نصرت مرزا
مغرب نے آج مسلمانوں کے خلاف یلغار برپا کی ہوئی ہے جسے امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دے کر منظم کیا ہے اور اس یلغار کو وہ روز بہ روز بھرپور بنا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمان بند گلی میں پھنس گئے ہیں اور گھیر لئے گئے ہیں۔ ایسے میں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے دن اُن ہی کی یاد آسکتی ہے اور اُن ہی کی طرف رہنمائی کے لئے دیکھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ پھر آج رزم میں معرکہ حق و باطل ہے اور ویسے بھی مسلمان جانتے ہیں کہ ؎ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
لیکن پاکستان کے موجودہ حکمران کیا حضرتِ سیدنا امام حسینؓ کی طرف رہنمائی کے لئے دیکھتے ہیں اور کیا پاکستان کے صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف تو خود بھی سید ہیں، اپنے اسلاف کے کردار سے رہنمائی حاصل کریں گے۔ ہونا تو چاہئے کہ رسم شبیری ادا ہو اور ظالم و جابر و فاسق اور صلیبی جنگ برپا کرنے والے اور دُنیا کی حاکمیت کا دعویٰ کرنے والے کے سامنے حق و صداقت کا علم بلند کیا جائے اور ان کی مزاحمت کی جائے۔ البتہ یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کو جس چیلنج کا سامنا ہے اور جس طاقت کے دباؤ کا وہ شکار ہیں اس کی مزاحمت کیسے کی جائے۔ سرنگوں ہونا امام حسینؓ کی پیروی تو نہیں اور کسی سیدزادہ سے اس کی توقع بھی نہیں۔ تو پھر مزاحمت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا، اس پر تو دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ مزاحمت تو ہونا چاہئے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ مسلم دُنیا مزاحمت کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ لے دے کر پاکستان ہی ایسا ملک تھا جس کے جھنڈے تلے مسلم دُنیا کا کچھ حصہ جمع ہوسکتا تھا۔ جب پاکستان نے ہاتھ پیر چھوڑ دیئے تو پھر کوئی مزاحمت موجود نہیں رہی۔ قیامت کا منظر ہے، نفسانفسی کا عالم ہے، ہر کوئی اپنی جان بچانے میں لگا ہے۔ ایسے موقع پر میں نے کراچی کے تین مفتیوں سے رائے لی۔ ان میں مفتی نظام الدین شامزئی صاحب، مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی، مفتی نظام الدین شامزئی صاحب کا خیال تھا کہ دُنیا پر امریکی غلبہ اور مسلمان ممالک پر قبضہ اور اس سلسلہ میں امریکیوں کی پیش رفت کی مزاحمت کی جانا چاہئے اور سخت مزاحمت کی جانا چاہئے۔ البتہ معروضی حالات میں مزاحمت کی نوعیت اور شدت کا فیصلہ امت مسلمہ کا کوئی فرد تنہا نہیں کرسکتا۔ اور اس لئے بھی کہ علمائے کرام کا علم دینی معاملات تک محدود ہے اور پھر بہت سے معاملات کو وہ سرے سے جانتے ہی نہیں ہیں اور اس لئے بھی کہ اس وقت پوری مسلم امہ امریکا کے ظلم و استبداد کا شکار ہے۔ اس لئے پورے عالم اسلام کے علمائے کرام، عسکری رہنما اور دیگر طبقہ خیال کے لوگ مل کر یہ فیصلہ کریں کہ کس قسم کی مزاحمت کی جانا چاہئے۔ جس میں نقصان کم سے کم ہو۔ البتہ جو جوش و خروش مسلمان نوجوان میں موجود ہے اس کو کم نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کو زیادہ مضبوط مزاحمت کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جن قوموں کو ابھرنا ہوتا ہے انہیں مشکلات بھی جھیلنا ہوتی ہیں، اس وقت امریکا نے جو الاؤ مسلمانوں کے اردگرد بھڑکایا ہے اس کی تپش پوری امہ محسوس کررہی ہے اور اس سے بچاؤ کی تدابیر سوچ رہی ہے جو ایک اچھی علامت ہے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے فرمایا کہ مسلم دُنیا دو طبقوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک طبقہ سیکولر ذہن کے لوگوں پر مشتمل ہے اور دوسرا دینی۔ ہر دو نے ایک ایک غلطی کی۔ دینی طبقہ نے ہر طرح کی قربانی دے کر دین کو محفوظ بنا لیا ہے۔ لیکن اس نے قرآن حکیم کے اس حکم پر عمل درآمد نہیں کیا۔ جس میں امہ سے کہا گیا ہے کہ قوت حاصل کرو۔ قوت سے مفتی صاحب نے مراد نئی ٹیکنالوجی اور معاشی قوت لی۔ ان کے مطابق سیکولر طبقہ کی خرابی دہری ہے یعنی وہ دین سے دور رہا اور اس نے نئی ٹیکنالوجی اور معاشی قوت بننے کی طرف بھی خاطرخواہ توجہ نہ دی۔ اس کی سب سے واضح مثال ترکی کی ہے۔ وہ یورپ کا سب سے غریب ترین ملک ہے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ دونوں طبقے مل کر صورتِ حال کا مقابلہ کرسکتے ہیں اگر اس کی شروعات اب کردی جائیں اور بس دس بیس سال میں پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ڈرائنگ روموں اور ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر خودکش حملوں پر تنقید نہیں کرسکتے۔ البتہ بات اسٹراٹیجی کی آئے تو پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ غلط اسٹراٹیجی ہے۔
مفتی رفیع عثمانی نے کہا کہ اگر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیا جائے اور تفرقہ نہ ڈالا جائے تو ہم مقابلہ کرسکتے ہیں۔ قرآن حکیم میں سائنس، معاشی اور پیداواری میدان میں ابواب و ذکر و ہدایات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مغروروں کے درمیان اتحاد قائم نہیں ہوسکتا، یہاں سب غرور میں مبتلا ہیں، فوج کی طاقت کا گھمنڈ، سیاسی پارٹی عصبیت، فرقہ کا غرور، علم کا غرور، پھر اللہ کا نظام یہ ہے کہ کبھی باطل طاقتور نہیں ہوسکتا اور نہ ہی غالب آسکتا ہے اور نہ ہی حق کبھی دبتا ہے، اگر کبھی ایسا ہو تو جان لینا چاہئے کہ وہ حق کو کسی نہ کسی شکل میں اپنائے ہوئے ہے اور جہاں حق دب جائے تو یہ جان لینا چاہئے کہ وہ باطل کی کچھ صفات اپنائے ہوئے ہے۔ امریکا نے قرآنی خبر طاقت کے حصول کو اپنا لیا ہے، اس کے علاوہ اس کے معاشرے میں سچ، انصاف، ظلم موجود ہے، مسلم دُنیا میں کوئی شخص قیادت کے لائق نہیں ہے۔ مسلم امہ قیادت کے صفات سے عاری ہے۔ یورپی و امریکی ممالک جوہر کی تلاش میں رہتے ہیں اور طاقت کے حصول میں لگے رہتے ہیں، وہ ہمارے اچھے اذہان ہر قیمت پر لے جاتے ہیں اور ہمارا معاشرہ جوہر کا قتل کرتا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ اللہ سے توبہ کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ حالات و واقعات حضرت امام مہدی کے ظہور کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس کے سامان ہورہے ہیں اس کے شواہد اکٹھے ہورہے ہیں۔ وہی رہنمائی فرمائیں گے ؎
دُنیا کو ہے اُس مہدی برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگاہ میں عالم افکار کا انقلاب