امجد چوہدری
ایک باپ اپنے کمسن بیٹے کی لاش کندھے پر اٹھائے، اسے بوسا دیتے ہوئے جارہا ہے، اس کے دل پر کیا قیامت گزر رہی ہوگی، یہ کوئی صاحب اولاد ہی محسوس کرسکتا ہے۔ لیکن ایسے مناظر تو اب اہل شام کا مقدر بن چکے ہیں۔ بچے کے منہ سے نکلنے والی جھاگ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ یہ بے گناہ بھی کیمیائی حملے کا شکار ہوا ہے، یہ حملہ بشار کی فوج نے کیا ہے یا شام کی جنگ میں اتاری گئی ایران کی ملیشیا نے یا پھر روسی طیارے اس کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس بچے کے مجرم وہ سارے عالمی ٹھیکیدار ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ نام کا ادارہ دنیا کا دل بہلانے کے لئے بنا رکھا ہے، جنہوں نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی کے کنونشنز پر دستخط کروا رکھے ہیں، لیکن ان پانچ عالمی ٹھیکیداروں میں سے جب کوئی ایک چاہے، وہ خود یا بشار جیسے اپنے کسی کٹھ پتلی سے ان کنونشنز کو پامال کرا دیتا ہے اور باقی چاروں اس کی خاموش تائید کررہے ہوتے ہیں۔ اس بچے کی مجرم مسلم دنیا بھی ہے، جس نے اہل شام کو بھلا دیا ہے، وہ مسلم حکمران بھی ہیں جنہوں نے اپنے مقاصد کے لئے انہیں جنگ میں جھونکا اور پھر خبر لینے تک نہیں گئے کہ وہ کس حال میں ہیں۔
اہل شام کے غموں کی شام بہت طویل ہوگئی ہے۔ آسمان سے ان کے لئے بارود برستا ہے اور زمین سے آگ۔ انہیں کیمیائی ہتھیاروں سے بھی مارا جارہا ہے اور طویل محاصروں کے ذریعے بھوک سے بھی۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے تین دہائیوں سے زائد مسلط بشار خاندان سے نجات کی خواہش کی تھی۔ وہ اپنی مرضی سے نئے حکمران کا انتخاب کرنا چاہتے تھے، لیکن بشارالاسد کی اقتدار کی بھوک نے ان کا سب کچھ نگل لیا۔ وہ خود تو دمشق کے محل میں اپنے غیرملکی حامیوں کی حفاظت میں رہتا ہے مگر پورا ملک عالمی طاقتوں کی چراگاہ بنا دیا ہے۔ انہیں ان لوگوں کے قتل عام کا کھلا لائسنس دے دیا جنہوں نے تین دہائیوں تک اسے اقتدار میں قبول کئے رکھا۔ وہ روس اور ایران کی مدد سے اپنے لاکھوں شہریوں کو مروا چکا ہے، شہروں کے شہر کھنڈر بنا چکا ہے، تاتاریوں کی طرح حلب میں انسانی سروں کے مینار بنوا چکا ہے، لیکن اب بھی اس کی اقتدار کی ہوس ختم نہیں ہوئی۔ اس کی اپنی اوقات کیا رہ گئی ہے، اس کا اظہار حال ہی میں روسی صدر پیوٹن کے دورۂ شام کے دوران اس وقت ہوگیا تھا جب بشار نے پیوٹن کے ساتھ چلنے کی کوشش کی تو ایک روسی سپاہی نے اسے بازو سے پکڑ کر پیچھے کردیا تھا اور پیچھے چلنے کا حکم دیا تھا۔ آقا اور غلام کا رشتہ واضح کردیا تھا۔ یہ بتا دیا تھا کہ شام کا حکمران اب وہ نہیں بلکہ پیوٹن ہے جس کے سہارے وہ کھڑا ہے۔
شام میں اس وقت گریٹ گیم جاری ہے اور اس میں اصل طاقتیں روس اور امریکا ہیں۔ باقیوں کو آپ باراتی کہہ سکتے ہیں۔ ترکی اگرچہ باراتی نہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنے کردار کے لئے روس کی حمایت کا محتاج ہے اور اس کی یہ محتاجی اس کے لئے مستقبل میں خرابیوں کا سبب بن سکتی ہے۔ شامی عوام نے جب بشار حکومت کے خلاف 2011ء میں بغاوت کا علم بلند کیا تھا تو اس وقت ترکی، سعودی عرب اور قطر نے ان کی حمایت کی، امریکا بھی بظاہر ساتھ تھا لیکن حقیقت میں وہ اہل شام سے زیادہ اس صورتِ حال کو خطے میں اپنے مفادات آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھا۔ بشار نے جب عوامی مزاحمت کو فوجی طاقت سے کچلنے کی کوشش کی اور اس کے جواب میں نوجوانوں نے بھی ہتھیار اٹھا لئے۔ یہی وہ موقع تھا جب امریکا کو وہاں کھل کر مداخلت کا موقع مل گیا۔ اگر امریکا شامی عوامی کے ساتھ مخلص ہوتا تو وہ فوجی کارروائی کے ذریعے انہیں بشار سے نجات دلا سکتا تھا، بالکل اسی طرح جیسے لیبیا میں اس نے اتحادیوں کے ہمراہ کرنل قذافی کے خلاف فوجی کارروائی کی تھی، لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں نے بشار کے خلاف ایسا کچھ نہ کیا۔ البتہ بشار کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کو چھوٹا اسلحہ سپلائی کرکے طویل جنگ کی بنیاد ضرور رکھ دی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکا شروع سے شام کو خانہ جنگی کا شکار کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھا اور اس منصوبے کے لئے ہی بشار کو زندہ اور اقتدار میں رکھا گیا۔ بعدازاں داعش کی انٹری کرائی گئی اور روس بھی 2015ء میں بشار کے حق میں جنگ میں کود گیا، جہاں ایران پہلے ہی بشار کے ساتھ فرقہ وارانہ بنیاد پر شامل ہوچکا تھا۔ روس کی انٹری کی امریکا کو توقع نہیں ہوگی، اس لئے کچھ عرصہ امریکا گومگو کا شکار نظر آیا۔ اوباما جیسے کمزور حکمران کی موجودگی کا روس نے فائدہ اٹھایا اور شام میں عوامی گروپوں کے خلاف ایک خوفناک جنگ کا آغاز کردیا۔ بعدازاں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا نے دانستہ روس کو کھلی چھوٹ دے دی کہ وہ عوامی گروپوں کے ماتحت علاقوں کو اپنی فضائیہ سے تاتار کرتا رہے۔ اس دوران ترکی مسلسل اس بات کا مطالبہ اور کوشش کرتا رہا کہ امریکا اور مغربی اتحادی نوفلائی زون بنائیں تاکہ شامی عوام کا تحفظ کیا جاسکے۔ لیکن امریکا نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ اس کے ساتھ امریکا نے مزاحمتی طاقتوں کو مطالبے کے باوجود ایسے ہتھیار بھی نہ دیئے جو روسی فضائی طاقت کے خلاف موثر ثابت ہوسکتے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا کے بھی شام میں کچھ ایسے مقاصد تھے جو جنگ طویل ہونے پر ہی پورے ہوسکتے تھے۔ روس کی انٹری نے شروع میں اسے پریشان کیا بھی تھا تو اب وہ اس انٹری کو اپنے فائدے میں استعمال کرنے کے لئے تیاری کررہا ہے۔
یہ تو تھا شام کی جنگ کا کچھ پس منظر۔ اب موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں، لیکن اس سے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس قول کا حوالہ ضروری ہے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے، لیکن ظلم کی نہیں۔ ظالم کی رسی رب العالمین بھی کھینچنے میں زیادہ دیر نہیں کرتے۔ شام میں ظلم کرنے والوں کی رسی بھی جلد کھینچ لی جائے گی۔ وہاں اب سارے ظالم جمع ہوگئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ قدرت انہیں آپس میں ایک دوسرے کے ذریعے سزا دلاتی ہے یا پھر وہ کسی اور طرح کے عذاب کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر شام میں موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو وہاں ایک تہائی ملک کا کنٹرول امریکا اور اس کے حامیوں کے پاس ہے، ایک تہائی سے کچھ زیادہ روس اور اس کے حامیوں بشار و ایرانی ملیشیا کے پاس جبکہ کچھ علاقے میں ترکی کی فوج ہے اور باقی میں مزاحمتی گروپ جو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس کے لئے روزانہ روسی فضائی حملے برداشت کررہے ہیں۔ جنگ میں اب نیا فریق اسرائیل بنتا جارہا ہے، جس کے شام میں حملے بڑھ رہے ہیں، وہ اپنے حملوں میں ایرانی فوج اور اس کی حامی ملیشیا کو زیادہ ٹارگٹ کررہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس وقت شام کی جنگ کا اصل فاتح اسرائیل ہے، جس کے لئے یہ سارا ملک کھل گیا ہے، وہ جب چاہے اس پر فضائی حملے کر دیتا ہے، میزائل داغ دیتا ہے۔ شام کے نہتے شہریوں کے خلاف شیربشار کی افواج اور ایرانی ملیشیا اس کے سامنے مزاحمت نہیں کرتیں۔ ان کا محافظ روس بھی اسرائیل کے معاملے پر آنکھیں پھیر کر دوسری طرف کرلیتا ہے۔ اس لئے فی الوقت تو اسرائیل ایرانی ملیشیا اور بشار کی فوج پر عذاب کی طرح مسلط ہوتا نظر آرہا ہے، ایسا لگتا ہے انہوں نے جو مظالم شامی عوام پر ڈھائے ہیں اس کی پکڑ شروع ہورہی ہے۔ جس طرح شامی عوام ان کی طاقت کے آگے بے بس تھے، قدرت نے انہیں اسرائیل کے سامنے اسی طرح بے بس کردیا ہے۔ صبح و شام اسرائیل کے خلاف بھڑکیں مارنے والوں پر اسرائیل حملے کررہا ہے لیکن وہ احتجاج کررہے ہیں۔ قدرت یہ منظر ساری دنیا کو دکھا رہی ہے۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ روس اسرائیل کو کیوں نہیں روک رہا؟ وہ اپنے اتحادی بشار اور ایرانی ملیشیا کو اسرائیل کے خلاف فضائی تحفظ کیوں نہیں دے رہا؟ تو اس کا جواب ایک ہی نظر آتا ہے کہ روس مسلمانوں کو مارنے میں بشار اور اس کے حامیوں کا شراکت دار ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے مسلمانوں کو اس دنیا میں کوئی والی وارث نہیں۔ اسرائیل سے روس پنگا لینا نہیں چاہتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا مطلب ہوگا ساری دنیا کے یہودیوں کو اپنے خلاف کر لینا اور ویسے بھی کون سا وہ بشار کی محبت میں شام آیا ہے۔ وہ تو اپنے مقاصد لے کر آیا ہے، سب سے بڑا مقصد دوبارہ عالمی طاقت کے طور پر اپنی تصویر پیش کرنا، جو وہ پہلے ہی ہزاروں شامی مسلمانوں کا خون بہا کر حاصل کرچکا ہے۔
اگر شام میں امریکا کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو وہ روس اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں نظر آتا ہے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ شام میں معاملات خراب ہونے سے لے کر اب تک اس نے اپنا چہرہ مثبت رکھا ہے، اس نے بشار کو ہٹانے کے لئے عملی طور پر کچھ نہیں کیا، لیکن زبانی جمع خرچ کرتا رہا۔ پھر روس کے برعکس اس کے ہاتھ شامی عوام کے خون سے اس طرح نہیں رنگے ہوئے۔ اس نے کردوں کے ذریعے کرد علاقے میں ڈیرہ ڈال لیا ہے، اسے پُرامن علاقہ بنا کر رکھا ہوا ہے، روس کے برعکس اس نے یہ علاقہ مقامی آبادی پر بمباری کرکے حاصل نہیں کیا، یہ ساری چیزیں اس کے حق میں جاتی ہیں۔ اس لئے ایسا لگتا ہے کہ اس علاقے میں بیٹھ کر وہ نئی گیم شروع کرچکا ہے۔ شام کی جنگ میں سات سال کے عرصے میں مزاحمتی طاقتوں کو امریکا نے طیارہ شکن ہتھیار نہیں دیئے۔ جس سے روس کو جنگ کا پانسہ پلٹنے کا موقع ملا۔ لیکن اب چند ہفتوں سے روس کے خلاف طیارہ شکن ہتھیار استعمال ہونے لگے ہیں۔ اب اچانک روسی طیارے گرنے لگے ہیں۔ اس کے اڈے پر حملے ہوئے ہیں۔ یہ تبدیلی کا اشارہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی طاقت اب شامی مزاحمتی طاقتوں کو روس کی فضائی طاقت سے نمٹنے کے لئے مدد دینے کو تیار ہے۔ شامی عوام میں روس اور ایران کے خلاف بے پناہ نفرت ہے۔ امریکا یہ بات اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ اس نفرت کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا موقع ضائع نہیں کرے گا۔ روسی طیارے گرنا اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اب وہ اس نفرت کو استعمال کرنے کی طرف جارہا ہے۔ افغان جنگ میں اسٹنگر میزائل روس جو اس وقت سوویت یونین تھا، کی تباہی کا سبب بنا تھا۔ اب بھی ایسا کوئی میزائل شام میں اسے سزا دینے کے لئے استعمال ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ایک اور خطرہ بھی منڈلا رہا ہے۔ وہ یہ کہ خفیہ جنگ کسی مرحلے پر کھلی جنگ میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے، کیونکہ یہ طے ہے کہ اس شہید شامی بچے کے منہ سے نکلنے والی جھاگ ضائع نہیں جائے گی۔ وہ بہت سی طاقتوں کو بہا لے جائے گی۔ اس کے لئے ذریعہ کون بنتا ہے اس کی اہمیت نہیں۔ اہل شام پر غموں کی شام مسلط کرنے والوں کو بھی ایسی شامیں دیکھنے کو ملیں گی۔ وہ اس سے فرار حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ قانون قدرت ہے جو کسی کے لئے تبدیل نہیں ہوسکتا۔