دہشت گردی مسلمانوں نے ایجاد نہیں کی، جدید دور میں اس کے ڈانڈے 1795ء کے انقلابِ فرانس سے جا ملتے ہیں مقصد یہ رہا کہ حکومت کو دہشت گردی کرکے خوفزدہ کرنا، پھر ایک دور میں یہ کمزور اقلیتوں یا اکثریتی آبادی کا ظالم حکمران کے خلاف ہتھیار مانا گیا۔ مخالف گروپ کسی نہ کسی شکل میں مزاحمت کرتے تھے اُس کو بغاوت کا نام دیکر دبالیا جاتا تھا مگر پھر اقوام متحدہ نے عوام کے حقوق کے عمل کو تسلیم کرلیا اور کسی حد تک اس کو دہشت گردی سے مبرا کردیا۔ جیسے کشمیر اور فلسطین کی آزادی کا حق، کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرارداد موجود ہے۔ کشمیری آزادی چاہتے ہیں اور فلسطین کے معاملے میں فلسطین کو ایک علیحدہ ملک تسلیم کرنے کا باقاعدہ مذاکرات سے حل کرنے کی بات ہوچکی ہے مگر 8 نومبر 2005ء کو چندی گڑھ بھارت میں ہونے والے 8 روزہ سیمینار میں جس میں، میں خود بھی شریک ہوا، اس میں اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ جیکب امیڈورور نے کہا کہ وہ بھارت کو سکھائیں گے کہ کشمیر میں تحریک آزادی کو کیسے کچلا جاسکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فلسطینی ہار گئے ہیں، اسی طرح کشمیری بھی اپنی جہدوجہد کو ختم کردیں گے، ویسے بھی فلسطین کے مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ سارے فلسطینیوں کو ختم کردیا جائے اور مجھ پر اس منہ پھٹ اسرائیلی نے بنیاد پرست ہونے کا الزام لگایا میں نے کہا تھا کہ نہ کشمیری اور نہ ہی فلسطینی جنگ آزادی سے جھکیں گے اور نہ ہی ہم نے دہشت گردی ایجاد کی اور جو لوگ اپنے حقوق کے لئے لڑتے ہیں وہ دہشت گرد نہیں گردانے جاتے۔ اس وقت ہمارے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ اِس انٹیلی جنس کے سربراہان کی کانفرنس میں پاکستان کی سول سوسائٹی کے ممبران جن میں سفیر نجم الدین شیخ اور جنرل طلعت مسعود کیوں بلائے گئے تھے، باقی دُنیا امریکہ، روس، بھارت، اسرائیل اور دیگر ممالک سے سابق انٹیلی جنس چیف موجود تھے، بعد میں یہ بات ہمارے سمجھ میں آئی کہ وہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے منصوبے کو آخری شکل دے رہے ہیں سو وہ ہمیں بتانا چاہتے تھے کہ وہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر دشت گردی کرنے کا منصوبہ بناچکے ہیں، انہوں نے پھر اس بلا کی دہشت گردی 2013ء تک کی کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی، یہاں تک ’’ضربِ عضب‘‘ نے اُس کی شدت کو روکا۔ اس کے علاوہ دنیا کی کوئی انٹیلی جنس ایجنسی یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ اگر اس کے پاس وسائل ہوں کہ وہ دہشت گردی نہ کراتی ہو یا دہشت گردوں سے رابطے میں نہ ہوتی ہو مگر کسی کے لئے وہ دہشت گرد ہیں اور دوسرے کے لئے تحریک جہدوجہد آزادی کے علمبردار، اس وقت پاکستان پر چہارسو سے دہشت گردی کی یلغار ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری بن رہی ہے جس سے امریکہ کو یہ خطرہ ہے کہ اُس کی بالادستی کو چیلنج ہوجائے گا اور امریکہ اور روس کے بعد چین بھی بہ لحاظ ملٹری اور معاشی طاقت کے ساتھ تیسرا بڑا ملک بن کر ابھرے گا۔ روس معاشی طور پر کمزور ہے جبکہ چین معاشی لحاظ سے زیادہ مضبوط ہے اور ملٹری طاقت کا اظہار رفتہ رفتہ کررہا ہے۔ حال ہی میں اس نے 16 کلومیٹر سے لے کر 15 ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والا بین البراعظمی بلیسٹک میزائل بنایا ہے جس کو ایم آئ آروی کے ذریعے ایک وقت میں دس میزائل مختلف سمتوں میں اہداف کو نشانہ لگاسکتے ہے۔ اس لئے امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت کو روکنے کے لئے کئی قسم کے اقدامات اٹھا رہا ہے وہ ایک تو جاپان، آسٹریلیا، امریکہ، بھارت کے ساتھ مل کر ایک بلاک بنا رہا ہے اور دوسرے ہر طرح کی دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ القاعدہ اور داعش دونوں ہی امریکہ کی پیداوار ہیں۔ اس کا برملا اظہار سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنی ایک ویڈیو تقریر میں کیا ہے۔ ہم نے اس کو پہلے ہی سمجھ لیا تھا اور اپنے کالم میں اس کا ذکر اُن کے اظہار سے بہت پہلے کردیا تھا۔ داعش اور القاعدہ کو شام اور عراق میں بُری طرح شکست ہوگئی ہے اور اب وہ مصر اور افغانستان کا رُخ کرچکے ہیں کیونکہ امریکہ کے منصوبے کے تحت مصر کو بھی تقسیم کرنا ہے اور اُن کو پاکستان کے خلاف بھی استعمال کرنا ہے۔ حال ہی میں جو دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں وہ امریکہ کی سی پیک کے خلاف پالیسی کا شاخسانہ ہے اور بھارت و افغانستان اس کی بھرپور مدد کررہے ہیں۔ 1989ء میں امریکہ، پاکستان اور سعودی عرب کی کاوشوں سے روس کو شکست ہوئی، اس کی تصدیق بھی ہیلری کلنٹن نے اپنے ویڈیو بیان میں کردی۔ اب یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ 9/11 کا واقعہ بھی خود امریکہ نے کسی کو استعمال کرکے کیا۔ اس کا جواز یہ ہے کہ امریکی عزائم کی راہ میں جہاں غیرملکی عناصر حائل تھے وہاں سب سے زیادہ اُن کے اپنے عوام تھے۔ اُن کو جنگ کے لئے تیار کرنا انتہائی مشکل کام تھا، جو انہوں نے القاعدہ کے حوالے سے اپنی عوام کو اِس حد تک غصہ دلایا کہ اب وہ غصہ اپنی عوام پر اتار رہے ہیں۔ اکثر وہاں دہشت گردی کے واقعات ہوجاتے ہیں، کوئی بھی حالات سے بیراز، زندگی کی بدمزگی کا شکار، اللہ سے رجوع نہ کرنے کی وجہ سے بے مقصدیت کا شکار حملہ آور ہو رہا ہے تو بے قصور شہریوں کو بھی مار دیتا ہے اور خود کو بھی ہلاک کردیتا ہے جبکہ پاکستان میں امریکہ نے مخلوط جنگ چھیڑ رکھی ہوئی ہے، وہ مذہبی فرقہ واریت پھیلانا چاہتے ہیں فیل ہوئے، وہ ملک میں مارشل لاء لگا کر تصادم چاہتے تھے ناکام ہوئے، خودکش حملے، بم دھماکے، بارودی سرنگ بچھا کر سیکورٹی اہلکاروں کو شہید کرنا، گھات لگا کر مارنا، ہر طریقہ استعمال کررہے ہیں مگر پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے میں بُری طرح ناکام ہوئے ہیں کیونکہ پاکستان میں جمہوریت پل پھول رہی ہے، کرپشن کو چیک کیا جارہا ہے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے درست کہا ہے کہ جمہوریت ہی کامیابی کا واحد راستہ ہے تو آرمی چیف نے کہا ہے کہ پاکستان سب مسلکوں اور مذہبوں کا ملک ہے، اس لئے بھی کہ یہ سب نے مل کر بنایا ہے۔ چین پاکستان کے ساتھ مل کر ایک نیا عالمی نظام بنانا چاہتا ہے جس کا اظہار اس نے کئی سال پہلے کردیا تھا اور اس میں جنرل پرویز مشرف سے لے کر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم اور سابق فوجی سربراہان شامل تھے۔ پاکستان اپنی بقا کی جنگ میں نیٹو سینٹو میں شامل ہوا اور پاکستان اپنی بقا اور ترقی کے لئے سی پیک کا حصہ بنا۔ ایسی صورت میں گمان یہ ہے کہ پاکستان پر شدید دباؤ آنے والا ہے۔ حال ہی میں افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل نلکسن نے کہا تھا کہ پاکستان نے طالبان کے بارے میں اپنی پالیسی نہیں بدلی، جس کے یہ معنی ہیں کہ امریکہ پاکستان کے خلاف ڈرون حملہ اور سرجیکل اسٹرائیک کے آپشنز کو بروئے کار لانے کا اشارہ دے رہا ہے جو ایک خوفناک بات ہے۔ پاکستان کو اس بات کا اطمینان ہے کہ وہ اپنے ملک کے دفاع میں مستعد ہے اور شاید امریکہ یہ جرأت نہ کرسکے کہ پاکستان کے اس قسم کے غیرذمہ دارانہ حرکت کرے۔ البتہ وہ بھارت اور افغانستان کو پاکستانی سرحدوں پر گولہ باری یا اس قسم کے کام کرنے کو کہہ سکتا ہے جو یہ لوگ بخوشی کریں گے تاہم اس سلسلے میں پھر پاکستان کو اس عوامل کو سزا دینے اور ایسے ممالک کو متنبہ کرنے کی سبیل کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آئیں، ورنہ معاملات کسی بڑی جنگ پر جا کر منتج ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے عالمی جنگ کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ جو عالمی امن اور انسانیت کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بنی نوع انسان اس کا متحمل ہوسکتا ہے؟