Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سوشل میڈیا اور گھریلو خواتین 

کاشف حسین
پاکستان میں انٹرنیٹ کی سہولت نے گھریلو خواتین کی مشکلات کو آسان کردیا ہے اور اب باصلاحیت خواتین گھر بیٹھے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے روزگار کما رہی ہیں اور اپنے خاندان کی گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ مالی طور پر بھی کفالت میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔
انٹرنیٹ کی سہولت گھر بیٹھی خواتین کو گھروں سے نکلے بغیر ہی روزگار کمانے کا ذریعہ فراہم کررہی ہے جس سے مڈ ل کلاس طبقہ سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہا ہے، ان خواتین کی تیار مصنوعات کی زیادہ تر خریدار بھی خواتین ہیں، پاکستان میں ہنرمند گھریلو خواتین کو بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والی ویب سائٹ شیوپس کی خدمات کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جا رہا ہے، ہنرمند خواتین اور خواتین خریداروں کو باہم منسلک کرنے والا فیس بک کا پیج اب ایک کمپنی کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
پاکستان میں خواتین کے لئے مخصوص یہ ویب سائٹ گھر بیٹھی ہنرمند خواتین کے فیس بک پیج کی اندرون اور بیرون ملک مارکیٹنگ کرتا ہے، فیشن، بیوٹی، لائف اسٹائل، کھانے پینے کی اشیا، جیولری، کاسمیٹکس، ملبوسات اور دستکاریاں بنانے میں ماہر خواتین اپنے فیس بک پیج کا لنک اس ویب سائٹ پر درج کراتی ہیں، اس ویب سائٹ کے رجسٹرڈ خریداروں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے جبکہ ایک لاکھ سے زائد مصنوعات فروخت کے لئے موجود ہیں۔ ویب سائٹ 2000 کے لگ بھگ گھریلو خواتین کو گھر بیٹھے ان کی تیار مصنوعات فروخت کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے، گھر بیٹھے مصنوعات تیار کرنے والی خواتین کو بس ویب سائٹ سے ملنے والا آرڈر تیار رکھنا ہوتا ہے اور کوریئر کا نمائندہ گھر آکر آرڈر پک کرتا ہے ویب سائٹ آرڈر ڈیلیور ہونے کے بعد فروخت کی رقم بھی گھر بیٹھے ارسال کرتی ہے۔
اس ویب سائٹ سے خریداری کے لئے بھی خواتین کا فیس بک پروفائل ہونا ضروری ہے تاکہ گھروں میں بیٹھ کر مصنوعات بنانے والی خواتین کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے، ویب سائٹ سے استفادہ کرنے والوں میں امریکا، برطانیہ، کینیڈا، خلیجی ریاستوں اور متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانی کمیونٹی بھی شامل ہے جو ان ممالک کی معروف مصنوعات اپنے پاکستانی رشتے داروں کے ذریعے فروخت کرتی ہیں۔ اسی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانی خواتین پاکستان سے ملبوسات، جیولری اور دیگر مصنوعات اسی ویب سائٹ کے ذریعے خریدتی ہیں جو کوریئر کمپنیوں کے ذریعے بھجوائی جاتی ہیں، ویب سائٹ کے ذریعے گھر بیٹھے کاروبار شروع کرنے والی ایک سو سے زائد خواتین منظم کاروبار چلا رہی ہیں۔
بلوچی کڑھائی اور شیشے کا کام د نیا بھر میں مشہور ہے
بلوچستان کی ایک آن لائن کمپنی ڈوچ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بلوچستان کی ہاتھ سے کی گئی دیدہ زیب بلوچی کڑھائی سے مزین مصنوعات فروخت کر رہی ہے، ڈوچ کمپنی نے بلوچستان میں گھروں میں دستکاریاں بنانے والی خواتین کے لئے گھر بیٹھے روزگار کمانا آسان بنا دیا ہے، یہ کمپنی دیدار مینگل نامی خاتوں کی کاوشوں سے وجود میں آئی اور بلوچستان کی غریب اور خوددار خواتین کی زندگیاں بہتر بنانے میں مدد فراہم کررہی ہے۔ ڈوچ بلوچستان کے ہنرمندوں کی تیار کردہ خواتین کے استعمال کی اشیا ہینڈ بیگز، کلچرز، شرٹس، ویسٹ کوٹ، جیولری وغیرہ فروخت کرتی ہے۔ پاکستان میں ثقافت کو محور و مرکز بنانے والے انٹرنیٹ پر مبنی کاروبار میں ڈوچ ایک منفرد مثال ہے جو بلوچستان کے کاریگروں بالخصوص خواتین ہنرمندوں کے فن کی ترویج کا ذریعہ بن رہا ہے، دیدار مینگل کے مطابق بلوچستان کی کڑھائی اور شیشے کا کام د نیا بھر میں مشہور ہے۔ ڈوچ نے بلوچی کڑھائی کو فیشن ڈیزائننگ کے جدید تصورات سے ہم آہنگ کرکے مصنوعات تیار کی ہیں جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہورہی ہیں، کمپنی کڑھائی کے نمونے خام شکل میں منگوا کر اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ مصنوعات کی تیاری کے لئے استعمال کرتی ہے، ہاتھ سے کی گئی کڑھائی کو جدید رخ دیئے جانے سے اس فن میں مزید نکھار آجاتا ہے اور امیر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی توجہ حاصل ہوتی ہے۔ کمپنی بلوچ خواتین ہنرمندوں کی تربیت اور رہنمائی کے لئے خصوصی ورکشاپس منعقد کرتی ہے، کمپنی کی بلوچی کڑھائی کے لئے مشہور علاقوں کوئٹہ، مستونگ، قلات، خضدار، وادھو، کوہلو، بارکھان، ڈیرہ بگٹی، نوشکی اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں زیادہ سرگرم ہے، ڈوچ کے ساتھ بلوچی دستکاریوں کے ہنرمندوں کے علاوہ چھوٹے کاروبار بھی منسلک ہیں۔ کمپنی کی مصنوعات، کراچی لاہور اور اسلام آباد میں زیادہ خریدی جاتی ہیں، 2016ء میں قائم ہونے والی کمپنی اب تک 3 ہزار سے زائد کسٹمرز کو بلوچی کڑھائی سے مزین مصنوعات فروخت کرچکی ہے جن کی فروخت سے حاصل آمدن بلوچستان میں کم آمدن والے طبقہ کا معیار زندگی بلند کرنے میں معاون ہورہی ہے اور ساتھ ہی بلوچ ثقافت کو بھی فروغ مل رہا ہے، کمپنی بلوچی کڑھائی سے مصنوعات تیار کرنے کے لئے 120 کے لگ بھگ بلوچ ہنرمند خواتین ڈوچ سے منسلک ہیں جن کو ماہانہ 15000 روپے تک کی آمدن ہوتی ہے۔8 ہزار کی اشیا قسطوں پر فروخت کرتی ہوں، شبانہ جمشید
پاکستان کی ایک بڑی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، ایسے گھرانوں کے لئے روزمرہ استعمال کی اشیا کی خریداری ایک بڑا مسئلہ ہے، یومیہ اجرت کمانے والے اس طبقے کے پاس اضافی آمدن نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کی ضروریات سے جڑی اشیا کا حصول بھی دشوار کام ہے۔ لاہور کی ہی ایک غریب آبادی میں رہنے والی باہمت لڑکی نے اپنے ساتھ پیش آنے والی ان مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیگر کم آمدن والے طبقے کے لئے قسطوں پر سامان کی فراہمی کا کاروبار شروع کیا جو ایک سال میں عروج پر پہنچ چکا ہے، فائن ٹریڈرز کے نام سے منفرد کاروبار شروع کرنے والی باہمت خاتون پاکستان کی دیگر خواتین کے لئے بھی مثال ہیں۔ شبانہ جمشید کے مطابق ان کے والد سرکاری محکمے میں ڈرائیور تھے اور 8 بہنوں کی کفالت مشکل تھی اس دوران شادی کے لئے جہیز جمع کرنا سب سے مشکل کام تھا، کمیٹیاں ڈال کر چھوٹی چھوٹی اشیا جمع کرتے رہے، ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے شبانہ نے ایک سال قبل لاہور شہر کی غریب آبادی میں چنگ چی رکشا میں ڈنر سیٹ، پنکھے، پانی کے کولر، بیڈ شیٹس، رضائیاں اور جہیز کا دیگر سامان قسطوں پر گھر گھر جا کر فروخت کرنا شروع کیا، اب یہ کام ایک منظم کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے اور 2300 سے زائد کسٹمرز اس سہولت سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ شبانہ جمشید کے مطابق وہ زیادہ سے زیادہ 7 سے 8 ہزار روپے مالیت کی اشیا قسطوں پر فروخت کرتی ہیں جن کی قیمت 6 ماہ میں وصول کی جاتی ہے کم آمدن والے طبقے کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے یومیہ اور ہفتہ وار بنیادوں پر اقساط وصول کی جاتی ہیں، اب تک اشیا خریدنے والے 99 فیصد خریداروں نے وقت پر اقساط جمع کرائی ہیں۔ شبانہ نے کاروبار 5 لاکھ روپے سے شروع کیا جو ایک سال کے عرصے میں ایک کروڑ روپے مالیت کی اشیا فروخت کرچکاہے، اس کامیاب کاروباری ماڈل کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا کی ایک کمپنی اسٹرام ہاربر نے سرمایہ کاری کی پیشکش کی جو شرائط غیرموزوں ہونے کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکی تاہم اب پاکستان میں انٹرپرنیورشپ کو فروغ دینے والے ادارے کار انداز کی معاونت سے مقامی سرمایہ کاروں کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے جس کے تحت دو مراحل میں سرمایہ کاری کی جائے گی اور اس سہولت کا دائرہ لاہور کے نواحی قصبوں اور پنجاب کے دیگر چھوٹے شہروں تک وسیع کیا جائے گا۔ شبانہ جمشید کے مطابق سندھ، بلوچستان، کے پی کے اور ملک کے دیگر علاقوں میں بھی خواتین اس طرز کے کاروبار شروع کرکے نہ صرف اپنے حالات بہتر کرسکتی ہیں بلکہ ملک سے غربت کے خاتمے میں بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
کراچی کی ہنرمند خواتین لاکھوں روپے ماہانہ کما رہی ہیں
خواتین کے لئے انٹرنیٹ کے ذریعے کاروبار کو آسان اور محفوظ بنانے والی انٹرپرنیورر نادیہ پٹیل کے مطابق کراچی کی بہت سی ایسی خواتین جن کو معاشی مشکلات کا سامنا تھا یا ان کے شوہر بے روزگاری کا شکار تھے، گھر بیٹھے اپنی صلاحیتوں کے ذریعے لاکھوں روپے ماہانہ کی اشیا فروخت کررہی ہیں اور بعض خواتین جنہوں نے فیس بک پیج کے ذریعے کام کا محدود پیمانے پر آغاز کیا تھا، اب منظم طور پر چھوٹے کارخانے اور فیکٹریاں چلارہی ہیں جس کے ذریعے دیگر خواتین کو بھی روزگار مل رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے خواتین کے لئے مخصوص اور محفوظ آن لائن مارکیٹ پلیٹ فارم متعارف کرانے کا خیال اس وقت آیا جب میرا موبائل فون گم ہوگیا اور ان کلاسیفائڈ ویب سائٹ کے ذریعے موبائل فون تلاش کرنا پڑا اس کے بعد ان کے نمبر پر غیرمتعلقہ کالز آنا شروع ہوگئیں اور عام خواتین کی طرح انہیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس واقعے نے انہیں سوچنے پر مجبور کیا خواتین کو کس طرح ایک محفوظ اور آسان مارکیٹ پلیس فراہم کی جائے جہاں سے وہ کسی خدشہ کے بغیر خرید و فروخت کرسکیں، اس خیال کے تحت پہلے واٹس ایپ گروپ بنایا لیکن اراکین کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے بعد میں فیس بک پر پیج بنایا گیا اور فیس بک پر خواتین کے بھرپور رسپانس کو دیکھتے ہوئے شی اوپس کے نام سے مارکیٹ پلیس قائم کی۔ انہوں نے کہا کہ گھر بیٹھی خواتین کو کاروبار کے لئے سب سے زیادہ کوریئر کی سہولت کے بارے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے ساتھ سرمائے کا حصول بھی ایک مشکل کام ہے، انہوں نے بتایا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے خواتین کو روزگار فراہم کرنے میں ملکی سطح پر بھی حوصلہ افزائی ہورہی ہے جبکہ فیس بک بھی پاکستانی خواتین کو بااختیار بنانے میں معاون کردار ادا کررہا ہے، انہوں نے بتایا کہ ان کی کمپنی گھریلو خواتین کو ان کی مصنوعات کا معیار بہتر بنانے، جدید پیکنگ اور مارکیٹنگ کے بارے میں مشاورت اور رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل