Saturday, July 26, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سچی محبت

سچی کہانی
مصطفی حبیب صدیقی

شاہ رخ کی شادی کو چھ سال ہوچکے تھے اس کی ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے۔ وہ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ نہایت خوشگوار زندگی گزار رہا تھا۔ زندگی میں اس سے بڑھ کر سکون اور کیا ہوتا کہ اس کے گھر میں ہر وقت قہقہے گونجتے رہتے۔ وہ خود بھی جولی طبیعت کا مالک تھا۔ بیوی، بچوں سب سے ہی ہنسی مذاق کرتا رہتا۔ گھر کا ماحول خوبصورت اور شاندار تھا۔ بیوی بچوں کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے ہر وقت تیار رہتا۔ مالی طور پر بھی بہتر تھا اور قناعت پسند بھی، جس سے زندگی مزید خوبصورت ہوگئی تھی۔
شاہ رخ نے ایک کمپنی چھوڑ کر دوسری کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی جہاں اس کی تنخواہ پہلے سے دوگنی ہوگئی اور اسے افسر کے طور پر ترقی مل گئی۔ اس کی زیرنگرانی 12 افراد میں 8 لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ وہ نظروں کا بھی بھلا آدمی تھا۔ کہتے ہیں کہ عورت مرد کی نظر خوب پہچانتی ہے اس لئے تمام ہی لڑکیاں اسے پہچان چکی تھیں اور اس پر بھرپور اعتماد کرتی تھیں۔ انہی لڑکیوں میں ایک لڑکی سبین تھی۔ وہ اکثر بجھی بجھی رہتی، چہرے پر میک اپ سے رونق تو تھی، صورت شکل بھی بھلی تھی مگر اطمینان اور سکون کے آثار نہ تھے۔ شاہ رخ ایک ہمدرد اور مدد کرنے والا لڑکا تھا۔ وہ سبین کی اداسی پر پریشان ہوجاتا اور اسے سمجھاتا۔ دفتری کام میں کسی مشکل کی صورت میں اس کی مدد کرتا۔ اس کا مقصد محض ہمدردی تھا مگر سبین اسے کچھ اور ہی سمجھ بیٹھی۔
ایک دن سبین نے شاہ رخ کو دیکھا کہ وہ کھانے کے وقفے کے دوران کینٹین میں چائے پی رہا ہے۔ وہ اپنی ایک دوست کے ساتھ اس کے قریب پہنچی اور نہایت ہمدردی سے پوچھا، آپ کھانا نہیں کھاتے؟ شاہ رخ نے جواب دیا کہ نہیں میں شام کو گھر جا کر ہی کھاتا ہوں۔ سبین نے فوری کہا کہ نہیں سر! کل سے میں آپ کے لئے کھانا لاؤں گی۔ وہ شاہ رخ کے لاکھ منع کرنے پر بھی نہ مانی۔ اگلے دن کھانے کے وقفے کے دوران جب وہ کینٹین جارہا تھا تو سبین نے اسے روک لیا اور زبردستی کھانے کی دعوت دی۔ شاہ رخ نے منع کیا مگر اس نے ایک ادا کے ساتھ اپنی پلیٹ سے بریانی کا ایک چمچہ لے کر شاہ رخ کی طرف بڑھا دیا۔ پھر پوچھنے لگی۔۔۔۔ جی سر، کیسا لگا میرا کھانا؟
شاہ رخ نے یقیناً تعریف ہی کرنا تھی مگر سبین اس تعریف کا بھی کوئی اور مقصد لے رہی تھی جس سے وہ ناآشنا تھا۔ سبین دراصل اسے پسند کرنے لگی تھی، شاہ رخ ڈیل ڈول سے غیرشادی شدہ لگتا تھا تو یہ کیسے پتہ چلے کہ وہ تو تین بچوں کا باپ ہے۔
اور وہ دن بڑا عجیب تھا، سبین صبح سے ہی اداس تھی، اس کے باپ نے آج پھر گھر میں ہنگامہ مچایا تھا، علاقے میں کوئی جھگڑا ہوا تھا، وہ اس پر بہت ناراض تھے، ان کے بندے مار کھا کر آئے تھے، گھر میں گالم گلوچ جاری تھی، اس کا بھائی بھی غرا رہا تھا، سبین کو یہ ماحول بالکل پسند نہ تھا۔ اسی اداسی کے دوران دل میں دبی محبت نے جوش مارا، وہ خود پر قابو نہ رکھ سکی اور شاہ رخ کو فون ملا دیا۔
’’شاہ رخ، میں آپ کو پسند کرتی ہوں، میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی، کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے؟‘‘
سبین نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ دیا، شاہ رخ کو سب سے پہلے تو اپنا نام پکارے جانے پر دھچکا لگا کہ یہ کیا سر سے اچانک نام پر ہی براہ راست! باقی کے جملوں نے تو جیسے اسے ہکابکا کردیا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ سبین نے جس وقت شاہ رخ کو فون کرکے ساری بات کہی تھی اس وقت شاہ رخ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ فلم دیکھ رہا تھا۔ اس کی بیوی نے اپنے شوہر کے چہرے پر پریشانی کے آثار محسوس کرلئے۔ سوال کرنے پر شاہ رخ ٹال گیا۔
اگلے ہی دن شاہ رخ نے کھانے کے وقفے میں سبین کو کینٹین بلوایا، پہلے تو اس کے جذبات کی تعریف کی، پھر حیرت کا اظہار بھی کیا کہ کبھی وہ یہ محسوس ہی نہیں کرسکا تھا کہ سبین اس میں دلچسپی لے رہی ہے۔ اس نے سبین کو بتایا کہ میں تین بچوں کا باپ ہوں۔ سبین کو یقین نہ آیا، اگلے ہی دن شاہ رخ اپنی بڑی بیٹی کے ساتھ دفتر آیا جو اس وقت پانچ سال کی تھی۔ سبین کو ملواتے ہوئے شاہ رخ نے کہا کہ۔۔۔ یہ میری بڑی بیٹی ہے اس سے چھوٹے دو بیٹے ہیں۔ مگر سبین ٹس سے مس نہ ہوئی۔
کہنے لگی، دیکھو شاہ رخ، کچھ بھی ہو، میں اگر تمہیں پسند کرتی ہوں تو تم سے ہی شادی کروں گی۔
یہ کوئی فلمی کہانی معلوم ہوتی تھی، شاہ رخ یہ سب کچھ سبین کا بچپنا سمجھ کر ٹالتا رہا، مگر سبین کے روزانہ ہی میسجز آنے لگے۔ فون پر فون۔ وہ اپنی بیوی سے چھپاتا رہا۔ اسے دفتر میں بھی بدنامی کا ڈر تھا مگر سبین کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہ تھی۔ حتیٰ کے دفتر کے لوگوں نے بھی محسوس کیا کہ ان دونوں میں کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ شاہ رخ نے سبین کو لاکھ سمجھایا کہ اس کی زندگی بہت پُرسکون ہے، وہ اسے تباہ نہ کرے۔ سبین کا کہنا تھا کہ کوئی بات نہیں، سبین اس سے شادی کے لئے تیار ہے۔ شاہ رخ کو کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا۔ ادھر بیوی کو شک ہوچکا تھا، شاہ رخ کے گھر میں کھچاؤ تھا۔ اس کے کام پر بھی اثر پڑنے لگا تھا۔ آخر ایک دن وہ سبین پر بہت غصہ ہوا مگر وہ مسکراتی رہی۔ شاہ رخ غصے میں دفتر سے نکل کر گھر چلا گیا۔
شاہ رخ کی اپنی بیوی سے بہت اچھی دوستی تھی۔ اس نے اپنے دوست کو سب کچھ بتا دیا اور مدد مانگی۔ اس کی بیوی بہت سمجھدار تھی، وہ گھر بچانا جانتی تھی، اس نے شاہ رخ کو بہت پیار سے مشورہ دیا کہ سبین کو نظرانداز کر دو۔ وہ خود پیچھے ہٹ جائے گی۔ شاہ رخ اپنی بیوی کے مشورے پر بھی عمل کرتا رہا مگر سبین پر کوئی اثر نہ ہوا۔ آخر ایک دن سبین نے شاہ رخ سے کہا کہ وہ اپنی بیوی کا نمبر دے وہ خود اس کی بیوی سے بات کرے گی اور اسے راضی کرے گی کہ شاہ رخ کو دوسری شادی کرنے دے۔ شاہ رخ نے اپنی بیوی کا نمبر یہ سوچ کر دے دیا کہ ہوسکتا ہے کہ شاید اس کے کچھ کہنے سننے کے بعد سبین پیچھے ہٹ جائے اور صائمہ، وہ تو پہلے ہی اس فون کے لئے تیار تھی۔ شاہ رخ بتا چکا تھا۔ سبین نے صائمہ سے کہا کہ ’’میں آپ کے شوہر کو پسند کرتی ہوں، محبت کرنا کوئی بُری بات نہیں، میں ان کے بغیر نہیں رہ سکوں گی، آپ کا گھر بہت پُرسکون ہے مگر میں آپ کے گھر میں کوئی دخل نہیں دوں گی۔‘‘ سبین نے پیشکش کی کہ اگر شاہ رخ اس سے شادی کر لے تو وہ اپنے گھر ہی رہے گی، بس شاہ رخ ہفتے میں دو دن اس کے پاس رہے گا۔ سبین نے یہاں تک کہا کہ اس کے باپ کے پاس بہت دولت ہے، وہ تو صرف وقت کاٹنے کے لئے ملازمت کررہی ہے۔ اگر شاہ رخ اس سے شادی کر لے گا تو وہ اس کی زندگی بدل دے گی۔ سب آسائشیں ملیں گی، بچے اچھے اسکول میں پڑھیں گے۔
صائمہ غور سے سبین کی باتیں سنتی رہی۔ پھر پیار سے سمجھایا کہ سہاگ بانٹنے کی چیز نہیں ہوتی، ہم اپنی کم تنخواہ میں ہی خوش ہیں، ہمیں بس ہمارے حال پر چھوڑ دو اور خدا کے لئے ہمارا پیچھا چھوڑ دو۔ مگر سبین نے ایک نہ مانی، دوسری جانب شاہ رخ ایک دوسری کمپنی میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا، وہ نہایت خاموشی سے استعفیٰ دے کر دوسری کمپنی چلا گیا۔ یہاں جب سبین کو پتہ چلا تو بہت جھلملائی مگر ہار نہیں مانی۔ شاہ رخ کو فون کرکے دھمکی دی کہ میں تمہاری اس کمپنی میں بھی آ کر دکھاؤں گی اور پھر یہی ہوا اس نے اپنے باپ کی سیاسی طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کمپنی میں بھی ملازمت حاصل کرلی۔
اب شاہ رخ بہت پریشان تھا۔ آخر ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ یہ شہر ہی چھوڑ دے گا۔ دوسری جانب اس کی بیوی خوفزدہ تھی کہ وہ تنہا بچوں کے ساتھ کیسے رہے گی۔ صائمہ نے سبین کو فون کرکے التجا کی کہ اس کے گھر کی خوشیاں نہ چھینے، سبین، صائمہ کی باتیں سنتی رہی۔ آخر میں ایک ہی جملہ کہا کہ ’’میں نے سچی محبت کی ہے، مجھے کسی چیز کی لالچ نہیں، بس شاہ رخ جیسا مخلص آدمی چاہئے۔‘‘ اور فون بند کردیا۔ شاہ رخ رات بھر سوچتا رہا، صبح اٹھتے ہی استعفیٰ لکھا اور اپنے باس کو پکڑا دیا۔ باس کے پوچھنے پر شاہ رخ نے یہی بتایا کہ بیرون ملک ملازمت مل گئی ہے، وہ جارہا ہے۔ دوسری جانب سبین کو اطلاع مل چکی تھی کہ شاہ رخ نے یہاں سے بھی اس کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا ہے وہ بہت شرمندہ ہوئی۔
سبین اپنے باس کے کمرے میں گئی جو اس کے باپ کا دوست تھا اور شاہ رخ کا استعفیٰ مانگا۔ باس نے اسے دکھایا تو سبین نے اس کے چار ٹکڑے کر ڈالے اور اپنا استعفیٰ دے کر نم آنکھوں کے ساتھ چلی گئی۔ سبین کا فون بند ہوگیا۔ وہ یہ شہر چھوڑ کر چلی گئی۔ شاہ رخ کا استعفیٰ واپس ہوگیا۔ باس کو حقیقت معلوم ہوچکی تھی مگر اس نے پردہ رکھا۔ سبین اب کہاں ہے کوئی نہیں جانتا مگر شاہ رخ آج تک سوچتا ہے کہ کیا واقعی سبین کی محبت سچی تھی؟

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل