Saturday, July 19, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

رائے عامہ اور کل کا مورخ

جناب رائے ریاض حسین کی یادوں کا مرقع ”رائے عامہ“ بہت ہی خاص اور مزے دار تخلیق ہے، رائے صاحب نے پڑھا تو جغرافیہ مگر ”رائے عامہ“ کی صورت ایک تاریخ مرتب کر گئے ہیں، یہ ہمارے ماضی قریب کی دفتری سیاسی تاریخ اور سیاست دانوں کے بارے میں ایک کھلا سچ ہے، جس کے مطالعے سے کھلتا ہے ہر کوئی آپس میں ایک دوسرے کو فتح کرنے میں لگا ہوا ہے آپا دھاپی کا یہ رحجان خوش آئند یا تحسین آمیز نہیں ہے، یہ وبا یا رویہ ہمیں ہمارے تعلیمی ماحول نے دیا ہے، جس میں بچے کو مقابلے کی تحریک، پچھانے، آگے نکلنے کا سبق تو دیا جاتا ہے مگر اخوت و بھائی چارے کی تعلیم نہیں ملتی۔ رائے صاحب نے لکھا کہ بیرون ملک ہمارے سفارت خانے اپنے حصے کا کام پوری دیانت داری سے نہیں کرتے۔ رائے صاحب کی یہ رائے اندرون ملک بھی صادق آتی ہے۔ رائے ریاض نے لگی لپٹی رکھے بغیر پاکستانی سیاست کے چہرے طشتِ ازبام کئے ہیں۔
رائے ریاض حسین کی نئی تصنیف پر تفصیلی تبصرہ

جناب رائے ریاض حسین کی یادوں کا مرقع ”رائے عامہ“ بہت ہی خاص اور مزے دار تخلیق ہے، رائے صاحب نے پڑھا تو جغرافیہ مگر ”رائے عامہ“ کی صورت ایک تاریخ مرتب کر گئے ہیں، یہ ہمارے ماضی قریب کی دفتری سیاسی تاریخ اور سیاست دانوں کے بارے میں ایک کھلا سچ ہے، جس کے مطالعے سے کھلتا ہے ہر کوئی آپس میں ایک دوسرے کو فتح کرنے میں لگا ہوا ہے۔ آپا دھاپی کا یہ رحجان خوش آئند یا تحسین آمیز نہیں ہے، یہ وبا یا رویہ ہمیں ہمارے تعلیمی ماحول نے دیا ہے، جس میں بچے کو مقابلے کی تحریک، پچھانے، آگے نکلنے کا سبق تو دیا جاتا ہے مگر اخوت و بھائی چارے کی تعلیم نہیں ملتی۔ رائے صاحب نے لکھا کہ بیرون ملک ہمارے سفارت خانے اپنے حصے کا کام پوری دیانت داری سے نہیں کرتے۔ رائے صاحب کی یہ رائے اندرون ملک بھی صادق آتی ہے۔ رائے ریاض نے لگی لپٹی رکھے بغیر پاکستانی سیاست کے چہرے طشتِ ازبام کئے ہیں۔ رائے عامہ میں یہ بھی پڑھنے کو ملا کہ ہنڈا کمپنی کا مالک سائیکل سے کار تک کیسے پہنچا، جاپان نے اپنے زیرو کو ہیرو کیسے بنایا اور یہ بھی تحریر فرمایا کہ پاکستان نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے ہیرو کو زیرو کیسے کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زندگی میں حکومتی بزدلی کی وجہ سے ایک ایسا وقت بھی آیا جب ان کے سارے مطلبی دوست ایک ایک کرکے ان کا ساتھ چھوڑ گئے تھے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام کے ساتھ نام آنا تہمت بن گیا تھا۔ ایسے میں رائے ریاض نے سرکاری ملازم اور انتہائی اہم اور حساس جگہ پر ہوتے ہوئے بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حق میں خبریں چھپوائیں اور ممتاز قلم کار صحافیوں سے کالم لکھوائے، ممتاز صحافی نصرت مرزا کا ذکر اس ذیل میں ”رائے عامہ“ میں پڑھنے کو ملتا ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب نصرت مرزا کا ڈاکٹر خان کی حمایت میں ایک اخبار کے ادارتی صفحے پر کالم شائع ہوا تھا تو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے فوری مجھ سے رابطہ کرکے کہا تھا کہ ”یار جبار مرزا صاحب آپ بھی مرزا ہو۔ پتہ کریں یہ نصرت مرزا کی صورت میں ہمیں ایک اور عنبر وعود سے گزر کر ہم تک یہ ہوا کا جھونکا پہنچا ہے، ہمیں تو ان تک نہیں پہنچنے دیں گے، انہیں آپ یہاں بلائیں تاکہ ہم ان کے نیاز حاصل کرسکیں۔“ میں نے پھر جناب نصرت مرزا کو اسلام آباد آنے کی دعوت دی۔ اس کے بعد نہ صرف نصرت مرزا صاحب نے ڈاکٹر خان کی مشکلات پر مزید کالم لکھے بلکہ ایک کتاب ”ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مقدمہ“ بھی لکھی، گویا یہ وہ نیکی ہے جو انعام و اکرام اور صلے کی اُمید سے بے نیاز ہو کے کی گئی تھی۔ رائے ریاض نے اپنے بھارت میں پاکستانی سفارت خانے میں تعیناتی کے دوران ایک انٹرویو میں ایک حیران کن بات کی تھی کہ ”ایک بار ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین بھارت کے دورے پر گئے تو بیان دیا کہ پاکستان کا قیام ایک بہت بڑی غلطی تھی۔“ رائے ریاض کہتے ہیں کہ ”پرویز مشرف کی حکومت تھی، ہم بھارت میں موجود لوگ توقع کررہے تھے کہ ہم سے ہماری حکومت بیان کا سیاق و سباق مانگے گی، ردعمل اور وضاحت طلب کی جائے گی مگر حیرت ہوئی کہ جنرل پرویز مشرف نے فون کرکے کہا کہ الطاف حسین کے اعزاز میں کھانے کا بندوبست کریں۔“ رائے عامہ میں موجود رائے ریاض کی ایک بات سے ہم بھی حیران ہوئے اور چونکے بھی کہ انہوں نے میر ظفر اللہ خان جمالی والے چیپٹر میں کعبہ پر ابراد والے حملے کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جوڑا ہے، یقیناً ”یہ بات سہواً“ ہوگئی ہوگی۔ رائے ریاض حسین کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو سر تا پا انسان دوست ہیں۔ دھرتی سے، وطن اور اپنے علاقے سے جڑے ہوئے!! عام آدمی جو رائے عامہ کا تقدس جانتا ہے، اس کے لئے ہے کہ رائے ریاض پاکستان کے انفارمیشن گروپ سے ہیں، چار وزرائے اعظم کے پریس سیکریٹری اور تین ملکوں، جاپان، سری لنکا اور بھارت میں پریس کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ جاپان گئے تو جاپانیوں کی ترقی اور پاکستان کی لمحہ لمحہ تنزلی کے تجزیے کئے۔ سری لنکا گئے تو اسلامی ملکوں کے اخبار نویسوں کی ایک تنظیم بنا کے بھارتی مسلم دشمنی کا دفاع کیا اور بھارت گئے تو بھارتیوں کے اس عام پروپیگنڈے کہ ”ہمیں علیحدہ ہونے کی ضرورت کیا تھی؟“ کا دانشوروانہ پلیٹ فارم اور ”رائے عامہ“ میں علامہ اقبال کے ویژن اور قائداعظم کے مشن کی اہمیت اُجاگر کی۔ رائے ریاض حسین گھر عذاب اور باہر ثواب کے بالکل بھی قائل نہیں ہیں، وہ بیرون ملک رہے تو پاکستان کے فکری، نظری اور قلبی سفیر بن کے رہے اور پاکستان میں

ہوئے تو جھنگوی بن کے رہے۔ انہوں نے اپنے علاقے میں تعلیم کے فروغ، بیروزگاری کے خاتمے اور عام آدمی کی بہتری کے لئے کسی ممبر قومی اسمبلی یا وفاقی وزیر سے زیادہ کام کئے۔ جناب رائے ریاض ڈھڈھی راجپوت ہیں، رائے عامہ میں انہوں نے اپنے علاقے کے نوجوانوں کے لئے ترقی کے مواقع فراہم کئے۔ ڈھڈھی قبیلے کو میرٹ پر لیا کسی وزیراعظم سے کہا میرے علاقے کے لوگوں کو سڑک کی ضرورت ہے کسی دوسرے وزیراعظم سے کہا میرے علاقے کے جوانوں کے تعلیم، صحت مند سرگرمیوں اور مقابلے کے امتحان میں سہولیات کی درخواست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سول سروس میں جھنگ کے افسروں کی اکثریت ہے، بھارت گئے تو عام آدمی کے علاوہ دونوں ملکوں کے مابین سرکاری سطح پر اخوت و بھائی چارے کی فضاء قائم کرنے میں کردار ادا کیا۔ بھارتی صدر ابوالکلام نے اگر وہی روایتی عوامی جملہ کہا کہ ”ہندوستان کی تقسیم کی کیا ضرورت تھی“ تو جواب دیا۔
”اگر ایک گھر میں دو افراد اپنا اپنا کمرہ رکھ سکتے ہیں تو دو قومیں اپنا اپنا ملک کیوں نہیں رکھ سکتیں“ اہل قلم کے وفود کے تبادلے کرائے، بھارت کو بھارت کے اندر زچ کیا۔ ”رائے عامہ“ کے مطالعے سے کھلتا ہے کہ پاکستان میں اقتدار کا منبہ وہ نہیں ہے جو دکھائی دیتا ہے۔ اصل طاقت اور مضبوط ہاتھ وہ ہیں جنہوں نے 12 اکتوبر 1999ء کے سانحہ سے چند روز بیشتر وزیراعظم کے بیرون ملک دورے کے موقع پر کچھ لوگوں کو جہاز سے اتار لیا تھا۔ رائے ریاض حسین وجدانی بھی ہیں اور سیلانی بھی، انہوں نے اگر فیصل صالح حیات، عابدہ حسین اور چوہدری نثار کے کردار پر تنقیدی سچ لکھا تو ظفر اللہ خان جمالی اور چوہدری شجاعت کی توصیفی سیاست کی تعریف بھی کی ہے۔ وہ اگر کعبتہ اللہ کے اندر وجدانی ہوئے تو بھارتی پروپیگنڈے کے سامنے ہیجانی بھی ہوئے۔ الغرض ”رائے عامہ“ بڑے خاصے کی کتاب ہے، اس میں شامل اکثر کردار میرے دیکھے بھالے ہیں، ماضی قریب کی ایک تاریخ کا میں چشم دید بھی ہوں۔ میر ظفر اللہ خان جمالی نے مجھ سے ہی کہا تھا کہ ”ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سر کی قیمت وصول کرلی گئی تھی، سی ون تھرٹی تیار کھڑا تھا مگر میں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی EXIT پر دستخط کرنے سے انکار کیا، میرا وہ عمل امریکا کو ناگوار گزرا تو فوری طور پر مجھے اقتدار سے الگ کرکے چوہدری شجاعت کو ہنگامی وزیراعظم بنا دیا تھا ”14 نومبر 2009ء کو میرا وہ کالم ”سی ون تھرٹی تیار کھڑا تھا“ شائع ہوا تھا جس پر بعد میں خبریں بنیں، ”رائے عامہ“ میں اس حوالے سے بھرپور اشارے ملتے ہیں۔
رائے ریاض صاحب کی تجزیاتی یادیں، چشم دید گواہیاں اور آپ بیتی کے نوکیلے شذرے ”رائے عامہ“ تاریخ بھی ہے، اقتدار کی بھول بھلیوں کی کہانیاں بھی، سفرنامہ اور روزمرہ بھی، مجھے خوشی ہے کہ جناب رائے ریاض حسین نے مقدور بھر نئی نسل کو اپنے ماضی سے آگاہ کیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے اور رائے عامہ جانے بغیر کل کا مورخ آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اللہ پاک ان کی یہ سعی قبول فرمائیں! آمین
مبصر: جبار مرزا

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل