Wednesday, July 23, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

رباعیات

کوئی ہو کسی کو کبھی مرعوب نہ کر
زندہ نہیں رہتا کبھی ایسا انساں

اِعزاز سے اپنے اُسے مغلوب نہ کر
اے شخص! عمل یہ کبھی ناخوب نہ کر

تصویر تری دُھندلی ہے اے نوع بشر
عرفان سے اپنے اسے شفاف بنا

خود پر کبھی جاتی نہیں کیوں گہری نظر
تجھ کو نہیں کچھ اپنی حقیقت کی خبر

اے شخص! تو زندہ نہیں کیا مردہ ہے
پیغام تجھے دیتا ہے جو تِرا ضمیر

ساتھ اپنے رویہ، یہ تِرا کیسا ہے
تو سنتا نہیں کس لئے کیا بہرا ہے

حاصل ہے کہاں عالم امکاں کو ثبات
انسان بھی عالم ہی کا اک حصہ ہے

رکھتا ہے ازل سے یہ تغیر کے صفات
ہر آن تغیر میں ہے اس کی بھی حیات

تغیر کا انساں پہ تاثر رُک جائے
ہے جسم زمانہ میں یہ جاں کی مانند

تغیر میں پوشیدہ تدبر رُک جائے
ممکن ہی نہیں ہے، کہ تغیر رک جائے

تغیر زمانہ ہے مسلسل جاری
ہے روح کی مانند تغیر کی صفت

تغیر کی رفتار نہیں رُکتی کبھی
تغیر میں اَسرار ہیں قدرت کے نفی

خاموش ہے تو کس لئے کیا گونگا ہے
اک عالم اسرار ہے موجود اس میں

خود کو کبھی آواز کہاں دیتا ہے
کب تو نے کبھی اپنا دروں دیکھا ہے

ہوگا نہ کسی اور صدا کا تو اسیر
پھر اور کسی چاک پہ گھومے گا نہ دل

پھر کوئی صدا ہوگی نہ دل پر تحریر
اک بار جو سُن لے کبھی آوازِ ضمیر

خود کو، کبھی یہ ساز کہاں دیتا ہے
وا کیسے پھر اسرار کا در ہو تجھ پر

تو دل کو یہ اعزاز کہاں دیتا ہے
وجدان کو آواز کہاں دیتا ہے

—————————————
خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی

—————————————

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل