Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

رباعیات

کوئی ہو کسی کو کبھی مرعوب نہ کر

اِعزاز سے اپنے اُسے مغلوب نہ کر

زندہ نہیں رہتا کبھی ایسا انساں

اے شخص! عمل یہ کبھی ناخوب نہ کر

تصویر تری دُھندلی ہے اے نوع بشر

خود پر کبھی جاتی نہیں کیوں گہری نظر

عرفان سے اپنے اسے شفاف بنا

تجھ کو نہیں کچھ اپنی حقیقت کی خبر

اے شخص! تو زندہ نہیں کیا مردہ ہے

ساتھ اپنے رویہ، یہ تِرا کیسا ہے

پیغام تجھے دیتا ہے جو تِرا ضمیر

تو سنتا نہیں کس لئے کیا بہرا ہے

حاصل ہے کہاں عالم امکاں کو ثبات

رکھتا ہے ازل سے یہ تغیر کے صفات

انسان بھی عالم ہی کا اک حصہ ہے

ہر آن تغیر میں ہے اس کی بھی حیات

تغیر کا انساں پہ تاثر رُک جائے

تغیر میں پوشیدہ تدبر رُک جائے

ہے جسم زمانہ میں یہ جاں کی مانند

ممکن ہی نہیں ہے، کہ تغیر رک جائے

تغیر زمانہ ہے مسلسل جاری

تغیر کی رفتار نہیں رُکتی کبھی

ہے روح کی مانند تغیر کی صفت

تغیر میں اَسرار ہیں قدرت کے نفی

خود کو کبھی آواز کہاں دیتا ہے

خاموش ہے تو کس لئے کیا گونگا ہے

کب تو نے کبھی اپنا دروں دیکھا ہے

اک عالم اسرار ہے موجود اس میں

اک عالم اسرار ہے موجود اس میں

پھر کوئی صدا ہوگی نہ دل پر تحریر

ہوگا نہ کسی اور صدا کا تو اسیر

اک بار جو سُن لے کبھی آوازِ ضمیر

پھر اور کسی چاک پہ گھومے گا نہ دل

تو دل کو یہ اعزاز کہاں دیتا ہے

خود کو، کبھی یہ ساز کہاں دیتا ہے

وجدان کو آواز کہاں دیتا ہے

وا کیسے پھر اسرار کا در ہو تجھ پر


خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی


مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل