Tuesday, July 29, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

رباعیات

دربار کے باہر تو ہیں کتنے خود، دار

دَربار میں رہتے ہیں تَملّق آثار

معلوم ہے! وہ جتنے ہیں غیرت والے

سب جانتے ہیں اُن کی اَنا کا معیار

ہر وقت خوشامد میں لگا رہتا ہے

سرکار کے قدموں میں پڑا رہتا ہے

کہتا ہے عَلم دارِ اَنا جو خود کو

وہ صورتِ کشکول گدا رہتا ہے

آنکھوں سے لگاتے ہیں وہ پائے سرکار

اکثر ہیں وہی لوگ جہاں میں سردار

بخشی ہوئی جاگیروں پہ ہیں اکڑے ہوئے

تھو، اُن پہ، جو ہیں قوم و، وطن کے غدار

تخصیص کسی کی ہے، کسی کی تعمیم

اوطان و زماں، نسل کی کیوں ہے تعلیم

اولاد ہیں جب ایک ہی آدم کی سب

اقوام میں پھر کیوں ہیں سب انساں تقسیم

سیّد ہے کوئی، شیخ کوئی، کوئی پٹھان

کوئی عرب و ہندی و ترک و افغان

کب سر سے اُتارے گا بنی نوعِ بشر

نسل و نسب و قوم و وطن کا حیوان

چھوٹا ہے کوئی شخص، کوئی مَردِ عظیم

کوئی ہے سپاہی، کوئی اہل دیہیم

تقدیر الٰہی کا اِسے نام نہ دو!

انساں کو خود انساں نے کیا ہے تقسیم

اب تک شبِ دیجورہے تو دِن ہے کہاں

شفاف ابھی تک تِرا باطن ہے کہاں

ہے چاک پہ تہذیب کے صدیوں سے مگر

مجموعۂ اَنوار و محاسن ہے کہاں

ابلیسی خصائل کا ظہور آج بھی ہے

موجود بہیمانہ فتور آج بھی ہے

مسجود ملائک کی ہے کیسی اولاد!

اِنسانی محاسن سے نفور آج بھی ہے

فطرت ابھی تک تیری فروزاں ہے کہاں

دل تیرا ابھی آئینہ ساماں ہے کہاں

موجود ہیں حیوانی خصائل تجھ میں

اے نوعِ بَشر تو ابھی انساں ہے کہاں

———————–
خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی
———————–
مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل