وہ پیکر مہتابی و تنویر مآب
بے نام تقاضوں کا ہے لمس بے خواب
دیکھا جو اُسے بجنے لگا دل کا رَباب
وہ حُسن ہے اُس میں، کہ نہیں جس کا جواب
ہر ایک اَدا محشر جذبات لیے
صہبا سے بھرے آنکھوں کے کاسات لیے
جھرمٹ میں ستاروں کے ہو، جس طرح قمر
انگ انگ ترا حُسن کی بارات لیے
سینے میں اُترتی، یہ کٹیلی آنکھیں
نشے میں ہیں ڈوبی یہ نشیلی آنکھیں
ان میں ہے وہ جادو کہ نہیں جس کا اُتار
آفت ہیں قیامت ہیں رَسیلی آنکھیں
اے حسن دِل افروز کے ابر باراں
ہے آگ لگائے ہوئے شامِ ہجراں
ہوجائے تراوش جو تری قربت کی
بجھ جائے نہ کیوں پیاس کا دوزخ جاناں
اے قلب دھڑک اور دھڑک اور دھڑک
اے آنکھ پھڑک اور پھڑک اور پھڑک
مایوس نہ ہو آئے گا وہ پیکر حُسن
اے آتش عشق اور بھڑک اور بھڑک
سرشار جوانی مرے دِلبر کی نہ پوچھ
رنگینیاں اُس آئینہ پیکر کی نہ پوچھ
جس طرح بکھر جائیں دھنک کے سب رنگ
انگڑائیاں اُس حُسن کے مظہر کی نہ پوچھ
دیوانہ بناتا ہے ترا حُسن و شباب
اُنگلی پہ نچاتا ہے ترا حُسن و شباب
اِک حشر اُٹھاتا ہے تِرا حُسن و شباب
سر مستی جذبات جگا کر مجھ میں
تجھ کو ہے قسم تیری، چھکا دے مجھ کو
اے جان! کبھی مست بنا دے مجھ کو
اپنے لب لعلیں سے پلا دے مجھ کو
ساغر سے مری پیاس نہ بجھ پائے گی
ہر روز جگاتی ہے جوانی تیری
حشر ایسا اُٹھاتی ہے جوانی تیری
ہر روز بلاتی ہے جوانی تیری
ہر روز پلاتی ہے مے ہوش رُبا
خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی