حاصل تجھے توقیر نہیں ہوسکتی
تجھ میں کبھی تنویر نہیں ہوسکتی
وجدان کا آئینہ ہے میلا جب تک
تیری کبھی تطہیر نہیں ہوسکتی
یہ نفس عناں گیر رہے گا کب تک
یہ باعثِ تحقیر رہے گا کب تک
اے شخص! نکل جامِ ہوس سے اپنے
خواہش میں تو زنجیر رہے گا کب تک
کیفیتں تحریر نہیں ہوسکتیں
یہ لذتیں تصویر نہیں ہوسکتیں
محسوس ہی کرسکتے ہیں ہم ان کو فقط
الفاظ میں تحریر نہیں ہوسکتیں
پاؤں نہ اگر ہوں تو یہ چل سکتا ہے
چقماق نہ ہو تو بھی یہ جل سکتا ہے
انساں کے سوا ایسا ہنر مند ہے کون
تدبیر سے تقدیر بدل سکتا ہے
یہ ایسا ہے لوہا جو پگھل سکتا نہیں
یہ اور کسی شکل میں ڈھل سکتا نہیں
جو دیکھتا ہے وہ ہی دکھا دیتا ہے
آئینہ بیاں اپنا بدل سکتا ہے
میں شکل اِسے اپنی دِکھاؤں کیسے
میں سامنے آئینے کے آؤں کیسے
آئینہ مِرا جھوٹ نہ بولے گا کبھی
یہ بات مگر خود کو بتاؤں کیسے
وہموں کے شکنجے میں لیا ہے تجھ کو
مغلوب کچھ اِس طرح کیا ہے تجھ کو
اُس جبر کے زنداں سے نکل پاتا نہیں
جو خوف اب وجد نے دیا ہے تجھ کو
تعریف سے خوش بہت ہی ہوتا ہے تو
اِس اَندھی فضا میں ہوش کھوتا ہے تو
تعریف کا موجود نہیں گن کوئی
رُسوائی خود اپنے لئے بوتا ہے تو
خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی