دِل چاہتا ہے، حُسن کے شہکاروں کے
ہونٹوں سے چنوں پھول میں رُخساروں کے
اے کاش! وہ آجائے مِرے اِتنے قریب
نغمے سُنوں انفاس کی مہکاروں کے
مانندِ نسیمِ سحری گاتی ہوئی
خوشبو کی طرح روح کو مہکاتی ہوئی
ایک ایک نفس اس کا ہے بیتاب شباب
آتی ہے شراب آنکھوں سے برساتی ہوئی
اللہ رے کیا مدبھرا تن ہے اُس کا
اَنگ اَنگ خم شہد و لُہن ہے اُس کا
کیا ٹوٹ کے آئی ہے جوانی اُس پر
گدرایا ہوا سارا بدن ہے اس کا
چہرے سے نقاب اُلٹا سویرے جاگے
زلفوں کو سمیٹا تو اندھیرے جاگے
واللہ! جو تِرے حُسن کی پہنائی ہے
سوچوں سے مِری لاکھوں قدم ہے آگے
نظریں جو تری کہتی ہیں سُن لیتا ہوں
مفہوم دل و ذہن کا بن لیتا ہوں
جو پھول تِرے ہونٹوں پہ کھل اُٹھتے ہیں
آنکھوں سے میں اپنی اُنہیں چن لیتا ہوں
جو حُسن تِری اَدھ کھلی آنکھوں میں ہے
جو دلکشی ٹھہری ہوئی آنکھوں میں ہے
الفاظ بیاں کر نہیں سکتے اس کو
جو کیف تِری مدبھری آنکھوں میں ہے
میں نے ہی دل و جاں میں اُتارا ہے تجھے
بوسوں کی لطافت سے نکھارا ہے تجھے
تو پھول کی مانند ہے، میں ہوں شبنم
میری ہی تو قربت نے سنوارا ہے تجھے
سر تا پا اک آفت ہے جوانی تیری
اک طرفہ قیامت ہے جوانی تیری
الفاظ بیان کر نہیں سکتے جس کو
اے جان! وہ لذت ہے جوانی تیری
اے جان! تِرے گِرد میں گھومے جاؤں
تیرے لب لعلیں کو بھی چومے جاؤں
پی کر تِرے ہونٹوں کی شراب لذت
سر مستی جذبات میں جھومے جاؤں
خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی