Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سول ایٹمی پروگرام برائے انسانی فلاح

ستمبر کے مہینے میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام برائے انسانیت کے حوالے سے تین اہم پیش رفت ہوئی ہیں، ایک تو پاکستان جوہری توانائی کمیشن (پی اے ای سی) کے خدمت کے اعتراف میں پاکستان کو عالمی ادارہ برائے ایٹمی توانائی (آئَ اے ای اے) نے پاکستان کو اپنے بورڈ آف گورنرز کا دو سال کے لئے ممبر منتخب کرلیا ہے، دوسرے کراچی بجلی گھروں پر گنبد نما چھت لگ گئی اور تیسرے پاکستان کو ایٹمی بجلی گھر کے پرزہ جات بنانے کی اجازت مل گئی۔ اس پیش رفت کی وجہ سے پاکستان کے سول ایٹمی پروگرام کے محفوظ ہونے کی باقاعدہ تصدیق ہوگئی ہے، اگرچہ عالمی ادارہ برائے ایٹمی توانائی کے سربراہ اوکیا امانو مارچ 2018ء کو پاکستان کے دورے پر آئے تھے، انہوں نے پاکستان کے ایٹمی بجلی گھروں کو محفوظ ترین قرار دیا تھا اور ساتھ ساتھ پاکستان کی زراعت اور صحت کے میدان میں ترقی کو سراہا تھا، کیونکہ پاکستان نے 109 نئی قسم کی فصلوں کے بیج تیار کر لئے ہیں، پاکستان کے چار زرعی ادارے زرعی میدان میں تحقیق کررہے ہیں جن میں ’’نیا‘‘ ٹنڈوجام سندھ، یہ گہیوں، چاول، کپاس، گنا، آم اور کیلے پر تحقیق کرکے اُن کی پیداوار میں اضافہ اور فروٹ کو لحن دار بنانے پر کام کررہا ہے، اسی وجہ سے ہمارا کیلا اور آم خوشبودار اور ذائقہ دار بنتا چلا جارہا ہے، گیہوں کی پیداوار میں ماشااللہ اتنا اضافہ ہوا ہے کہ ہم نے افغانستان کو بڑی مقدار میں گیہوں بطور امداد دی ہے۔ ’’نیاب‘‘ یہ جوہری ادارہ برائے زراعت و حیاتیات اور پودوں پر تحقیق کرتا ہے جو فیصل آباد میں واقع ہے۔ یہ ادارہ خوراک کو تابکاری کے اثرات پر تحقیق کا مثالی ادارہ بن کر ابھرا ہے۔ تیسرا ادارہ پشاور میں ’’نیفا‘‘ کے نام سے قائم ہے، اِس ادارے کو جوہری ادارہ برائے خوراک و زراعت کہا جاتا ہے۔ یہ ادارہ زمین کو زرخیز بنانے، فصلوں کی پیداوار کو تحفظ فراہم کرنے، پانی کے نظام کا بندوبست اور خوراک کے وسائل کو اضافی قوت فراہم کرنے کے کام پر تحقیق کرتا ہے۔ چوتھا ادارہ نبجی فیصل آباد میں قائم ہے، اِس ادارے کے ذریعے پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہوگیا ہے کہ اس نے جوہری ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے زراعت کی پیداوار میں گرانقدر اضافے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اس نے زراعت کو نقصان پہنچانے والے حشرات سے بچاؤ کی ٹیکنالوجی، پودوں کی افزائش، مال و مویشی کی صحت کا خیال اور خوراک کو رفع آلودگی اور اُن کو محفوظ بنانے کے لئے نت نئے طریقے ایجاد کر لئے ہیں۔ فصلوں کی نئی اقسام کو ایجاد کرنے میں تحقیق کی، اسی وجہ سے آئی اے ای اے کے چیئرمین نے مارچ 2018ء کو کراچی میں ایک مذاکرہ میں کہا تھا کہ وہ جب بھی پاکستان آتے ہیں تو اُن کو کچھ نہ کچھ نئی ایجادات اور انسانی خدمت کے حوالے سے نئی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ صحت کے میدان میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن نے جو خدمات سرانجام دی ہیں اُن کی تعریف بھی اوکیا امانو نے بھرپور الفاظ میں کی۔ پاکستان میں عمومی طور پر عورتوں کے سینے کا کینسر، گلٹی اور گلے کا کینسر ہوتا ہے، اس کے لئے پاکستان میں 18 مراکز تندہی کے ساتھ انسانیت کی خدمت کے حوالے سے کام کررہے ہیں، اگرچہ اُن کے ناموں کی تفصیل ہم نے بیان کردی تھی مگر پھر بھی کراچی میں دو ادارے ایک ’’کرن‘‘ کے نام سے کراچی یونیورسٹی کے قریب اور ایک جناح اسپتال میں قائم ہے۔ اس کے علاوہ لاہور میں بھی دو، حیدرآباد، نواب شاہ، لاڑکانہ میں ایک ایک، گجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان، ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ، بنوں، پشاور، سوات، ایبٹ آباد میں ایک ایک جدید آلات سے آراستہ اسپتال کام کررہے ہیں اور یہاں کینسر کے آخری اسٹیج کے مریضوں کو بھی داخل کرلیا جاتا ہے اور اگر کسی کے پاس علاج اور ادویات کے لئے پیسے نہیں ہوں تو اس کا بھی یہ ادارہ بندوبست کردیتا ہے، چنانچہ عالمی سطح پر پاکستان کی اِن خدمات کو سراہا گیا۔ ایٹمی بجلی گھروں کے حوالے سے بھی عالمی ادارہ کے سربراہ نے تعریف و توصیف اس طرح کی ’’یہ ایٹمی بجلی گھر محفوظ ترین ہیں، یہاں افرادی قوت سے بھی حفاظت کا بہترین انتظام ہے‘‘۔ انہوں نے کینپ کا دورہ کیا جس کو پاکستان 45 سالوں سے کامیابی سے چلا رہا ہے، اُس کی ایٹمی بجلی گھر کو چلانے کی مہارت اس لئے بڑھ گئی کہ جب امریکہ نے 1998ء میں پابندیاں لگا دیں تو پاکستان نے اس کو چلانے کے لئے پرزہ جات تک پاکستان میں بنا ڈالے، اس کے بعد چشمہ 1 سے لے کر چشمہ 4 تک کامیابی سے چلایا جارہا ہے اور تقریباً 1400 میگاواٹ بجلی ایٹمی ذریعے سے نیشنل گرڈ میں داخل کی جاتی ہے۔ کراچی میں 2013ء میں اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کے ٹو اور کے تھری کی تعمیر کی اینٹ رکھی تھی، ان جدید ترین ایٹمی بجلی گھروں کی عمارت کی تعمیر کا کام 2018ء میں مکمل ہوگیا ہے، چھ ماہ پہلے کے ٹو کی ایٹمی بجلی گھر کی بلڈنگ پر گنبد نما چھت لگا دی گئی تھی اور کے تھری کی گنبد نما چھت 29 ستمبر 2018ء کو ڈال دی گئی، یہ گنبد نما چھت زمین پر تیار کی جاتی ہے اور ایک بھاری کرین کے ذریعے عمارت پر لگا دی جاتی ہے جو ایک تاریخی دن ہوتا ہے۔ یوں یہ ستمبر میں ایٹمی بجلی گھروں اور سول ایٹمی پروگرام کے حوالے سے دوسری اہم خبر ہے۔ واضح رہے کہ کے ٹو سے گیارہ سو میگاواٹ بجلی 2020ء میں دستیاب ہوجائے گی اور کے تھری سے 2021ء میں گیارہ سو میگاواٹ بجلی فراہم کردی جائے گی۔ اس میں سے گمان یہ ہے کہ 500 میگاواٹ بجلی کراچی کو مل جائے گی۔ یوں کراچی توانائی کے حوالے سے خودکفیل ہوجائے گا۔ پچھلی حکومت نے پاکستان کے توانائی کے منصوبہ جات پر جس طرح توجہ دی ہے اغلب امکان یہ ہے کہ پاکستان میں 2021ء میں بجلی وافر مقدار میں موجود ہوگی، اس طرح ہماری صنعتیں پھل پھول سکیں گی اور ہماری پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا، ایکسپورٹ بڑھے گی، پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری نے ابھرنا شروع کردیا ہے، میں 2016ء میں جب ازبکستان گیا تھا تو وہاں کے میزبانوں نے مجھے بتایا کہ جب وہ کینیڈا گئے اور انہوں نے جو تیارشدہ قمیض پسند کی وہ ساختہ پاکستان تھی، اس طرح میں نے فیس بک پر دیکھا کہ ایک محترم نے لکھا کہ اُن کی طبیعت باغ باغ ہوگئی جب انہوں نے ماسکو میں پاکستان ساختہ کپڑے دیکھے۔ پاکستانی صنعت بجلی کی کمیابی کی وجہ سے نتائج نہیں دے سکی ہے، اس کے علاوہ ہمارے کھیلوں اور سرجری کے سامان کی دُنیا بھر میں مانگ ہے اور اُن کو جدید ٹیکنالوجی سے تیار کرکے اُن کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے، جس پر پاکستان میں کام ہورہا ہے۔ امید ہے کہ دو سالوں میں انشااللہ پاکستان اپنی توانائی کے بحران پر قابو پا لے گا، دوسرا مسئلہ پانی کی کمیابی کا ہے، امید ہے کالا باغ ڈیم کی بجائے دوسرے ڈیموں پر کام کرنا چاہئے، میں نے اپنے کالم ’’ربر کے ڈیم‘‘ میں اس پر تفصیلی حاصل بحث کی ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان اس پر خاص توجہ دے رہے ہیں اور حکومت بھی اس میں دلچسپی لے رہی ہے بلکہ ملک کی تمام عوام کی دلچسپی روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ امید ہے کہ چند سالوں میں ہم اس پر بھی قابو پا لیں گے، پاکستان جوہری توانائی کمیشن سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کے پلانٹ پر کام کررہا ہے اور امکان یہ ہے کہ ایک آدھ سال میں وہ اتنا پانی ضرور فراہم کردے گا کہ کراچی کی کئی بستیوں کو پانی دستیاب ہوجائے۔ پاکستان کے پاس سمندر کی صورت میں پانی موجود ہے اور دُنیا بھر میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے اور میٹھے پانی کو پینے اور کھانا تیار کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے، کوشش اِس پیمانے پر ہو کہ کراچی تا سکھر اور سندھ کے تمام علاقوں میں سمندر کے پانی کو میٹھا کرکے فراہم کردیا جائے۔ پاکستانی قوم کافی سخت جان ہے اور اس میں قوت مزاحمت بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے، اُس کے لوگ کام کرنے پر آئیں تو وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ ہمیں جنگ اور تصادم سے بچنے کی پالیسی پر گامزن رہنا چاہئے تو مشکل وقت بھی گزر جائے گا تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری ترجیحات درست ہوں، کرپشن سے پاک معاشرہ ہو اور لوگ اپنی بقا اور اپنے ملک کی بقا کے لئے مستعد رہیں۔ اچھے ادارے جو کام کررہے ہیں اُن کی وجہ سے پاکستان سرخرو ہورہا ہے، اُس کو اعزازات سے نوازا جارہا ہے، جہاں پاکستان کو یہ دو اعزازات ملے ہیں وہاں پاکستان ایٹمی بجلی گھروں کے پرزہ جات بنانے یا آگے چل کر خود ایٹمی بجلی گھر بنانے کا لائسنس کا اجرا کا اعزاز پاکستان کو حاصل ہوگیا ہے۔

مطلقہ خبریں