Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سیلاب زدگان کی آبادکاری

ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب نے ایک لاکھ 70 ہزار مربع کلومیٹر رقبے کو زیرآب کیا، جو دُنیا کے 75 ملکوں سے بڑا رقبہ ہے، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق 30 لاکھ گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے، 26 لاکھ مویشی بہہ گئے جبکہ 21 اضلاع میں 10 لاکھ مویشی بیماریوں کا شکار ہیں جو بروقت ویکسین نہ لگنے سے پھیل سکتی ہے، 9 ملین ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں اور تقریباً 11 ملین ایکڑ رقبے پر موجود فصلوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے، جس سے پاکستان میں فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے، سیلاب سے آب پاشی کا نظام بھی درہم برہم ہے، سندھ پنجاب میں 25 ہزار واٹر شیڈز تباہ ہوگئے ہیں، پنجاب میں 2 لنک کینال متاثر ہوئے، سیلاب سے 1300 ارب روپے کے 760 سے زائد آب پاشی کے منصوبے مکمل تباہ ہوئے، سندھ میں 358، پنجاب میں 189، خیبرپختونخوا میں 76، اس کے علاوہ بلوچستان کے درجنوں، گلگت بلتستان کے بھی آب پاشی منصوبے تباہی کا شکار ہوئے، پورے ملک میں تقریباً 36 چھوٹے ڈیمز تباہ ہوئے ہیں، تباہ ہونے والے مساجد، مدارس، تعلیمی ادارے، لائبریریز، کمیونٹی اسپتال، کمیونٹی سینٹر، یونین کونسل آفسز اور سرکاری دفاتر کی تعداد 4414 ہے جبکہ 30 لاکھ سے زائد رہائشی مکانات تباہ ہوچکے ہیں۔ مواصلاتی نظام بھی شدید متاثر ہوا ہے، 6100 کلومیٹر سڑکیں، 356 چھوٹے اور بڑے پل تباہ ہوئے، اب تک کہ اعدادوشمار کے مطابق 440 بچے، 250 عورتوں سمیت 1330 پاکستانی جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ 3935 افراد زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ وبائی امراض کے پھوٹنے کا خطرہ بھی بڑھتا جارہا ہے بلکہ بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے متاثرہ اضلاع میں ملیریا اور ڈینگی کی بیماریاں پھیل رہی ہیں، کراچی بھی ڈینگی سے شدید متاثر ہورہا ہے، سیلاب زدگان کے ریسکیو کے کام میں تینوں مسلح افواج، مقامی انتظامیہ اور فلاحی اداروں کا بہت اہم کردار رہا، اس کے بعد انہیں خوراک کی فراہمی اور متبادل رہائش کے لئے ٹینٹس مہیا کرنا اہم ہدف تھا، جس کے مطلوبہ تعداد میں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے متاثرین کھلے مقامات یا شاہراؤں کے کنارے اپنی مدد آپ کے تحت رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں، حکومت کے لئے سب سے پہلا کام تباہ ہونے والے گھروں کی تعمیر ہے جس کے لئے بین الاقوامی اداروں کو متحرک کیا جاسکتا ہے، اس میں اوورسیز پاکستانیز بھی اہم کردار ادا کررہے ہیں، انہیں مزید متحرک کرنا ہوگا، حکومتی امدادی فنڈز میں تمام شہروں کی تاجر آرگنائزیشن نے دل کھول کر عطیات دیئے ہیں، سابق وزیراعظم عمران خان بھی امداد جمع کرنے کے لئے دو مرتبہ ٹیلی تھون کرچکے ہیں۔ اس طرح اگر جائزہ لیا جائے تو ہر شعبہئ زندگی کے لوگ امدادی کاموں میں جوش و جذبے کے ساتھ شریک ہوئے ہیں، اس میں فلاحی اداروں کا بہت اہم کردار ہے، اس کے ساتھ ہی فنکار برادری بھی متحرک ہے، حدیقہ کیانی جو گلوکارہ کے ساتھ معروف اداکارہ بھی ہیں، جن کو بہت پسند کیا جاتا ہے، انہوں نے اس آفت کو بہت سنجیدہ انداز سے لیا اور سندھ سے لے کر بلوچستان کے دوردراز متاثرہ علاقوں میں تباہی و بربادی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، دشوار گزار راستوں پر چوبیس چوبیس گھنٹے بذریعہ سڑک سفر کرتے ہوئے چھوٹے بچوں کو بلکتے، ماؤں کو غمزدہ اور مردوں کو پریشان دیکھا، کیونکہ ان لوگوں کا سب کچھ اجڑ چکا تھا، حدیقہ کیانی نے ان تمام بربادیوں سے نمٹنے میں اپنا حصہ ڈالنے کا فیصلہ کیا اور بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے دوردراز علاقوں کی بدحالی دیکھ کر مکانات بنانے کا منصوبہ بنایا، ابتدائی طور پر وہ اپنی فلاحی تنظیم ”وسیلہئ راہ“ کے بینر تلے 500 گھروں کی تعمیر کریں گی، انہیں پاک فوج کی مدد بھی حاصل رہے گی، اس کے علاوہ سندھ کے اضلاع میں بھی تباہ ہونے والے گھروں کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔ حدیقہ کیانی کا یہ جذبہ فنکار برادری کے لئے مثال ہے، اگرچہ اداکارہ ریشم اور کچھ مزید فنکاروں نے امدادی سامان متاثرین میں تقسیم کیا ہے مگر نام نہاد سپر اسٹارز، فنکار و فنکارہ ابھی تک متحرک نہیں ہوئے ہیں بلکہ اپنی شوٹنگز میں مصروف ہیں۔ فلموں، ڈرامہ سیریلز میں کردار ادا کرنے کے لئے کروڑوں کا معاوضہ وصول کرنے والے ابھی تک سیلاب زدگان کی طرف متوجہ نہیں ہوسکے ہیں، حدیقہ کیانی نے 2010ء کے سیلاب متاثرین کے لئے خیرپختونخوا میں 255 گھر تعمیر کئے تھے، اس مرتبہ بھی وہ خاصی سرگرم ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ دیگر فلاحی اداروں، کاروباری اور سماجی شخصیات کو اپنے ساتھ ملا کر دکھی انسانیت کی مدد کرسکیں، وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بھی اس تعمیری و بحالی کے کام میں تیزی لانا ہوگی۔ کم لاگت کے گھروں کی تعمیر میں گجرات کے صنعتکار الحاج محمد افضل گوندل مددگار ہوسکتے ہیں، جدید فائبر ٹیکنالوجی کے ذریعے 1000 اسکوائر فٹ کا گھر تقریباً ڈھائی لاکھ روپے
تیار کروا سکتے ہیں، ان کی فیکٹری میں روزانہ کی بنیاد پر 25 رہائشی یونٹس کا تعمیراتی سامان فراہم کرنے کی استعداد ہے، میدانی اور پہاڑی علاقوں میں اس جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کم لاگت کے گھروں کی تعمیر ممکن ہے، گرم و سرد موسم کے لئے بھی یہ موزوں ہیں، ساتھ ہی کسی ناگہانی صورت میں ان گھروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے، پنجاب کے وزیراعلیٰ نے تو اس حوالے سے افضل گوندل صاحب سے رابطہ کیا ہے لیکن زیادہ تباہی سندھ و بلوچستان میں ہوئی ہے، دونوں حکومتوں کو گجرات جا کر گوندل صاحب کی فیکٹری کا دورہ کرنا چاہئے یا انہیں کراچی اور کوئٹہ بلا کر مشاورت کرنا چاہئے، اسی طرح تعمیرات کے شعبے سے وابستہ تجربہ کار افراد سے بھی رہنمائی لینا چاہئے، آباد کا ادارہ اس میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، اس کے تمام بلڈرز کو وسیع تجربہ ہے، کم لاگت کے رہائشی یونٹس کی تعمیر میں وہ بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور فنڈز ریزنگ میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتے ہیں، اگرچہ وہ پہلے ہی سے امدادی کاموں میں مصروف ہیں لیکن تمام ماہرین کو اگر ایک چھت تلے جمع کرکے سائنسی بنیادوں پر کام کیا جائے تو خاطرخواہ نتائج حاصل ہوسکیں گے، اس ضمن میں بیرون ملک مقیم پاکستانی بہت کچھ کرسکتے ہیں، فنڈز ریزنگ کا کام زیادہ بہتر انداز سے کرسکتے ہیں کیونکہ تقریباً 90 لاکھ پاکستانی ملک سے باہر رہتے ہیں، اگر انہیں ایک مربوط پروگرام بنا کر پیش کیا جائے تو وہ اپنے پاکستانی بھائیوں کی دوبارہ آبادکاری میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، سیلاب زدگان کی آبادکاری کے ساتھ اُن کی زراعت کے لئے بھی کام کرنا ہوگا، اگرچہ حکومت سندھ نے گندم اور دیگر اجناس کے بیج مفت فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے جو ایک اچھی پیش رفت ہے، اس کے علاوہ لاکھوں مویشیوں کا جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کا بھی ایک مربوط نظام بنانا ہوگا کیونکہ یہ دیہی علاقے کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ متاثرین کے لئے جانوروں کی سپلائی کا بھی بندوبست کرنا ہوگا، سیلاب زدہ علاقوں سے پانی کی نکاسی جتنی جلد ہوسکے گی اتنا ہی بہتر ہوگا کیونکہ نومبر کے مہینے سے گندم کی بوائی کا کام شروع ہونا ہے، پاکستان کے تمام صوبوں کے بڑے زرعی رقبے پر گندم کی کاشت کی جاتی ہے، اگر بوائی کے عمل میں تاخیر ہوئی یا ایک بڑے رقبے پر سیلابی پانی کے باعث یہ عمل نہ ہوسکا تو گندم کی قلت کا سامنا کرنا ہوگا، اس کے علاوہ کپاس، گنا اور مکئی کی فصلیں بھی کم ہوں گی، زراعت پاکستانی معیشت کے لئے بہت اہم ہے اس کو نقصان ہوا تو منفی اثر پاکستانی صنعت خصوصاً ٹیکسٹائل اور چمڑے کی صنعتوں پر پڑے گا، تمام حکومتوں کو سیاسی داؤ پیچ چھوڑ کر سیلاب زدگان کی آبادکاری میں یکسو ہونا پڑے گا۔

مطلقہ خبریں