Sunday, July 20, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سی پیک کے خلاف بھارتی پراپیگنڈا، چین کا جواب اور ہماری ذمہ داریاں

سید علی عمران

ایک طرف چین پاکستان اقتصادی راہداری منصونے کے بارے میں پاکستان اور چینی عوام کو آپس میں بدذن کرنے کے لئے بھارت کا منفی پراپیگنڈا عروج پر ہے تو دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر اختلافات کو ہوا دینے کے لئے امریکا اپنی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے بیچ نفرت کی چنگاری سلگانے میں مصروف ہے۔ امریکا جانتا ہے کہ ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ جیسے عظیم الشان منصوبے کے ذریعے چین اقتصادی طور پر بہت مضبوط ہوجائے گا اور دنیا میں سلک روٹ ورلڈ آرڈر کا قیام عمل میں آجائے گا۔ اس سلک روٹ کا سب سے اہم کردار سی پیک ہے جو پاکستانی بندرگاہ گوادر سے ہوتا ہوا وسطی ایشیا، خلیجی ممالک، افریقہ اور یورپ کے بیشتر ممالک کو چین سے جوڑتا ہے۔ اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو او بی او آر کے بیشتر روڈ مسلم ممالک سے گزرتے ہیں جبکہ سی پیک اس منصوبے کی شہ رگ تصور کیا جاتا ہے۔ اسی لئے امریکا اور بھارت مل کر نہ صرف پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہیں بلکہ چین میں چاہے جانے والے مذہب بدھ مت کے ماننے والوں کو مسلمانوں سے دنیا کے دیگر علاقوں میں الجھا کر تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنے کی مذموم کوشش بھی کی جارہی ہے، مگر حال ہی میں سی پیک کی حمایت اور پاکستانی معیشت کو درپیش بجلی کے مسائل کے سدباب کے لئے چینی وزارتِ خارجہ کے بیان نے اس منفی پروپیگنڈا کی بولتی بند کردی ہے کہ جس کے مطابق چین نے راہداری کا رخ پاکستان کی بجائے افغانستان اور ایران کی طرف کرلیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ چین نے امریکا کو بھی خبردار کیا ہے کہ اگر امریکا نے تجارتی جنگ چھیڑنے کی کوشش کی تو چین اس کا بھرپور جواب دے گا۔
ایسے میں پاکستانی حکومت کو بھی چاہئے کہ مربوط منصوبہ سازی کے ذریعے سی پیک کے فوائد سے مستفید ہو، کیونکہ پاکستان کا ہر فورم پر ساتھ دینے کی ذمہ داری صرف چین پر عائد نہیں کی جاسکتی۔ ملکی برآمدات کا 55 فیصد حصہ ٹیکسٹائل سے آتا ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی مانگ ہے، رواں مالی سال کے 8 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ملک میں ایک ہزار اسٹیچنگ یونٹس منصوبے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ملک میں شیل گیس کے ذخائر کی دریافت کے سلسلے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے جس پر حکومت کو توجہ دینی ہے۔ ہر اس سیکٹر کو پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے جو سی پیک کی وجہ سے نمو میں آسکتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی سہولت کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے چین سے آنے والے کنٹینرز کی سی پیک روٹ پر مانیٹرنگ و اسکیننگ سختی سے ہونی چاہئے تاکہ اسمگلنگ کو روکا جاسکے جس سے مقامی انڈسٹری تباہ ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمسایہ مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا بھی بے حد ضروری ہے۔ خاص کر ان ممالک کے ساتھ جہاں بھارت اپنا اثرورسوخ استعمال کررہا ہے۔ جیسے افغانستان، ایران اور متحدہ عرب امارات۔ روس کے ساتھ اقتصادی و دفاعی تعلقات بھی آنے والے وقت میں بہت اہمیت اختیار کر جائیں گے جبکہ ترکی کے ساتھ تعلقات کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ جو ممالک سی پیک سے مستفید ہونا چاہتے ہیں تو ان کے ساتھ آزادانہ تجارتی معاہدات کو ملکی تجارتی خسارے کو روکنے کے لئے ازسرنو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
چین نے کہا ہے کہ پاکستان میں چین کی مدد سے تعمیر کئے جانے والے 10 سے زیادہ بجلی گھروں سے پاکستان میں بجلی کی کمی کو مکمل طور پر پورا کیا جائے گا۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے فوائد عام آدمی تک پہنچنے شروع ہوگئے ہیں اور کئی سماجی و اقتصادی مسائل کے حل میں مدد مل رہی ہے۔ چین کی قومی عوامی کانگریس کی 13 ویں قومی کمیٹی کے پہلے سالانہ اجلاس کے بعد چین کے وزیرخاقرجہ وانگ ای نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال مئی میں 140 سے زیادہ ممالک کے نمائندوں نے دی بیلٹ اینڈ روڈ کے حوالے سے عالمی تعاون کی کانفرنس میں شرکت کی جو عالمی برادری کی جانب سے اس منصوبے پر اعتماد اور حمایت کا اظہار ہے۔ اس وقت تک 80 سے زیادہ ممالک اور عالمی تنظیموں نے چین کے ساتھ اس ضمن میں تعاون کے سمجھوتوں پر دستخط کئے ہیں اور تعاون کے کافی منصوبے جاری ہیں۔ چینی وزیرخارجہ وانگ ای نے یہ امید ظاہر کی کہ جون میں چینی شہر چھانگ ڈھاؤ میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کی سمٹ تنظیم کی ترقی کا ایک نیا سنگ میل بن جائے گی اور اس سے علاقائی تعاون کے نئے عہد کا آغاز ہوگا۔ چین نے امریکا کو بھی خبردار کیا ہے کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک تجارتی جنگ کا آغاز کرتے ہیں تو چین اس کا جواب دے گا۔ چینی وزیرخارجہ وانگ ای کی طرف سے یہ انتباہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ فولاد اور ایلومینیم کی درآمدات پر ٹیکس میں اضافے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ چین کے وزیرخارجہ وانگ ای نے بھارت، آسٹریلیا، امریکا اور جاپان کے چار فریقی اتحاد اور مذاکرات کو مسترد کردیا اور کہا کہ یہ توجہ حاصل کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے، جو بہت جلد دم توڑ دے گی۔
دوسری طرف اگر پاکستانی حکومت کی سی پیک کے ذریعے مستفید ہونے کی تیاریوں کی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تیاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی بات سے اندازہ لگا لیجئے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کے آٹھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ملک میں ایک ہزار اسٹیچنگ یونٹس منصوبے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے فروغ اور لوگوں کو روزگار کی فراہمی کے لئے ملک بھر میں ایک ہزار انڈسٹریل اسٹیچنگ یونٹس قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ انڈسٹریل اسٹیچنگ یونٹس ملک کے مختلف علاقوں میں قائم کئے جانے تھے جس کے لئے ٹیکسٹائل انڈسٹری ڈویژن کی جانب سے منصوبے کا پی سی ون بھی تیار کیا گیا تھا۔ یہ منصوبہ گزشتہ سال کے وفاقی ترقیاتی پروگرام میں بھی شامل تھا جس کا فائدہ عوام کو ہونے کے علاوہ ملک میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو فروغ بھی دیا جاسکتا ہے تاہم گزشتہ سال بھی اس منصوبے کی منظوری نہ ہوسکی۔
خوشخبری یہ ہے کہ ملک میں شیل گیس کے ذخائر کی دریافت کے سلسلے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے جبکہ او جی ڈی سی ایل نے سندھ میں کنٹرپساکھی کے مقام پر شیل گیس کی تلاش کے لئے جگہ کا تعین کرلیا ہے۔ او جی ڈی سی ایل ذرائع کے مطابق شیل گیس کی موجودگی کے حوالے سے ملک بھر میں سروے کرائے گئے، سروے اور تحقیق کے بعد ملنے والی معلومات کی روشنی میں سندھ میں شیل گیس کے وسیع ذخائر پائے جانے کے ثبوت ملے ہیں، کنٹرپساکھی کے مقام پر شیل گیس کے ذخائر موجود ہیں اور اس علاقے میں شیل گیس کی تلاش کی سرگرمی شروع کرنے کے لئے جگہ کا تعین کرلیا گیا ہے۔ جون تک کام کا آغاز کردیا جائے گا اور اس جگہ پر پہلا کنواں آزمائشی بنیادوں پر کھودا جائے گا جبکہ شروع میں اسے تجارتی بنیادوں کے بجائے صرف تلاش کی مزید سرگرمیوں کے سلسلے میں تحقیقی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ شیل گیس ڈھونڈنے کی سرگرمیاں انتہائی مہنگی اور کامیابی کی شرح کم ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ کمپنیاں اس سلسلے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہی ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے شیل گیس کی پالیسی کا اعلان بھی نہیں کیا گیا۔ سرکاری سطح پر مراعات نہ ہونے کے باعث بھی اس جانب کمپنیوں کا رجحان کم ہے۔ جہاں تک چینی مصنوعات کی پاکستان اسمگلنگ کے معاملات کے حوالے سے حکومتی کارکردگی کا تعلق ہے تو اس ضمن میں وفاقی حکومت نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے تحت راہداری کی سہولت کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے چین سے آنے والے کنٹینرز کی سی پیک روٹ پر موثر مانیٹرنگ و اسکیننگ کے لئے خودکار نظام متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ مقامی انڈسٹری کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاسکے جس کے لئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے محکمہ کسٹمز نے منصوبے کا پی سی ون تیار کرکے حکومتی منظوری کے بعد منصوبہ بندی کمیشن کو بھجوا دیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان بھر سے چین پاکستان اقتصادی راہداری روٹ پر ہر 100 کلومیٹر کے فاصلے کے بعد چیک پوسٹ قائم کی جائے گی جہاں کمپیوٹرائزڈ چیکنگ سسٹم نصب ہوگا اور جدید نوعیت کے حامل اسکینرز اور مشینوں کے ذریعے چینی کنٹینرز کی مانیٹرنگ و چیکنگ ہوگی۔ واضح رہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غلط استعمال سے ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچا ہے اور اربوں روپے کے کنٹینر اسکینڈل منظرعام پر آئے ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت چین سے آنے والا سامان پورے پاکستان سے گزر کر جائے گا، اس لئے اس کی مانیٹرنگ انتہائی ضروری ہے تاکہ جس سامان کو پاکستان سے گزر کر دوسرے ممالک کے لئے جانا ہے، وہ پاکستان میں کسی بھی جگہ راستے میں نہ اتارا جاسکے اور وہ اپنی مطلوبہ منزل پر جائے کیونکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں یہی معاملات سامنے آئے تھے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت آنے والے کنٹینر راستے میں غائب ہوجاتے تھے اور مقامی مارکیٹوں میں وہ سامان فروخت ہورہا ہوتا تھا جس سے ملکی معیشت متاثر ہوئی۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی وجہ سے پاکستان کے بین الاقوامی اقتصادی تعلقات و روابط بحال ہوتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ روس کا پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ازسرنو تشکیل دینا اس پیشنگوئی کی سب سے واضح دلیل ہے۔ امریکا سے تعلقات میں سردمہری کے بعد اب پاکستان روس کے ساتھ اقتصادی روابط کی بحالی کے ساتھ ساتھ دفاعی تعلقات میں بھی اضافہ کررہا ہے۔ روس کے علاوہ ترکی وہ دوسرا بڑا ملک ہے جو سی پیک میں ہرممکن تعاون کے لئے تیار ہے۔ یہاں تک کہ ایران بھی پاکستان اور چین کے ساتھ سی پیک میں چابہار کی شمولیت چاہتا ہے حالانکہ ایرانی معیشت کا انحصار بھارت کے ساتھ تجارت پر منحصر ہے۔ دیگر ممالک میں انڈونیشیا، سعودی عرب، برطانیہ، مالدیپ، سری لنکا، افریقی ممالک، یورپی ممالک اور وسطی ایشیا کے بیشتر ممالک پاکستان سے گزرتی اس راہداری کے فوائد سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔ جون میں شنگھائی تعاون کی تنظیم ایس سی او کا اجلاس منعقد ہورہا ہے اور یہ پاکستان کے لئے سنہری موقع ہے کہ اپنے بین الاقوامی امیج کو بہتر طریقے سے پیش کرے تاکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی مہلت ختم ہونے سے پہلے ایس سی او میں پاکستان اپنا کیس اس طرح دنیا کے سامنے رکھے کہ مہلت ختم ہونے سے پہلے فیصلہ پاکستان کے حق میں ہوجائے۔ اس کے لئے پاکستانی حکومت، اپوزیشن جماعتوں اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔

مطلقہ خبریں