اظہارِ ہُنرمندی کیا کرتا ہوں
افکار نئے باقی کہاں ہیں محسنؔ !
تازہ ہیں خیالات ابَا کرتا ہوں
اسلوب سے صرف اُن کو بنا کرتا ہوں
فردسوگی فکر کو دھو دیتا ہے
رائے یہی صائب ہے، کہ اسلوب نیا
تاثیر نئی شعر میں بو دیتا بنے
افکار میں ندرت کو سمو دیتا ہے
تخیل ہو نزہت سے، ہے کوشش میری
ہو طرز بیاں سے نئے پن کا احساس
ہر بات ہو ندرت سے ہے کوشش میری
اظہار ہو جدّت سے، ہے کوشش میری
مغلوب ہے اغیار کے افکار سے تو
آزاد بھی ہو کر ہیں علامانہ سفات
واقف نہیں آزادی کے کردار سے تو
محروم ہے آزادی ضوبار سے تو
وافکر کا دَر تیرا نہیں ہے اَب تک
آزاد فقط جسم ہوا ہے تیرا
ہاں! دَہُن، مگر تِرا نہیں ہے اب تک
اِس جسم پہ سَر تِرا نہیں ہے اب تک
افکار کا انداز غلامانہ ہے
آزاد ترا ذہن نہیں اب تک
اغیار کی زُلفوں کا ابھی شانہ ہے
آزادی کے مفہوم سے بیگانہ ہے
تم ہاتھ پہ گر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے
افلاس سے چھٹکارا کہاں ممکن ہے
محنت جو نہ کی جہدوعمل سے بھاگے
پھر رزق بھلا تم کو ملے گا کیسے
افلاس کہاں جاتا ہے محنت کے بغیر
جو کاہلی تقدیر بنا لے اپنی
سُکھ زیست میں کب آتا ہے محنت کے بغیر
عزت وہ کہاں پاتا ہے محنت کے بغیر
محنت ہی سے ملتی ہے ہمیشہ راحت
غربت کبھی جاتی نہیں محنت کے بغیر
محنت کرو محنت سے ملے گی بہجت
محنت ہی عطا کرتی ہے عزت عظمت
————————–
خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی
————————–