وہ کہ ہر موڑ پہ تھا میرے ساتھ
اور پھر یوں لگا کہ تھا ہی نہیں
ہر طرف شہر میں ہے سناٹا
سایہ بس ساتھ چل رہا میرے
اور کچھ بھی نظر نہیں آتا
بس اک پل صراط کا ہے سفر
جو کہ لگتا ہے اب طویل بہت
اور بس ان اداس راہوں میں
اس کی ہے یاد ہر جگہ موجود
یہ شب و روز چلتے رہتے ہیں
سارے منزل بدلتے رہتے ہیں
میری آنکھوں میں سارے یاد کے دیپ
یوں مسلسل ہی جلتے رہتے ہیں
یادوں کا اک طویل رستہ ہے
جن پہ سوچوں کا مینہ برستا ہے
اور پھر بارشوں کا یہ پانی
قطرہ قطرہ ذہن پہ گرتا ہے
اور پھر ایک جھرنے کی صورت
دل کے بس ساتھ ساتھ چلتا ہے
اور پھر یہ خیال آتا ہے
وہ کہ ہر موڑ پہ تھا ساتھ میرے
اور پھر یوں لگا کہ تھا ہی نہیں
خالی ہیں بس یہ میرے دونوں ہاتھ
سایہ سا چل رہا ہے میرے ساتھ
————————–
تسنیم مرزا
——————–