوں شامی ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور آج کل دیگر ممالک میں ہجرت کے دن گزار رہے ہیں۔ بقول ڈاکٹر عبدالوہاب سوری صاحب (صدر شعبہ فلسفہ جامعہ کراچی) آج بھی شام کے اندر اچھی خاصی تعداد میں عوام گھانس کھانے پر مجبور ہیں انہیں کچھ بھی کھانے کو میسر نہیں۔
مسلمانوں (عربوں) نے 671ء میں اس خطے کو فتح کیا اور 661ء سے 750ء تک یہاں پر سلطنتِ امویہ قائم رہی۔ 750ء میں عباسیوں کے ہاتھوں سلطنت امویہ کی بے دخلی سے یہ خطہ عباسیوں کے زیرنگیں آگیا مگر دارالخلافہ بغداد منتقل کردیا گیا۔ مملوکوں (قرونِ وسطیٰ میں مسلم خلفاء اور ایوبی سلاطین کے لئے خدمات انجام دینے والے مسلم سپاہی تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ زبردست عسکری قوت بن گئے اور ایک سے زیادہ مرتبہ حکومت بھی حاصل کی) نے 1260ء میں اس کو دوبارہ سلطنت کا دارالخلافہ بنایا۔ مختصراً یہ کہ یہ خطہ انیسویں صدی تک عثمانیوں کے تحت رہا۔ سلطنت عثمانیہ کی کمزوریوں کے بعد 1918ء میں فرانسیسیوں اور برطانیویوں کی ایماء پر وہاں ایک حکومت قائم ہوئی اور اس کے نتیجے میں شام کا زیادہ تر علاقہ فرانسیسیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ شریفِ مکہ نے برطانوی سامراج کی ایماء پر خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے دمشق میں ایک حکومت قائم کرنے میں مدد دی جو فیصل بن حسین نے قائم کی۔ جس کے لئے 1919ء میں انتخابات ہوئے اور ایک پارلیمنٹ کا قیام وجود میں آیا مگر اصل طاقت برطانوی سامراج اور اس کے ہمنواؤں کے پاس رہی۔ اس سے پہلے ایک معاہدہ 1916ء میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان خفیہ طور پر ہوا تھا۔ “اسکیس-پیکوٹ ایگریمنٹ ” جس کے تحت برطانیہ اور فرانس نے ایشیائی ممالک کو آپس میں بانٹ دیا تھا، اس طرح اس معاہدے کے تحت شام فرانس کے حصے میں آیا تھا۔ 1920ء میں فرانسیسی افواج نے شام پر مکمل قبضہ کرلیا۔ اسی اثناء میں اس خطے میں کئی مزاحمتی تحریکوں نے جنم لیا۔ فرانس نے شام کو کئی دفعہ مصنوعی آزادی کا فریب دیا۔ 1932ء میں شام میں پہلی دفعہ آزادی کا اعلان ہوا مگر پارلیمنٹ فرانس کی مرضی کی تھی اور تمام کابینہ ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جو فرانس کے حواری تھے۔ اسی وجہ سے شام اس وقت ایک آزاد ملک نہ بن سکا۔
آزادی کی تحریکیں چلتی رہیں حتیٰ کہ اس پارلیمنٹ کو فرانس نے 1939ء میں دوسری جنگ عظیم کا بہانا بنا کر ختم کردیا۔ فرانس خود 1940ء میں جرمنی کے قبضے میں آگیا مگر شام پھر بھی آزاد نہ ہوسکا اور برطانوی اور فرانسیسی افواج نے 1941ء میں پھر شام کو روند ڈالا۔ اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے فرانس نے کئی پارلیمنٹس بنوائیں اور مصنوعی حکومتیں تشکیل دیں مگر خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوا۔ ایسی ہی ایک پارلیمنٹ 1943ء میں تشکیل دی گئی جس کے ساتھ 1944ء میں فرانس نے آزادی کا معاہدہ کیا۔ مگر 1945ء میں فرانسیسی افواج نے دمشق کا محاصرہ کر کے زبردست بمباری کی اور پارلیمنٹ کی عمارت تباہ کردی۔ اس بمباری میں شامی حکومت کے افراد کے علاوہ دو ہزار سے زیادہ عام لوگ، عورتیں اور بچے بھی ہلاک ہوئے۔ اس وقت شام کے صدر شکری القوتلی تھے جن سے برطانوی سفیر نے ملاقات کی اور فرانس کے ساتھ صلح نامے پر دستخط کی تجویز دی جو انہوں نے رد کردی۔ ان کے اس عزم و حوصلے کے باعث ہی فرانس گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا اور اسے اگلے سال شام خالی کرنا پڑا۔ شام کے اس بدقسمت خطے نے دیگر طاقتوں کے مظالم کو جیسے تیسے برداشت کیا اور بالآخر نجات پائی مگر اب اپنوں کے زخم لگانے کی باری تھی۔ 30 مارچ 1949ء کو شامی فوج نے اپنی ہی حکومت کے خلاف شب خون مارا اور اس طرح یکے بعد دیگرے بغاوتوں کا یہ سلسلہ 1955ء تک جاری رہا۔ اس مختصر دورانیے میں تقریباً تین بار فوجی بغاوتیں ہوئیں، نوآزاد ملک کو مختصر وقت میں بہت سخت مراحل سے گزرنا پڑا۔ بالآخر عوامی دباؤ پر 1955ء میں انتخابات ہوئے اور ایک غیرفوجی حکومت قائم ہوئی۔ جس نے مصر اور روس کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا اور مصر کے ساتھ تعلقات اس قدر بڑھ گئے کہ 22 فروری 1958ء کو مصر اور شام نے اتحاد کیا اور ایک متحدہ مملکت قائم کی جس کا نام متحدہ عرب جمہوریہ تھا۔ اس اتحاد کو ایک اور فوجی بغاوت نے توڑا اور شام ایک بار پھر ایک الگ ریاست کے طور پر سامنے آیا۔ 1970ء میں حافظ الاسد نے حکومت پر قبضہ کرکے صدر امین حفیظ کو برطرف کردیا اور اگلے سال ریفرنڈم کرواکر ملک کا صدر بن گیا۔ شام کا موجودہ صدر بشار الاسد اسی حافظ الاسدکا بیٹا ہے۔ حافظ الاسد 1964ء میں شام کی فضائیہ میں کمانڈر کے عہدے پر فائز ہوا اور اس کے تین سال بعد وزیر دفاع بنا۔ 1970ء میں حکومت کا تختہ الٹ کر شام کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر ’’بعث‘‘ پارٹی کا لیڈر منتخب ہوا۔ (شام میں ایک پارلیمانی جمہوری نظام قائم ہے۔’’بعث‘‘ پارٹی کو قانوناً سب سے زیادہ اختیار ہے۔ اگرچہ دیگر پارٹیاں بھی کام کرتی ہیں اور حکومتی نظام کا حصہ ہیں مگر ’’بعث‘‘ پارٹی کو ایک قانون کے تحت برتری حاصل ہے اور عملاً اسی کے نظریات کے تحت حکومت چلتی ہے۔ یہ پارٹیاں مل کر ایک کونسل بناتی ہیں جس کا انتخاب ہر چار سال بعد ہوتاہے مگر اس کونسل کو محدود اختیارات حاصل ہیں۔ اصل اختیارات صدر کو حاصل ہیں جس کی صدارت کی توثیق کے لئے ہر سات سال بعد ایک ریفرنڈم ہوتا ہے۔ صدر کابینہ کا انتخاب کرتا ہے۔ صدر ہی فوج کا سربراہ ہوتا ہے اگرچہ خود فوجی نہیں ہوتا، یہ نظام بعث پارٹی کی حیثیت کو مضبوط رکھتا ہے)۔
ایک سال کے بعد وہ ریفرنڈم کے ذریعے شام کے صدر بنے اور پھر کئی ریفرنڈموں کے ذریعے آخری دم تک عہدۂ صدارت پر باقی رہے۔ ایران کے ساتھ تعلقات میں شدید اضافہ اور اسرائیل کی مخالفت حافظ الاسد حکومت کی پالیسی کی نمایاں خصوصیات ہیں اور یہی تعلقات جو ایران کے ساتھ اس نے استوار کیے تھے آج کل شامی مسلمانوں کے لئے دردسر بنے ہوئے ہیں۔ 2000ء میں حافظ الاسد کے بعد ان کے بیٹے بشارالاسد کو صدر منتخب کیا گیا۔ اس نے بھی اپنے والد کی پالیسیوں کو آگے بڑھایا۔
شام کا حالیہ مسئلہ اس وقت کھڑا ہوا جب معاویہ سیاستی نے اپنے اسکول کی دیوار پر ایک جملہ لکھا کہ ’’ڈاکٹر اگلی باری تمہاری ہے‘‘۔ معاویہ سیاستی ایک شامی طالب علم تھا جو ساتویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ معاویہ کے اس جملے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ تیونس میں زین العابدین عوام کی مزاحمت کو برداشت نہ کرسکا اور بھاگ گیا تو اس پر معاویہ سیاستی نے مذکورہ جملہ لکھا تھا۔ یہ جملہ حکومتی کارندوں سے بالکل برداشت نہیں ہوا اور معاویہ سیاستی کو اٹھا لیا گیا، معاویہ کے ساتھ دو ساتھی اور بھی تھے جب ان بچوں کے والدین ایجنسیز کے پاس اپنے بچوں کو لینے گئے تو ان کی ساتھ حددرجے بدتمیزی کی گئی۔ ان سے کہا گیا کہ ’’بچوں کو بھول جاؤ، نئے پیدا کرلو، تم پیدا نہیں کرسکتے تو اپنی عورتیں ہمارے پاس بھیج دو ہم پیدا کردیں گے‘‘۔ جب یہ گفتگو منہ در منہ کان در کان ہر شہری تک پہنچ گئی تو گویا یہ آخری تنکا تھا جس نے شامی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا اور عوام آناً فاناً سڑکوں پر آگئی اور فوج زندہ باد اور ہمارے بچے واپس کردو کہ نعرے لگانا شروع کردیئے۔ لیکن کسی نے بشارالاسد کا نام لے کر مخالف نعرہ نہیں لگایا مگر دوراہ (اس علاقے کا نام ہے جہاں پر معاویہ نے اپنے اسکول کی دیوار پر جملہ تحریر کیا تھا) سے دور واقع دارالحکومت دمشق میں یہ نعرے عرب اسپرنگ کی آمد سمجھے گئے لہٰذا ترنت ہیلی کاپٹروں سے اسپیشل فورسز دوراہ روانہ کردی گئیں۔ پُرامن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے طاقت کا استعمال ہوا، پہلے روز دو، دوسرے روز آٹھ ہلاکتیں ہوئیں اور یوں سرکاری پھرتیوں کے سبب ایک مقامی جھگڑا انٹرنیٹ پر اپ لوڈ ویڈیوز کے طفیل قومی جھگڑے کا وائرس بن کر دمشق، حماہ، حلب اور رقہ تک احتجاجی انداز میں پھیلتا چلا گیا۔ مزید طاقت مزید مزاحمت اور پھر طاقت کے جواب میں طاقت۔ دوراہ میں حکام نے ان تین بچوں کو عوامی دباؤ میں آکر سینتالیس روز بعد چھوڑ تو دیا مگر سینتالیس دنوں کے بیچ تشدد درتشدد کی کہانی اتنی آگے بڑھ چکی تھی کہ تینوں بچوں کی رہائی کا کوئی مطلب ہی باقی نہ بچا تھا۔28 مارچ 2011ء کو شامی صدر بشار الاسد نے اس زعم میں کہ طاقت کے استعمال سے عوامی مظاہروں کو کچل دیا جائے گا۔ 15 مارچ سے شروع ہوئے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں 28 مارچ تک ساٹھ مظاہرین ہلاک کر دیئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے شام بھر میں پھیلنے لگے۔ 18 اگست 2011ء کو شامی حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کے جواب میں تب امریکی صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور امریکا میں تمام شامی حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ اقدام امریکہ نے بشار الاسد پر روس نوازی کی وجہ سے کیا تھا تاہم شامی صدر نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کر دیئے اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی گئی، شامی حکومت کے ان اقدامات سے شامی عوام سیخ پا ہوگئے اور مختلف مہارت رکھنے والوں نے اپنی خدمات حکومت کی مخالفت میں پیش کیں جس کی مثالیں ملاحظہ ہوں: شامی فضائیہ کے ایک سابق پائلٹ عبود نے قصبے کے نواحی گاؤں نعیمہ میں پندرہ نوجوانوں کو سرکاری اسپیشل فورسز کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ابتدائی تربیت دی، ایک اور شامی شہری ابوقصی جو دبئی میں بطور انجینئر ملازمت کررہا تھا نے جب اپنے شہر کا ماجرا سنا تو نوکری چھوڑ چھاڑ کر واپس آگیا۔ اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا استعمال کرتے ہوئے اس نے پائپوں اور دھاتی اسکریپ کو استعمال کرتے ہوئے دیسی بندوقیں بنانے کا تجربہ کیا، ابوقصی نیم تباہ اور قبضے میں آنے والے سرکاری اسلحے کو دوبارہ مرمت کرکے قابلِ استعمال بناتا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود بھی تشدد کا یہ سلسلہ نہ رکا اور 19 جولائی 2012ء تک حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہوگیا، حلب کی تباہی سے کون واقف نہیں؟ جو کچھ حلب میں ہوا وہ کون نہیں جانتا؟ اگر اب بھی کوئی ناواقف ہے تو حلب کے اوپر ڈھائے گئے مظالم کا اندازہ حلب کے کھنڈرات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، اس طرح درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں بھی جھڑپوں میں شدت آگئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جارہی تھی۔ دسمبر 2012ء میں برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کا قانونی نمائندہ تسلیم کرلیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیریئن کولیشن سے تعاون بھی شروع کردیا گیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیئے۔ دوسری طرف اسد کے خلاف جاری لڑائی میں عسکری گروہ بھی ملوث ہوگئے۔ ان میں القاعدہ نمایاں تھی۔ 19 مارچ 2013ء کو خان العسل میں کیمیائی حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر تعداد شامی فوجیوں کی تھی۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے مطابق یہ سارین گیس کا حملہ تھا تاہم معلوم نہ ہوسکا کہ یہ کارروائی کس نے کی تھی۔ حکومت اور باغی فورسز نے اس حملے کے لئے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی سال عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔ 27 ستمبر 2013ء کو شامی تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے دمشق حکومت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ نہ بنایا تو اس کے خلاف عسکری طاقت استعمال کی جائے گی۔ تب صدر اسد نے ان خطرناک ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے پر رضامندی ظاہر کردی۔ اسی دوران سیاسی خلا کی وجہ سے انتہاپسند گروہ داعش نے شام میں اپنا دائرہ وسیع کرنا شروع کردیا۔ جنوری 2014ء کو شامی شہر الرقہ پہلا شہر تھا، جہاں انتہاپسند گروہ داعش نے مکمل کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جون میں داعش نے اس شہر کو اپنا ’’دارالخلافہ‘‘ قرار دے دیا۔ تب ان جنگجوؤں نے اسی مقام سے اپنے حملوں کا دائرہ وسیع کرنا شروع کردیا۔ 22 ستمبر کو امریکی اتحادی افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔ 23 ستمبر 2015ء کو شامی تنازعے میں روس اگرچہ پہلے بھی بشار الاسد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے تھا تاہم اس دن ماسکو حکومت شامی خانہ جنگی میں عملی طور پر فریق بن گئی۔ تب روسی جنگی طیاروں نے اسد کے مخالفین کے خلاف بمباری کا سلسلہ شروع کردیا۔
مارچ 2016ء میں روسی فضائیہ کی مدد سے شامی دستوں کو مزید تقویت ملی اور جلد ہی انہوں نے جنگجوؤں کے قبضے میں موجود کئی علاقوں کو زیرنگیں کرلیا۔ اس لڑائی میں اب شامی فوج کو ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا تعاون بھی حاصل ہوچکا تھا۔ مارچ میں ہی اس اتحاد نے پالمیرا میں داعش کو شکست دے دی۔ دسمبر 2016ء میں روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے تعاون سے شامی فوج نے حلب میں بھی جہادیوں کو پسپا کردیا۔ تب تک یہ شہر خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ شہری علاقے میں شامی فوج کی یہ پہلی بڑی کامیابی قرار دی گئی۔
جنوری 2017ء کوامریکا، ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کی وجہ سے شامی حکومت اور غیرجہادی گروہوں کے مابین ایک سیزفائر معاہدہ طے پا گیا تاہم اس ڈیل کے تحت جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا۔ اپریل 2017ء کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد حکم دیا کہ شامی حکومت کے اس فوجی اڈے پر میزائل داغے جائیں، جہاں سے مبینہ طور پر خان شیخون میں واقع شامی باغیوں کے ٹھکانوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا۔ اس پوری خانہ جنگی میں امریکہ کا کردار منافقانہ رہا، بشار الاسد چونکہ روس نواز تھا لہٰذا امریکہ نے بشار حکومت گرانے کے لئے باغیوں کی حمایت کی مگر بشار کی ناکامی اسلام پسندوں کی جیت تھی اس لئے وہ اس سے جلد ہی پیچھے ہٹ گیا۔ امریکا نے اعتدال پسند شامی باغیوں کی مدد میں بھی اضافہ کردیا تاہم دوسری طرف روس شامی صدر کو عسکری تعاون فراہم کرتا رہا۔ جون 2017ء کو امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے فائٹرز نے الرقہ کا محاصرہ کرلیا۔ کرد اور عرب جنگجوؤں نے اس شہر میں داعش کو شکست دینے کے لئے کارروائی شروع کی۔ اسی ماہ روس نے اعلان کردیا کہ ایک فضائی حملے میں داعش کا رہنما ابوبکر البغدادی مارا گیا ہے تاہم اس روسی دعوے کی تصدیق نہ ہوسکی۔ اکتوبر 2017ء کو اس فورس نے الرقہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر کارروائی کا آغاز کیا۔ مہینے بھر کی جنگ کے نتیجے میں اس فورس نے 17 اکتوبر کو اعلان کیا کہ جہادیوں کو مکمل طور پر پسپا کردیا گیا ہے۔ اس پیش قدمی کو داعش کے لئے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تاہم شامی خانہ جنگی کے دیگر محاذ پھر بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔ چند مہینے پہلے ترکی نے اپنے دفاع کے لئے شامی علاقے افرین پر کردوں کے خلاف آپریشن زیتون کا آغاز کیا ہے، ترکی کا دعویٰ ہے کہ کردوں نے متعدد بار ترکی کو مذموم سرگرمیوں کا نشانہ بنایا ہے اور کردوں سے ترکی کی سلامتی کو خطرہ ہے، اس آپریشن میں ترکی کو شامی حکومت، روس اور ایران کی اخلاقی حمایت حاصل ہے ان سب کا یہ کہنا ہے کہ کرد باغیوں کو امریکہ سپورٹ کررہا ہے اور ترکی کو اس آپریشن سے روک رہا ہے مگر ترکی وہ کررہا ہے جو اس کے اور شامی عوام کے حق میں ہے۔ یاد رہے کہ دوسرے طرف روس اور شامی حکومت نے شام کے شہر ’’غوطہ‘‘ میں نہتے عوام پر بمباری کا سلسلہ شروع کررکھا ہے جس میں اب تک سینکڑوں شہری شہید ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
شامی خانہ جنگی کی مختصر روداد ملاحظہ کرنے کے بعد ایک عام آدمی بھی اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اگر ان آٹھ برس میں لڑائی شامی بمقابلہ شامی تک ہی محدود رہتی تو شاید ایک آدھ برس میں کسی ایک فریق کی فتح اور دوسرے کی شکست پر منتج ہوچکی ہوتی۔ لیکن شومئی قسمت کہ ایسا نہ ہوسکا اور یہ لڑائی چند ماہ بعد ہی شامیوں کے ہاتھ سے نکل کر عالمی طاقتوں کے مفاد کی جنگ بن گئی اور سرزمین شام عالمی طاقتوں کی پنجہ آزمائی کے لئے گویا ایک میدان جنگ بن گیا ۔ نئے اسلحے کے تجربے ہوں یا زہریلی گیسوں کا انسانوں پر استعمال، انسانی سروں کو بے دردی سے کاٹنا ہو یا عمارتوں کو مکینوں سمیت زمیں بوس کرنا یہ اور اس طرح دیگر واقعات جس سے انسانیت شرما جائے، پچھلے سات آٹھ سال میں سرزمین شام پر رونما ہوئے۔ کثیرتعداد میں شامی بچے یتیم، عورتیں بیوہ اور نوجوان قتل اور بے گھر ہوگئے، لاکھوں شامی ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور آج کل دیگر ممالک میں ہجرت کے دن گزار رہے ہیں۔ بقول ڈاکٹر عبدالوہاب سوری صاحب (صدر شعبہ فلسفہ جامعہ کراچی) آج بھی شام کے اندر اچھی خاصی تعداد میں عوام گھانس کھانے پر مجبور ہیں انہیں کچھ بھی کھانے کو میسر نہیں۔