مرزا اسلم بیگ
سعودی عرب میں عدالتی نظام کے فعال ہوتے ہوئے عدالتی طریق کار کے بغیر کرپشن کے نام پر حالیہ رونما ہونے والے واقعات دراصل متوقع بغاوت کو کچلنے کا نام ہے۔ ایسا کرنے سے شہزادہ محمد کا مقصد ملکی سلامتی کے تینوں اہم اداروں مثلاً فوج، نیشنل گارڈ، اندرونی سلامتی اور طاقتور دینی طبقہ پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ اس طرح شہزادہ محمد بن سلمان نے وہ تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں جو اب تک کسی بھی سعودی فرمانروا کو حاصل نہ ہوسکے تھے۔ اس سے قبل فرمانروا خاندان میں جاری ’’طاقت کے چار ستونوں کی تقسیم کا نظام‘‘ قائم تھا، جو اب مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے اور نوجوان فرمانروا کے رحم و کرم اور خواہشات کا مرہون منت ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ:
اسلام میں مزید روشن خیالی اور جدت پیدا کرنے کے لئے شہنشاہیت پر مکمل دسترس حاصل کرنا ضروری تھا۔
رواداری اور جدت پسندی کے فروغ کے لئے مذہبی عناصر کو مطیع کرنا لازم تھا۔ ایسا کرتے ہوئے انہیں نوجوانوں کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہوگا جو سخت اسلامی عقائد کی بجائے ایک آزاد معاشرے کے خواہاں ہیں۔
ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اثرورسوخ کو محدود کرنا۔
سعودی شہزادے کی جانب سے اس قسم کا وسیع پیمانے پر تطہیری عمل قبل از وقت حملہ ہے ’’جس نے دیکھا ہو کہ دیوار کے گرنے سے پہلے ہی رکاوٹ عبور لینا ضروری تھا۔‘‘ اس کارروائی کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل نے خیرمقدم کیا ہے کیونکہ یہ قدم ان کے لئے نیک شگون ہے، جیسا کہ خلیجی ریاستوں اور مصر کے مابین طے پانے والا اتحاد ہے جس نے اخوان المسلمین کو دہشت گرد قرار دیا ہے۔ لیکن سعودی عرب اس وقت اپنے آپ کو محاصرے جیسی گھٹن کے ماحول میں دیکھ رہا ہے کیونکہ ان کا حریف ایران اپنا اثرورسوخ یمن، شام، عراق، بحرین اور لبنان تک بڑھا چکا ہے۔ یہ ایک خطرناک صورتِ حال ہے جس کا نقصان امریکہ اور اسرائیل کو بھی ہوگا جو سعودی عرب کو اشتعال پر آمادہ کرسکتی ہے تاکہ ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو کم کیا جاسکے۔
یہ صورتِ حال باقاعدہ تصادم کی کیفیت اختیار کرسکتی ہے جو پورے مشرق وسطیٰ کے لئے تباہی کا باعث بنے گا اور اس کے اثرات سانحہ نائن الیون کروسیڈ سے بھی زیادہ تباہ کن ہوں گے، جس کی آڑ میں نصف درجن سے زائد مسلمان ممالک کو تباہ کردیا گیا ہے۔ سعودی عرب کا امریکہ سے 250 بلین ڈالر کا اسلحہ خریدنے کے معاہدے سے اس سازش کی گرہیں مزید کھل جاتی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ شہزادہ محمد نے گزشتہ ستمبر میں اسرائیل کا دورہ کیا تھا جہاں انہیں سعودی عرب میں ہونے والی سازش سے آگاہ کیا گیا تھا۔
اندرونی لحاظ سے سعودی حکمرانوں کو اب دونوں محاذوں پر خطرات کا سامنا ہے، جن میں نظرانداز کیا جانے والا شاہی خاندان اور سخت گیر مذہبی عناصر شامل ہیں، جن کے ساتھ سعودیوں نے انیسویں صدی کے اواخر میں اتحاد قائم کیا تھا اور برطانیہ سے ہاتھ ملانے کے بعد بیسویں صدی کے اوائل میں جزیرہ نما عرب پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ یہ اتحاد اب ٹوٹ چکا ہے اور سخت گیر مذہبی طبقہ شہنشاہیت کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ عراق اور شام کے بعد یہ داعش کا تیسرا بڑا گروپ بنا تھا جو احمد خیشگی کی سربراہی میں 10 سے 12 ہزار افراز پر مشتمل تھا۔ اب وہ تمام بکھرے ہوئے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر زیرزمین ہیں جنہیں اندرون ملک اور بیرون ملک بدامنی کے لئے آمادہ کیا جا سکتا ہے۔اب تک مذہبی عناصر اور شاہی خاندان کے اتحاد سے سعودی حکومت قائم اور متحد رہی ہے اور مذہبی عناصر کے مشوروں سے ہی وہ حکومت کرتے آئے ہیں جنہوں نے ان کی حکومت کو آئینی حیثیت دی۔ اب اس اتحاد کے ٹوٹنے سے اندرون ملک طوفان برپا ہوگا اور اسرائیل اور امریکہ کی شمولیت اس صورتِ حال میں جلتی پر تیل کا کام کرے گی۔
اس انتہائی نازک موقع پر پاکستان دو کشتیوں پر سوار ہے۔ ایک جانب جنرل راحیل شریف 40 ملکی عسکری اتحاد کے لئے کام کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب جنرل قمر جاوید باجوہ ایران کے دورے پر ہیں جہاں وہ مشترکہ سلامتی کے معاملات اور باہمی مفادات پر بات چیت کررہے ہیں۔ حکمت و دانش پر مبنی سفارتکاری سے تہران اور ریاض کے تعلقات میں توازن پیدا کرنا وقت کا تقاضا ہے تاکہ یہ امر یقینی بنایا جاسکے کہ دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان تصادم کی کیفیت پیدا کرنے کے امریکہ اور اسرائیل کے مکروہ عزائم شرمندہ تعبیر نہ ہوسکیں۔ پاکستان کو دونوں ممالک میں باعزت مقام حاصل ہے جسے بروئے کار لا کر نہ صرف دونوں اسلامی ممالک کو تصادم سے بچایا جاسکتا ہے بلکہ پورے خطے اور خصوصاً عالم اسلام کو اس کے خطرناک اثرات سے محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔