Wednesday, July 16, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

رباعیات

ہے روح تو اللہ کا اِک اَمرِ مبیں

یہ روح دوامی ہے رَکھو اس پہ یقیں

ہاں! روح جو مَر جائے اِسے موت کہو

یہ جسم کی جو موت ہے وہ موت نہیں

ہے خواب کی مانند فقط تن کی حیات

اور خواب کو حاسل کہاں ہوتا ہے ثبات

تم جسم کے مَر جانے کو سمجھے ہو موت

ہم روح کے مرنے کو سمجھتے ہیں ممات

کہتے ہیں جسے جسم دوامی ہے کہاں

یہ روح کا اک عارضی ہوتا ہے مکاں

یہ روح کا ہے نقل مکانی محسنؔ !

کہتے ہیں دوامی جسے وہ صرف ہے جاں

موضوع یہ ایسا ہے، کہ حد اس کی نہیں

انسان وہ قصّہ ہے کہ حد اس کی نہیں

سمٹے ہوئے اس میں ہیں دو عالم محسنؔ !

اِک ایسی یہ دنیا ہے کہ حد اس کی نہیں

انسان کی عظمت سے نہیں کوئی علا

انسان کی عظمت سے تجھے کیوں ہے اِبَا

اللہ نے انساں کو جو بخشا ہے شَرَف

مخلوقِ دو عالم میں کسی کو نہ ملا

انسان دو عالم میں ہے وہ آئینہ گر

بخشی ہے خدا نے جسے وہ فکر و نظر

جو اور کسی مخلوق میں موجود نہیں

انسان کی عظمت کا تو انکار نہ کر

الفاظ کی جو ضرب ہے ہوتی شدید

ضرب اس کی ہوا کرتی ہے مانند حدید

اے نوعِ بشر! تلخ کلامی مت کر

الفاظ سے تیرے نہ کوئی دل ہو شہید

گفتار بنا اپنی تو نسرین و سمن

گفتار میں بھرتا نہیں کیوں شہد و لبن

گفتار تری کس لئے ہے بادِ سموم

گفتار بناتا نہیں کیوں ٹھنڈی پَوَن

گفتار کسی سے ہو، تو یہ بات نہ بھول

ہر لفظ ترا ایسا ہو، جیسے ہو پھول

گفتار تری ایسی ہو، جس طرح پھوار

گفتار بنا اپنی، نہ آندھی کی دھول

——————————————-

خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل