Tuesday, December 3, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سیاسی بحران اور امریکا۔۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپوزیشن سے کیا وعدہ پورا کردکھایا، انہیں ایسا سرپرائز دیا کہ وہ سکتے میں آ گئے، تحریک عدم اعتماد کے خلاف پہلے ایک بیانیہ بنایا جس کی عمارت غیرملکی دھمکی کی بنیاد پر کھڑی کی، اپنی ٹیلی ویژن اور جلسہ کی تقریر میں امریکا کا نام لے کر بتایا کہ ان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی سازش تیار کی گئی، اپوزیشن لیڈرز کراچی، لاہور کے امریکی قونصل جنرلز اور اسلام آباد میں تعینات اہم امریکی عہدیدار سے ملتے رہے، ملاقاتوں کا یہ سلسلہ ارکان اسمبلی اور صحافیوں تک بڑھتا گیا، پاکستان کی سیاست میں مداخلت کے تانے بانے بُنے گئے جو کسی طور قابل قبول نہیں ہوسکتے، کسی ملک کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ کسی دوسرے ملک میں اپنی پسند کی حکومت بنانے کے لئے راہ ہموار کرے، عمران خان کا یہ الزام ہوا میں تیر چلانے جیسا نہیں ہے بلکہ کچھ ایسے محرکات ہیں جس کی وجہ سے اس میں وزن ہے، ایک تو وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نجی دورے کے نام پر متعدد مرتبہ امریکا جانا، پھر پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی امریکی یاترا میں تسلسل اور آصف علی زرداری کا امریکا جانا اس بیانیہ کو تقویت دیتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں امریکا کا کردار ہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے منحرف رکن نور عالم خان، راجا ریاض اور دیگر کا امریکی قونصل جنرل سے ملاقات کرنا اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کا ملنا، ایم کیو ایم کی کشور زہرا کا امریکی سفارتکار سے ملاقات کرنا اس بات کی دلیل بن رہا ہے کہ عمران خان کا بیانیہ محض الزام نہیں بلکہ حقیقت سے قریب تر ہے، پھر قومی سلامتی کمیٹی میں اُس خط کا پیش کیا جانا جس میں امریکی عہدیداروں نے میٹنگ کے منٹس تحریر ہیں، اس دعوے کو مزید مضبوط کرتا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں امریکی مداخلت ہورہی ہے کیونکہ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب امریکا کے کہنے یا ایما پر پاکستان کے حکمرانوں کا اقتدار ختم کیا گیا، یہاں تک کہ ان کی زندگی کا خاتمہ کردیا گیا، پہلی مثال تو قائد ملت لیاقت علی خان کا قتل ہے جس میں امریکی ہاتھ ملوث تھا پھر ایوب خان کا اقتدار میں آنا اور انہیں امریکا میں روایت سے ہٹ کر پروٹوکول دینا، بعد میں انہیں بھی احتجاجی تحریک کے ذریعے اقتدار سے الگ کروانا امریکی گیم رہا، ایوب خان کے بارے میں تو قائداعظم محمد علی جناحؒ نے یہ تک کہا تھا کہ تمہیں پی کیپ پہننا بھی نہیں آتی۔ لیکن بعد میں وہی شخص پاکستان کا فیلڈ مارشل بن گیا، امریکی مداخلت کی تیسری بڑی مثال ذوالفقار علی بھٹو کی ہے جنہیں ایٹمی پروگرام شروع کرنے، اسلامک بلاک بنانے اور قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دلوائے جانے کے جرائم میں مذہبی تحریک کا اٹھانا اُسے پورے پاکستان میں زور پکڑوانا امریکی پلان کے مطابق تھا، یہاں تک کہ انہیں نشانِ عبرت بناتے ہوئے پھانسی دلوا دی گئی اور پھر ضیاء الحق کو استعمال کرنے کے بعد انہیں طیارہ حادثے کا نشانہ بنا دیا گیا، سلسلہ یہاں نہیں تھما بلکہ پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج بھی امریکی سیاسی ہارپ کا شکار ہوا اور بالآخر غروب ہوگیا، حالانکہ انہوں نے امریکی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، پھر یہ سلسلہ بے نظیر بھٹو تک آ گیا، اُن سے کچھ یقین دہانیاں اور وعدے لے کر پاکستان واپس آنے کی راہ ہموار کی گئی لیکن جب انہوں نے امریکی کھیل کا حصہ بننے سے انکار کیا تو انہیں بھی راستے سے ہٹا دیا گیا، اسی طرح میاں محمد نواز شریف بھی امریکی انتقام سے نہیں بچ سکے کیونکہ انہوں نے بل کلنٹن کی اربوں ڈالر کی پیش کش ٹھکرا کر ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کی ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا تھا، لہٰذا وہ بھی امریکی نافرمانی پر سزا کے مستحق ٹھہرائے گئے۔ اب یہی کام عمران خان کے ساتھ ہورہا ہے، کیونکہ دورۂ روس بھی امریکیوں کو ناگوار تھا، چین سے بڑھتے مراسم اور افغانستان کی ہزیمت بھی بغض کا باعث بنی۔ امریکیوں نے کھیل پرانا کھیلا، انداز نیا اختیار کیا لیکن اس مرتبہ سارے معاملات کھل کر سامنے آ گئے، اگرچہ اس حکومت کی کارکردگی سے عوام ناخوش ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ امریکا ہمارے ملک میں حکومت گرائے اور بنوائے، وزیراعظم عمران خان نے اس سازش کے خلاف جس طرح اسٹینڈ لیا ہے وہ قابل تعریف ہے، ہم کب تک امریکی اشارے پر سیاسی بساط بچھاتے اور لپیٹتے رہیں گے، اس کو اب رُک جانا چاہئے، اس کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی وزیراعظم کی حکمت عملی بھی مناسب ہے، وہ عوام کے سامنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کے مخالفین پہلے تو بدعنوانی کرتے رہے ہیں اب امریکا کی غلامی اس انداز سے کررہے ہیں کہ غداری کے مرتکب ہورہے ہیں، جس پر یہ ووٹ کے بجائے سزا کے حقدار ہیں، آنے والے دنوں میں عوام تک یہ بیانیہ مزید مقبول ہوگا جس کا سیاسی فائدہ عمران خان کو ہوگا۔

مطلقہ خبریں