Saturday, December 21, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

راجہ مہدی علی خان۔۔ ایک بہترین لیکن گمنام فلمی شاعر

شاعر اور نغمہ نگار اپنے اندر کے درد کو اپنے نغمات میں سمو کر ان کو انسانی جذبات میں ڈھال دیتے ہیں
سید شبیر احمد
قیام پاکستان سے قبل پنجاب کے بہت سے لوگ بمبئی کی فلم انڈسٹری میں کام کررہے تھے، ان میں سے کچھ تو پاکستان بننے کے بعد واپس آ گئے لیکن کچھ نے وہیں بسیرا کرنے کا ارادہ کیا، پھر اپنے اس ارادے پر مستحکم رہے۔ وہاں رہ کر انہوں نے بمبئی کی فلم نگری میں اپنی محنت اور خداداد صلاحیتوں سے اپنے کام کا لوہا منوایا۔ ان میں موسیقار خیام، گلوکار محمد رفیع اور گیت نگار راجہ مہدی علی خان سرفہرست ہیں۔
شاعر اور نغمہ نگار اپنے اندر کے درد کو اپنے نغمات میں سمو کر ان کو انسانی جذبات میں ڈھال دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پیار محبت کے بہترین نغمات لکھنے والوں میں وہ شاعر سرفہرست ہیں جنہوں نے ہندوستان کی تقسیم کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے۔ گھربار، دولت اور بال بچوں کی بربادی اور جذباتی دباؤ کے باوجود انہوں نے اپنی شاعری میں انسانی ہمدردی اور اچھائی کا درس دیا ہے۔ ان حساس شاعروں نے اچھائی پر اعتبار کو قائم رکھ کر آنے والے اچھے کل کے نغمے لکھے ہیں۔ ان شاعروں میں ایک بڑا نام راجہ مہدی علی خان کا ہے۔
راجہ صاحب متحدہ ہندوستان کے ضلع جہلم کے ایک جنجوعہ راجپوت گھرانے میں موضع دارپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد راجہ گلاب مہدی خان متحدہ ہندوستان کی ریاست بہاولپور کے چیف منسٹر تھے۔ ان کی والدہ حب صاحبہ مولانا ظفر علی خان کی بہن تھیں۔ ان کے والد صاحب کا انتقال ان کے بچپن میں ہی ہوگیا تھا، اس لئے آپ کی تربیت آپ کی والدہ نے کی، جو اپنے وقت کی ایک مستند شاعرہ بھی تھیں۔ آپ والد کے انتقال کے بعد اپنے ماموں مولانا ظفر علی خان کے پاس کرم آباد منتقل ہوگئے تھے۔ آپ نے ایچیسن کالج لاہور سے اپنی تعلیم حاصل کی۔ کالج کی تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر بیس سال کی عمر میں آپ نے لاہور سے شائع ہونے والے ”تہذیب نسواں“ اور ”پھول“ میں کام کرنا شروع کردیا۔ اس کے بعد آپ نے آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت کرلی۔ متحدہ ہندوستان میں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں آپ کی پوسٹنگ تھی۔ یہیں سعادت حسن منٹو بھی ان کے ساتھ تھے اور ان کے قریبی دوست بھی تھے۔ ان دونوں کی دوستی کی بہت سی وجوہات تھیں، دونوں پنجابی تھے، ظرافت پسند تھے، دونوں ادب سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے، دونوں کو مطالعہ کا گہرا شغف تھا اور سب سے بڑھ کر دونوں کی بوتل سے دوستی تھی۔ انہوں نے میں، منٹو، کالی شلوار اور دھواں کے نام سے منٹو کا خاکہ لکھا تھا۔ منٹو کی یاد میں ایک نظم بھی ”جنت سے منٹو کا ایک خط“ کے نام سے لکھی تھی۔ دونوں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں ایک ساتھ کام کرتے تھے۔ بعد میں منٹو فلم نگر بمبئی کو سدھار گئے لیکن ان کا وہاں راجہ کے بغیر دل نہیں لگا۔ انہیں راجہ مہدی علی خان کی دوستی کی بہت کمی محسوس ہوئی، گو کہ ان کے پاس بہت سے دوست، جن میں شیام، پران، اشوک کمار اور بہت سے دوسرے موجود تھے لیکن ان میں سے کسی کو بھی ادب یا شاعری سے دلچسپی نہیں تھی، اس لئے منٹو نے ان کو بمبئی میں بلا بھیجا۔ راجہ صاحب نے وہاں جا کر مکالمہ نگار کی حیثیت سے بمبئی کی فلمی دُنیا میں قدم رکھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اشوک کمار کی فلم ”آٹھ دن“ میں ایک چھوٹا سا رول بھی کیا، لیکن لگتا ہے کہ وہ مکالمہ نگاری اور ایکٹنگ کے لئے نہیں بنے تھے۔ انہی دنوں فلمستان اسٹوڈیو کے ایس مکرجی کو ایک نغمہ نگار کی تلاش تھی۔ منٹو نے راجہ صاحب کو ان کے پاس بھیجا۔ ایس مکرجی نے راجہ صاحب کو فلم ”دو بھائی“ کے گانے لکھنے کا چانس دیا۔ اس فلم کے لئے انہوں نے 9 گانے لکھے۔
فلم کے موسیقار ایس ڈی برمن تھے اور نورجہاں اور راجن حکسار اس فلم کے ستارے تھے۔ ان کے اس فلم کے لکھے اور گلوکارہ گیتا دت کے گائے ہوئے دو گانے ”میرا سندر سپنا بیت گیا“ اور ”یاد کرو گے ایک دن“ بہت ہی مشہور ہوئے۔ جب یہ فلم 1946ء میں ریلیز ہوئی تو سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی راجہ مہدی علی خان بھی فلمی شاعر کے طور پر مستند ہوگئے۔ 1947ء میں راجہ صاحب اور ان کی اہلیہ طاہرہ نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ راجہ صاحب کو نغموں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے جنہوں نے فلمی شاعری کو ایک بلند مقام دلایا۔ گو کہ ان کے سارے نغمے زیادہ مشہور نہیں ہوئے لیکن ان کی شاعری ہمیشہ زندہ رہے گی۔1948ء میں انہوں نے چار فلموں کے لئے گانے لکھے۔ دلیپ کمار اور کامنی کوشل کی فلم ”شہید“ کے گانوں ”وطن کی راہ میں“ اور ”اڑی اڑی جائے“ میں انہوں نے حب الوطنی کا اظہار کیا۔ لوگوں نے فلم ”ضدی“ کے گانوں کو بھی بہت پسند کیا۔ راجہ مہدی کی مدن موہن کے ساتھ وابستگی کا آغاز 1950ء میں فلم ”آنکھیں“ سے ہوا، جس کے بعد ان کی مدن موہن کے ساتھ ٹیم بن گئی۔ ادا، مدہوش، جاگیر، آپ کی پرچھائیاں، میرا سایہ، وہ کون تھی، نیلا آکاش، دلہن ایک رات کی، جب یاد کسی کی آتی ہے اور نواب سراج الدولہ جیسی کتنی شاندار فلمیں تھیں جن میں اس جوڑی نے کام کیا۔
راجہ مہدی علی خان شاید فلموں میں ”آپ“ کہ متعارف کروانے والے پہلے گیت کار تھے۔ ”آپ کی نظروں نے“ (ان پڑھ) ”آپ کیوں روئے“ (وہ کون تھی) ”آپ نے اپنا بنایا“ (دلہن ایک رات کی) کچھ مثالیں ہیں۔ ان کا لکھا ہوا فلم ”وہ کون تھی“ کا گانا ”لگ جا گلے کہ پھر یہ جواں رات ہو نہ ہو“ گلوکارہ لتا منگیشتر کے 10 بہترین گانوں کی لسٹ میں شامل ہے۔ راجہ صاحب نے بمبئی فلم انڈسٹری کے سب ہی مشہور موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ ان میں کھیم چند، بیلو سی، ایس این تریپاٹھی، شیام سندر، غلام حیدر، ایس ڈی برمن، روی، روشن شامل ہیں۔ انہوں نے سی رام چندر (میرے پیا گئے رنگون) او پی نیر (میں پیار کا راہی ہوں) اور لکشمی کانت پیارے لال (انیتا اور جال) کے ساتھ مل کر کچھ زبردست گانے لکھے اور کمپوز کرائے۔
راجہ مہدی علی خان کو مزاح کا بہت اچھا ادراک تھا۔ ان کے بہت سے گانوں میں مزاح کا عنصر واضح نظر آتا ہے۔ ہم سے نین ملا نہ بی اے پاس کر۔ ہم سے پریت لگا نہ بی اے پاس کر۔ بی اے نہیں ہوں لیکن میں ہوں عشق میں ایم اے پاس۔ ایک اور رومانٹک، شرارتی اور اپنے طور پر چھیڑنے والا فلم میرا سایہ کا گانا ”جھمکا گرا رے بریلی کے بازار میں“ آج بھی پسند کیا اور سنا جاتا ہے۔ یہ مختصر سا ان کا فلمی سفر تھا۔ وہ جو فلمی شاعری کا خزانہ چھوڑ گئے ہیں وہ آج بھی زندہ ہے اور لوگ آج بھی ان کے گانوں کو پسند کرتے ہیں۔ ان کے ساتھی انہیں ان کی عظیم شاعری، تنقید اور کھانے سے پیار کی وجہ سے یاد کرتے ہیں۔ ان کی نظمیں اور مختصر کہانیاں باقاعدگی کے ساتھ بیسویں صدی، شمع، بانو اور کھلونا جیسے مشہور اردو رسالوں میں شائع ہوتی تھیں۔ وہ بمبئی کی فلم نگری میں اچھی شاعری لے کر آئے۔ ان کو بمبئی کی ہندی فلموں کے ایک بڑے گیت کار کے طور پر جانا جاتا تھا لیکن وہ اپنی ہی دنیا میں مگن تھے۔ وہ 29 جولائی 1966ء کو بھری جوانی میں اپنے گانوں کا خزانہ چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کی شاعری کی کتابیں مضراب اور انداز بیاں اور کچھ نثر کی کتابیں بھی چھپیں اور مشہور ہوئیں۔ گو کہ ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن ان کو بچوں سے بہت ہی زیادہ پیار تھا، اس لئے انہوں نے بچوں کے لئے کہانیوں کی دو کتابیں ”بونوں کا قلعہ“ اور ”رانی چمپا کلی“ لکھیں جو بہت پسند کی گئیں۔
ان کے کچھ مشہور گیت

تم بن جیوں کیسے بتا، پوچھو میرے دل سے۔ فلم انیتا۔ 1967ء

تو جہاں جہاں چلے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا۔ فلم میرا سایہ۔ 1966ء

جھمکا گرا رے بریلی کے بازار میں۔ فلم میرا سایہ۔ 1966ء

نینوں میں بدرا چھائے۔ فلم میرا سایہ۔ 1966ء

آپ کے پہلو میں آ کر رو دیئے۔ فلم میرا سایہ۔ 1966ء

نینوں والی نے ہائے میرا دل لوٹا۔ فلم میرا سایہ۔ 1966ء

نینا برسیں رم جھم رم جھم۔ فلم وہ کون تھی۔ 1964ء

لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نا ہو۔ فلم وہ کون تھی۔ 1964ء

جو ہم نے داستان اپنی سنائی تو آپ کیوں روئے۔ فلم وہ کون تھی۔ 1964ء

ہے اسی میں پیار کی آبرو وہ جفا کریں میں وفا کروں۔ فلم اپرادھ۔ 1962ء

آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے۔ فلم اپرادھ۔ 1962ء

آپ یوں اگر ہم سے ملتے رہے۔ فلم ایک مسافر ایک حسینہ۔ 1962ء

میرا سندر سپنا بیت گیا۔ فلم دو بھائی۔ 1946ء

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل