Tuesday, July 29, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

دُنیا کا آٹھواں عجوبہ

جنرل مرزا اسلم بیگ
میں نے اسکول کے دنوں میں تبت کی سطح مرتفع کے بارے میں پڑھا تھا اور اس وقت سے یہ علاقہ دیکھنے کی خواہش میرے دل میں تھی۔ یہ علاقہ شمال کی جانب ہمالیہ اور جنوب میں کنفن کے عظیم پہاڑی سلسلوں کے سنگم پر سطح سمندر سے 12000 سے لے کر 16000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور بجاطور پر دُنیا کی چھت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اس قدر خوش قسمت ہوں کہ ایک دن پُرآسائش ریل میں بیٹھ کر اس علاقے کا سفر کروں گا۔ آخر وہ دن آ ہی گیا جب چین کے تحقیقی ادارے چائنیز پیپلز ایسوسی ایشن فار پیس اینڈ ڈیولپمنٹ کی جانب سے ہمارے ادارے کو چین کے دورے کا دعوت نامہ ملا۔ ہم نے اور تبت کے درمیان نئی تعمیر ہونے والی ریلوے کی سیر کی درخواست کی جو خوش دلی سے منظور کرلی گئی۔ اس طرح ہمارا پانچ رکنی وفد 8 اگست 2006ء کو تبت کے دارالحکومت لہاسا پہنچا۔ لہاسا جو تبت کا دارالحکومت ہے، سطح سمندر سے 12000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور تبت میں بدھ مت کا مرکز بھی ہے، جہاں قدیم عمارات، مندر اور عظیم الشان محل واقع ہیں۔ پہاڑوں سے پگھلتی ہوئی برف کا پانی ایک بڑے میدانی علاقے سے گزرتا ہے جہاں سے دریائے برہم پُترا نکلتا ہے۔ چین کو اپنی زمینیں سیراب کرنے کے لئے اس پانی کی ضرورت ہے اور اگر وہ اس کا رُخ تبدیل کر لے تو دریائے برہم پُترا خشک ہوجائے گا، جس طرح ہمارا راوی دریا خشک ہوگیا ہے۔ لہاسا کو بے شمار ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے بے مثال ترقی دی گئی ہے، جو اُفقی اور عمودی دونوں لحاظ سے ترقی یافتہ علاقہ بن چکا ہے۔ ہم نے تین دن تک وہاں قیام کیا اور متعدد مقامات کی سیر کی، جن میں جوکھنگ مندر، پوٹالا پیلس اور نور بلنگا کمپلیکس شامل ہیں۔ جوکھنگ مندر جوکہ بدھ مت کا مرکز کہلاتا ہے، 647 قبل مسیح میں ہانز خاندان نے تعمیر کیا تھا۔ پوٹالا پیلس لہاسا کے مرکز میں واقع ہے، جو مذہبی قائدین کی رہائش گاہ رہا ہے لیکن 1959ء میں دلائی لامہ بھارت منتقل ہوگئے تھے۔ اب اسے قومی عجائب گھر میں تبدیل کردیا گیا ہے، اب وہ ایک معروف سیاحتی مقام بن چکا ہے۔ نوربلنگا ایک مسحورکن جگہ ہے جو خوبصورت پارک اور باغات میں گھری ہوئی ہے۔ تبت کے سطح مرتفع میں تعمیر ہونے والی یہ ریلوے لائن انجینئرنگ کا معجزہ ہے جو تین دہائیوں کے بعد 1984ء میں مکمل ہوا اور یکم جولائی 2006ء کو آمدورفت کے لئے کھولا گیا۔ ہم 8 اگست 2006ء کو وہاں پہنچے، ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس پر سفر کرنے والا ہمارا پہلا وفد تھا۔ ریل کا یہ یادگار سفر چوتھے دن 9 بجے صبح شروع ہوا۔ ریل مکمل طور پر ایئرکنڈیشنڈ، آکسیجن کی لائنوں، ٹیلی ویژن اور ڈائنگ کار کی سہولت سے آراستہ تھی، بالکل اسی طرح جیسا کہ 1960ء کی دہائی میں ہماری تیزگام ہوا کرتی تھی۔ یہ ریلوے لائن انجینئرنگ کا شاہکار ہے، جو 16600 فٹ بلند پہاڑوں اور برفانی چٹانوں میں سرنگیں بنا کر تعمیر کی گئی ہے۔ چند جگہوں پر ریل ایسی وادیوں سے گزرتی ہے جہاں سڑک اور دریا بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں جو دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔ صبح 9 بجے ہمارا سفر شروع ہوا اور مسلسل چڑھائی کا سفر جاری رکھتے ہوئے 16000 فٹ سے زائد بلندی پر ٹرین پہنچی، جہاں 16627 فٹ بلندی پرٹنگولا ریلوے اسٹیشن واقع ہے۔ یہاں تقریباً آدھے گھنٹے کا بریک دیا گیا تاکہ مسافر خون جما دینے والی ہواؤں سے لطف اندوز ہوسکیں۔ جوں ہی رات شروع ہوتی ہے ریل نیچے کی جانب سفر شروع کرتی ہے اور صبح طلوع آفتاب کے وقت 1950 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکی ہوتی ہے، جو 23 گھنٹوں پر مشتمل ہے اور ننگ کے شہر پہنچتی ہے، جو سطح سمندر سے 7000 فٹ بلند ہے اور صوبہ چنگھائی کا دارالحکومت ہے۔ اس کی آبادی تقریباً دس ملین ہے، جس میں پچاس فیصد مسلمان ہیں۔ چین کے دورافتادہ مغربی علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے اسی شہر میں ایک چھاؤنی ہے، جہاں ہزاروں فوجی اور پولیس کی بھاری نفری موجود ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ تازہ پانی کی بہت بڑی جھیل ہے۔ ابھرتے ہوئے سورج کے سائے میں ہم جھیل کے کنارے پہنچے، جہاں ایک خوبصورت ریسٹوران ہے، وہاں ہمارا السلام علیکم کے ساتھ استقبال کیا گیا۔ ہمیں جھیل کی تازہ مچھلی کا تازہ ناشتہ پیش کیا گیا، جو ہمارے دریائے سندھ کی ٹراوٹ مچھلی کی طرح لذیذ تھی۔ ریلوے لائن کے ساتھ بہت قلیل آبادی ہے جو علاقے میں تعمیر و ترقی کے بعد زندگی کے پھلنے پھولنے کی منتظر اور چین کے ہنرمندوں کی ہمت اور ناقابل تسخیر جذبے سے ایسا ممکن ہے۔ اگلے دن ہم ننگ سے بیجنگ پہنچے۔ مہم جوئی اور ناقابل فراموش واقعات پر مشتمل یہ سفر ایک خواب تھا کہ جسے حقیقت مل گئی۔ بلاشبہ پاکستان اور چین کی دوستی بھی ریلوے کے اس عظیم منصوبے کی طرح مضبوط اور مستحکم ہے جسے دُنیا کا آٹھواں عجوبہ اگر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل