سی پیک کے مکمل ہونے کے بعد توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں نیوکلیئر پاور پروجیکٹس کا اہم کردار ہوگا، ڈاکٹر انصر پرویز
پاکستان روایتی اور غیر روایتی ہتھیاروں میں بھارت پر اپنی بالادستی ثابت کر چکا ہے، نصرت مرزا، بھارت عالمی اداروں کا چیلا بن کر کچھ حاصل نہیں کرسکے گا، ڈاکٹر ظفر نواز جسپال، پاکستان کے نیوکلیئر پاور پلانٹس کے تحفظ کا نظام فول پروف ہے، ڈاکٹر تنویر خالد، سیاسی مفادات کی وجہ سے عالمی طاقتیں پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی طرفداری کرتی ہیں، عرفان حسین زیدی
رپورٹ: سید زین العابدین
کراچی میں رابطہ فورم انٹرنیشنل کے زیراہتمام ویبنار کا اہتمام کیا گیا۔ پاکستان میں توانائی کی بڑھتی ضروریات اور نیوکلیئر انرجی کے موضوع پر شرکاء نے خیالات کا اظہار کیا۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر انصر پرویز نے کہا کہ نیوکلیئر ذرائع سے توانائی کے حصول میں پاکستان کا 50 سالہ تجربہ ہے، جب کینپ کا ری ایکٹر لگایا گیا تھا تو ہم نیوکلیئر ذرائع سے توانائی حاصل کرنے والے ممالک کی فہرست میں 15 ویں نمبر پر آ گئے تھے، ہم سے قبل 14 ممالک یہ ٹیکنالوجی رکھتے تھے، پاکستان کا سول نیوکلیئر پروگرام پُرامن مقاصد کے لئے تھا، ہم توانائی، زراعت، صحت، پانی کے ذخائر اور دیگر سول شعبوں میں اس سے بہتری لانے میں کوشاں ہیں، 1974ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کرکے ہمیں مجبور کیا کہ ہم ایٹمی ہتھیاروں کی طرف بھی توجہ دیں، بھارت کے اس اقدام کے بعد ہمیں بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑا لیکن اپنے سائنسدانوں اور ماہرین کی کوششوں سے ہم خودکفالت کی راہ پر کامیاب ہوگئے اور کینپ کے پروجیکٹ کو اپنی مدد آپ کے تحت چلاتے رہے، نیوکلیئر ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی کی لاگت انتہائی مناسب ہوتی ہے، اگرچہ ابتدائی طور پر زیادہ سرمایہ لگتا ہے لیکن بعد میں اس کے ثمرات ظاہر ہوتے ہیں، اس وقت دُنیا کی ترقی توانائی کی مرہون منت ہے، ہمیں دُنیا میں مسابقت کا سامنا ہے، اس لئے توانائی کی ضروریات پر بھرپور توجہ دینا ہوگی تاکہ ہمارے صنعت کار تجارتی اہداف کو حاصل کرسکیں۔ دستیاب گیس سے اپنی بجلی کی ضروریات کو پوری کرنا چاہیں تو یہ صرف 30 سال تک چلائے جاسکتے ہیں جبکہ تیل سے چلنے والے پاور پلانٹس کی مدت 30 سال ہوتی ہے، پن بجلی اگرچہ سستا ذریعہ ہے لیکن اس کے پروجیکٹ کی تکمیل میں بہت وقت لگتا ہے، نیوکلیئر ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی دیرپا، محفوظ ہونے کے ساتھ سستی بھی پڑتی ہے، اگرچہ نیوکلیئر پاور پلانٹس کے بارے میں ریڈیشن کے خدشات پائے جاتے ہیں جو درست نہیں، اگر کوئی شخص پاور پلانٹ کے باہر رہتا ہے تو اُسے 0.01 ملی سیور ریڈیشن ملتی ہے، جو خطرے کا باعث نہیں ہے جبکہ اس سے کہیں زیادہ ریڈیشن تو کراچی سے اسلام آباد جانے والے مسافر کو ملتی ہے، اس حوالے سے خدشات و تحفظات حقیقت پر مبنی نہیں ہیں، نیوکلیئر پاور پلانٹس کی حفاظت میں بھی پاکستان کا ایک خاص مقام ہے، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی گائیڈلائنز کے تحت سیکورٹی کا فول پروف نظام ہوتا ہے، ہر تین سال بعد اس کی میٹنگ ہوتی ہے جہاں سیکیورٹی کے معاملات میں تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔
رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین نصرت مرزا نے پروگرام کا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو نیوکلیئر شعبے کے حوالے سے کنفیوژ کیا جارہا ہے، کینپ II لگتے وقت بھی مخالفت کی آوازیں اٹھی تھیں، جسے ہم نے بھرپور جواب دیا تھا، رابطہ فورم انٹرنیشنل ملک کے مفاد میں لگنے والے پروجیکٹ کے تحفظ میں پیش پیش ہے، پڑوسی ملک کے منفی پروپیگنڈے کا ہم بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمارے سول نیوکلیئر پاور پلانٹس ایک منظم نظام کے تحت سیکورٹی کے حصار میں رہتے ہیں، جس کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جاتا رہا ہے، اپریل 2018ء میں آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل یوکیہ امانو نے پاکستان کے نیوکلیئر پاور پلانٹس کی سیکورٹی کو آئی اے ای اے کی گائیڈلائنز کے مطابق قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں پاکستانی ماہرین کی صلاحیت سے متاثر ہوا ہوں، پاکستان کے پاور پلانٹس کی سیفٹی کا سسٹم دیگر ملکوں کے لئے بہترین مثال ہے، غرض رابطہ فورم انٹرنیشنل ملک کے مفاد میں اٹھائے گئے ہر اقدام کی افادیت، اثرات اور اس کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کے مضمرات سے آگاہ کرتا رہتا ہے، ہم اپنے روایتی حریف پر کنونشنل ہتھیاروں میں بھی سبقت رکھتے ہیں، جس کی جھلک دُنیا فروری 2019ء میں دیکھ چکی ہے۔
ڈاکٹر ظفر نواز جسپال نے کہا کہ چونکہ نیوکلیئر پروگرام کا سنتے ہی عام لوگوں کا ذہن ایٹمی ہتھیاروں کی طرف چلا جاتا ہے، لیکن اس کا دوسرا پہلو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی بھی ہے جس سے توانائی کا حصول، زراعت کے شعبے میں مدد، صحت، پانی اور تعلیم کے شعبے میں بہتری لانے کا موقع بھی ملتا ہے، اگرچہ دُنیامیں تین جوہری پاور پلانٹس کے حادثات کو بنیاد بنا کر اس کے خلاف پروپیگنڈا کرنا آسان ہوجاتا ہے لیکن جب حقائق سامنے آتے ہیں تو یہ پروپیگنڈا ناکام ہوجاتا ہے، دُنیا میں جتنے ممالک نیوکلیئر پاور پلانٹس چلا رہے ہیں انہیں آئی اے ای اے کی گائیڈلائنز پر عمل کرنا ہوتا ہے جس کی براہ راست نگرانی کی جارہی ہوتی ہے اور پھر مختلف میٹنگز اور سیمینار کے ذریعے ان پاور پلانٹس سے متعلق کچھ پوائنٹس کی نشاندہی کی جاتی ہے تو فوری اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے دوران ہمارے نیوکلیئر پاور پروجیکٹس اور نیوکلیئر عسکری پروگرام کے بارے میں بہت تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ 2011ء میں اقوام متحدہ کی نیشنل سیکورٹی کونسل نے بھی اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا تھا، لیکن ہمارے فول پروف سیکورٹی سسٹم نے ان تحفظات و خدشات کو بلاجواز ثابت کیا، 2015ء میں ہمارے ایس پی ڈی کے سربراہ جنرل خالد قدوائی نے کہا تھا کہ پاکستان کی نیوکلیئر سیکورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام پُرامن مقاصد کے لئے ہے، ہمارے جارحانہ عزائم نہیں ہیں، ہم نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں مگر بین الاقوامی سیاست کا شکار ہیں، چونکہ بھارت امریکا کا اتحادی ہے اس لئے اس کی جانب بڑی طاقتوں کا واضح جھکاؤ ہے
پاکستان بھارت سے ہر حال میں بہتر صلاحیت رکھتا ہے، ہماری توانائی کی ضروریات کے حوالے سے نیوکلیئر پاور پروجیکٹس کا اہم کردار ہے، ہمارے ماہرین کی صلاحیت اور کارکردگی دُنیا کے جدید اور ترقی یافتہ ممالک کے ماہرین جیسی ہے، ہم اس شعبے میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں، جس کا آئی اے ای اے کی جانب سے متعدد مرتبہ اعتراف کیا جا چکا ہے۔
ڈاکٹر تنویر خالد کا اس موقع پر کہنا تھا کہ توانائی کا حصول ایک اہم مسئلہ ہے،ہماری بڑھتی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے مختلف ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر عمل کیا جارہا ہے، نیوکلیئر پاور پروجیکٹس کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، جس کی نشاندہی شرکا کر چکے ہیں، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ماہرین اور سائنسدانوں نے گزشتہ تقریباً 50 سالوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، پاور پلانٹس کو چلانے اور اس کے تحفظ کے نظام کو آئی اے ای اے کی دی گئی رہنمائی کے مطابق ترتیب دے کر دیگر ممالک کے لئے مثال بنائی گئی ہے۔ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر بڑے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، ہمارے سول اور عسکری دونوں شعبے تنقید کی زد پر رہے ہیں جبکہ پڑوسی ملک کے حوالے سے اس قدر اعتراضات سامنے نہیں آئے حالانکہ بھارت عالمی اداروں کی گائیڈلائنز کی کھلی خلاف ورزی کرتا رہا ہے، پاکستان کا سول نیوکلیئر پروگرام محفوظ اور مستحکم ہے، توانائی کی بڑھتی ضروریات کو پورا کرنے میں اس کا بنیادی کردار ہے، ہمارے پاور پلانٹس ایک منظم اور فول پروف نظام کے تحت چلائے جارہے ہیں اس لئے اس پر اعتراضات اٹھانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
جامعہ کراچی میں آئی آر ڈیپارٹمنٹ کے عرفان حسین زیدی نے کہا کہ جدید دُنیا میں توانائی کا حصول اور ٹیکنالوجی میں مہارت کی بڑی اہمیت ہے، اگر ہم اپنی ضروریات کے مطابق توانائی پیدا کرنے میں ناکام رہیں گے تو مسابقت کے دور میں پیچھے رہ جائیں گے، تیل اور گیس کے ذریعے اپنے پاور پلانٹس کو چلا کر سستی بجلی پیدا کرنا ناممکن ہے کیونکہ تیل و گیس عرب ممالک اور ایران سے امپورٹ کرتے ہیں، یہ ایک مہنگا ذریعہ ہے، پاکستان کی بجلی کی ضروریات 25 ہزار میگاواٹ ہے جبکہ ہم 23 ہزار میگاواٹ پیدا کررہے ہیں، حالانکہ ہماری صلاحیت 40 ہزار میگاواٹ کی ہے، جتنی بجلی اس وقت پیدا کی جارہی ہے اس میں نیوکلیئر ذرائع کا حصہ 6 فیصد ہے جسے بڑھانے کی گنجائش موجود ہے، اگرچہ ہمارے سول نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے بھی تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے لیکن یہ حقائق سے زیادہ سیاسی مفادات پر مبنی ہے، چونکہ بڑی طاقتوں کو ہمارے سول اور عسکری نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے تحفظات ہیں، ہم پر بہت دباؤ رہا لیکن ہم نے نیوکلیئر پروگرام، چین سے تعلقات اور بھارت کے معاملے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، بھارت عالمی طاقتوں کا ایجنٹ بن کر خطے میں چوہدراہٹ کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے کیونکہ دُنیا کے طاقتور ممالک چین کے مقابلے میں اُسے کھڑا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، اس لئے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو اہمیت دی جاتی ہے، جس پر بھارت اپنی اہلیت سے زیادہ عسکری طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے، جس کا جواب اُسے دیا جاتا رہا ہے، پاکستان نیوکلیئر ہتھیاروں کے علاوہ کنونشنل ہتھیاروں میں بھی بھارت پر اپنی سبق ثابت کرچکا ہے، پاکستان کا ایٹمی پروگرام پُرامن مقاصد کیلئے ہے، ہمارے سول نیوکلیئر پاور پلانٹس ملکی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ شرکا نے ویبنار میں موجود طلبا طیبہ تحسین، سید سمیع اللہ، ولید خٹک اور دیگر کے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔