نصرت مرزا
پاکستان چین اقتصادی راہداری کیا شروع ہوئی کہ دُنیا بھر کے ممالک میں اقتصادی معاشی راہداریوں کی دوڑ شروع ہوگئی۔ ایشیا کے مستقبل کو طے کرنے کے لئے عالمی سطح پر معاشی طور پر مقابلہ جاری ہے۔ علاقائی طاقتیں پر عزیمت اور بڑے بڑے منصوبہ جات سڑکوں، ریلوے اور پائپ لائنوں کی تعمیر کرکے یا ایک خطے کو دوسرے خطے سے جوڑ رہے ہیں، ایک سے ایک ہیکل اساسی بنایا جارہا ہے، مختلف ممالک کے سرکاری ذرائع سے حاصل شدہ رپورٹ سے اُن ممالک کے ویژن کا جو جائزہ لیا اس کے مطابق ہر ملک نے بڑے ہیکل اساسی کی ترجیحات کو نمایاں کیا ہے۔ اب روس پاکستان معاشی راہداری کی بات بھی پرہی ہے۔
پاکستان نے 2025ء کا جو ویژن بنایا یعنی منزلِ مقصود کا تعین کیا ہے اُس کے سات ستون ہیں اُن کی بنیاد ملک میں تبدیلی، صورتِ حال میں یقینی تعبیر اور نئے مواقع اپنے اندرونی وسائل سے حاصل کرنا، پاکستان کے قدرتی وسائل جن کو تاحال استعمال نہیں کیا گیا ہے کو استعمال میں لا کر پاکستان ایک عظیم قوت بن کر ابھرنے کا تصور پیش کیا گیا ہے جس سے وہ معاشی طاقت بن جائے گا۔ شرط یہ ہے کہ اگر وسائل پیدا کر لئے جائیں، اُن کا درست بندوبست ہو اور اُن کا استعمال ماہرانہ ہو۔ پاکستان کو کامل یقین ہے کہ 2025ء تک اس بصیرت اور اس کے متعلقہ حکمت عملی پاکستان ایک پھلتا پھولتا اور صحیح اور مربوط سوسائٹی کا حامل قوم بن کر ابھرے گی۔ پاکستان دنیا کا آبادی کے لحاظ سے ساتواں بڑا ملک ہے اور اُس کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ کرسکے۔ اس میں تکنالوجی اور علم کی طاقت سے اس پر قابو پانا آسان ہوگیا ہے۔ ویژن 2025ء تکنالوجی اور علم کی طاقت کو بروئے کار لا کر پاکستان اپنے طریقہ کار کو تبدیل، رابطوں کو بہتر، اقدار کی بحالی اور تجارت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ جس میں پاکستان ایشیا کا معاشی شیر بننا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ اچھی حکمرانی، بذریعہ جمہوری حکومتی ادارے اور اُس کو اصلاحات کرکے پرائیویٹ سیکٹر کو جدید طریقوں سے استوار کرکے، پاک چین معاشی راہداری، مواصلاتی نظام کو ترقی، سول سروس میں اصلاحات اور پبلک سیکٹر کو جدید، کرپشن کے خلاف مہم، سوشل مہم جو مراکز، ٹیلنٹ کو اسکالر شپ دے کر اور قومی ترقی کے لئے وقف کرنا، دیہی ترقی کے مراکز، نوجوانوں کو ترقی کے مواقع فراہم کرکے پاکستان کو عظیم طاقت بنانا چاہتے ہیں۔
بنیادی طور پر بھارت کا ویژن اپنی سرحدوں سے ملحق ممالک سے تعلقات کو بڑھانا ہے اور اپنی سرحدوں کو محفوظ کرنا ہے اور اگر باہر کی طرف دیکھتا بھارت کی بات کی جائے تو جنوبی ایشیائی ممالک علاقائی تنظیم تو مردہ ہوچکی ہے۔ اب مودی حکومت نے اس پر کام شروع کردیا ہے کہ پڑوسی ممالک کے گروپوں میں اتحاد اُن کی مرضی کے مطابق اصول پر اور علاقائی معاشی مقاصد کے حصول کے لئے جمع کرنا شروع کرے۔ جہاں تک عالمی عزائم کی بات ہے تو چابہار کی بندرگاہ کو پروان چڑھا کر وہ پاکستان کو نظرانداز کرکے ایران سے یورپ اور سینٹرل ایشیا تک رسائی چاہتا ہے، اس سے بھی آگے بڑھ کر مشرق کی طرف دیکھنے کی پالیسی وضع کرچکا ہے اور وہ آسیان ممالک سے تعلقات استوار کررہا ہے اور اپنے جنوبی علاقہ جو زمین بند ہے وہاں سے برما کے ذریعے تھائی لینڈ تک ایک راستہ بنا کر آسیان ممالک تک پہنچنے کا خواہاں ہے۔
2013ء میں چین نے ایک سڑک اور ایک پٹی (ون بیلٹ ون روڈ) کا تصور پیش کیا جو یوروایشین ممالک کو آپس میں ملاتا ہے۔ بحری بنیادوں پر شاہراہ ریشم بنایا۔ 21 ویں صدی کا بڑا کارنامہ ہے۔ دوسرا زمینی طویل ترین شاہراہ کا بننا، چینی صدر ژی پنگ OBOR خارجہ پالیسی کا بہترن منظر نامہ پیش کرتی ہے۔ اس سے چین کی غیرمعمولی صلاحیت اور اس کے عظیم مقاصد کا مظہر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں سارے راستے بیجنگ کی طرف رواں دواں ہوں گے تاہم OBOR نقشہ تاحال مکمل نہیں ہوا ہے۔ وہ ابھی تک کھلا ہوا ہے۔ اس میں مزید ممالک شامل ہوں گے تو پیچیدگی کے بھی بڑھنے امکانات ہیں۔ یہ نئے اور پرانے منصوبہ جات کو ملاتا ہے اور عالمی ارضی جغرافیہ کے عزائم کو غیریقینی بناتا ہے اور دُنیا کو نرم اور مضبوط ہیکل اساسی کے ذریعے ملانے کی کوشش کرتا ہے اور ساتھ ساتھ دُنیا بھر میں تہذیبی تعلقات کو بھی جوڑتا ہے۔
برسوں تک تنہا رہنے کے بعد ایران اپنے آپ کو مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار کررہا ہے، پابندیوں کے ہٹنے کے بعد اور وہاں غیرملکی سرمایہ کاری کی بنا پر ایران ہر سال دو ہزار کلومیٹر کی ریلوے لائن بچھانے کے منصوبے پر کام کررہا ہے اور پانچ برسوں میں وہ دس ہزار کلومیٹر کی ریلوے ٹریک بنائے گا۔ اُس کی شمالی جنوبی راہداری میں اُس کی مرکزی حیثیت بنانے کا منصوبہ بنائے بیٹھا ہے جو ماسکو سے ممبئی تک راہداری فراہم کرے گا۔ ایران یہ چاہتا ہے کہ وہ راہداری کا محور بن جائے۔ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ مشرق و مغربی ممالک کو جوڑ دے جن میں عراق افغانستان شامل ہیں۔ یہ تجارت اور ٹرانسپورٹ کو سینٹرل ایشیا تک بڑھانے میں ایران نے سینٹرل ایشیائی ممالک کے ایک معاہدہ میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔
مشرق و مغرب کو جوڑنے کی جاپان کا کئی عشروں سے یہ ویژن رہا ہے کہ وہ جنوبی مشرقی ایشیا میں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ جہاں پر جاپان کی سپلائی کا سلسلہ پہلے ہی سے قائم ہے اور خصوصاً سمندر تک اُس کی رسائی پہلے سے موجود ہے۔ جاپان اپنے ان فوائد کے دفاع کے لئے ہرممکن کوشش کررہا ہے اور اس نے اپنے فنڈز کی مقدار کو بڑھایا ہے تاکہ وہ اعلیٰ پیمانے اور اعلیٰ معیار کی اشیا فراہمی کا مستقل قائم رہنے والا ہیکل اساسی جس خطے میں بھی ہے اُسے قائم رکھ سکے۔ اس کے علاوہ آسیان ممالک تک اُس کی رسائی مضبوطی سے قائم رہے۔ اس کا ماسٹر پلان موجود ہے اور اُس کے تحت وہ نئے ممالک اور راہداریوں کو بروئے کار لا کر اپنے خلیج بنگال سے لے کر جنوبی بحر چین تک اپنی تعلق اور راہداری کو قائم رکھے۔ جاپان کے وزیراعظم شنزوابے نے اپنے قدم سفارت کاری کے ذریعے بڑھائے ہیں انہوں نے پانچ مرکزی ممالک کا دورہ کیا ہے اور ایسا کرنے والے وہ پہلے وزیراعظم ہیں۔
روسی بصیرت نرم اور سخت ہیکل اساسی پر مشتمل ہے۔ اس نے مشرقی معاشی اتحاد جسے وہ ایسٹرن اکنامک یونین کہتے ہیں، وہ دراصل اُس کو مشرق سے جوڑنے کا علاقائی گاڑی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہی چینی ایک سڑک اور ایک پٹی سے مل کر کام کرے گی۔ مشرق کی طرف معاشی اور سفارتی طور پر جھکتے ہوئے اُس خطے کو ہی اپنا محور بنا لیا ہے، چین کو روس اپنے تیل اور گیس کی ترسیل کررہا ہے اور کئی پائپ لائنیں تسلسل کے ساتھ تعمیر کررہا ہے۔ جنوبی خطہ میں وہ اپنے تعلقات آذربائیجان، ایران اور انڈیا سے بذریعہ شمالی جنوب ٹرانسپورٹ راہداری نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوری ڈور (این ایس ٹی سی) بڑھا رہا ہے۔ اس کے شمال میں روس مزید انرجی کے منصوبہ جات کی تکمیل میں لگا ہوا ہے اور ساتھ وہ چاہتاہے کہ اُس کی دفاعی مفادات کی وجہ سے شمالی قطبی تک اُس کو رسائی آسان ہوجائے۔ شنید ہے کہ پاکستان سے اقتصاوی راہداری (آر پی ای سی) پر بات چیت ہورہی ہے
ترکی کے ہیکل اساسی کے منصوبہ جات مین باکو، تبلیسی، کارس ریلوے، ہزاروں کلومیٹرز کی نئی سڑکیں اور ریلوے بطور ترکی ویژن 2023ء کے مکمل کرنے میں لگا ہوا ہے۔ 2023ء اُس کے لئے انتہائی اہم ہے کیونکہ اس سال ترکی کی معاہدہ کے مطابق پرانی سلطنت بحال ہونے کا امکان ہے۔ اس طرح وہ اپنے رابطے ایشیا اور یورپ کے ساتھ مضبوط کرنے کا خواہشمند ہے۔ جنوبی ایشیائی اقوام کی ایسوسی ایشن جسے آسیان کہا جاتا ہے اس کی بصیرت کے مطابق ان کے دس ممالک میں بڑی سی بڑی عمارتیں اور ادارے اور عوام کا عوام سے رابطہ کو فروغ دینا۔ اس کا ماسٹر پلان 2025ء آسیان کو باہم شیروشکر کرنے سے متعلق ہے۔ وہ تجویز کرتا ہے کہ وہ نرم اور مضبوط نیا ہیکل اساسی تیار کرے۔ بحری ممالک جسے برونوئی، دارلسلام، انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن اور سنگاپور مل کر آسیان بحری معاشی راہداری سے ملا دیں اور بندرگاہوں کو ترقی دے کر جدید بنا دیں۔ دوسری طرف مرکزی زمین، کمبوڈیا، لاؤس، نیجار، تھائی لینڈ اور ویتنام اپنے بڑی بڑی سڑکیں یا ہائی ویز تعمیر کررہے ہیں جس کو وہ عظیم تر میکونگ ثانوی علاقائی راہداری کہتے ہیں۔ اس طرح ایشیا کے ممالک راہداریوں اور آپس میں ایک دوسرے سے جوڑنے میں لگ گئے ہیں اور ایک سے ایک بڑا منصوبے کا تصور لے کر آگے بڑھ رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ درست ہی ہے کہ یہ صدی ایشیا ہی کی ہے۔