قُلزُم میں اُجالوں کے اُتر جاتی ہے
انفاس کی صورت یہ بکھر جاتی ہے
میں پڑھ بھی نہیں پاتا تِرا مصحفِ رُخ
شب ہے، کہ دَبے پاؤں گزر جاتی ہے
اُس کو چمن حُسن کا گُل دستہ کہو
مہکار کا گنجینۂ سربستہ کہو
جو دل میں اُتر جائے مسّرت بن کر
فطرت کا وہ اک خندہ برجستہ کہو
اللہ رے! بوئے سَمَنی ہے اس میں
نظارۂ حُسن چَمَنی ہے اُس میں
انگ انگ میں ہے مدھ بھرے ساون کا نشہ
فردوس نظر، گلبدنی ہے اُس میں
لب رشکِ عقیق یمنی ہیں اُس کے
دندان بھی دُر عدنی ہیں اس کے
چاندی سا بدن اور سنہرے گیسو
نظارے، کہ گنگا جمنی ہیں اس کے
رُخسار حسیں، بال گھنیرے اُس کے
ہیں مدح سرا، شام سویرے اس کے
وہ حُسن کا، کعبہ ہے طواف اس کا ہے فرض
دھو دیں گے دل و دہن کو پھیرے اس کے
سینے میں اُترتی یہ کٹیلی آنکھیں
نشّے میں ہیں ڈوبی یہ نشیلی آنکھیں
اِن میں ہے وہ جادو، کہ نہیں جن کا اُتار
آفت ہیں، قیامت ہیں رسیلی آنکھیں
سرشاری و جادو نظیری ہے تجھ میں
سیراب ہو جاں، ایسی تری ہے تجھ میں
نشّے میں ہیں ڈوبی ہوئی تیری سانسیں
کیا بادۂ ریحانی بھری ہے تجھ میں
بے نام سی لذّت میں اُتر جاؤں میں
آداب محبت سے گزر جاؤں میں
انگڑائی وہ لیتے ہوئے کہنا اُس کا
اللہ! نہ یوں دیکھو، بکھر جاؤں میں
جب حُسن کی بَرکھا نے شرابور کیا
اک لذت بے نام سے سرشار ہوا
انگ انگ میں اک ٹھنڈی پَوَن چلنے لگی
بے تابی دل کو مِری آرام ملا
یہ دُنیا حسیں اور بھی ہوجاتی ہے
اک کیف عجب روح مِری پاتی ہے
جب حُسن کا قرآن مِرے سامنے ہو
بانہوں میں دھنک میرے سمٹ آتی ہے
اے جان! تو سر تا پا ہے اک سحر حلال
آنکھوں سے ٹپکتی ہے مئے نابِ جمال