Thursday, May 9, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

دم توڑتی معیشت کیلئے سنبھلنے کے مواقع

پچیس کروڑ سے زائد آبادی اور دُنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت پاکستان اس وقت معاشی بھنور میں پھنسا ہوا ہے، ایٹمی قوت بننے کی سلور جوبلی منا لی گئی۔ 1962ء سے شروع ہونے والا سفر 1998ء میں کامیابی سے اپنی منزل تک پہنچا۔ گزشتہ 25 سال میں دفاعی شعبے میں ہم اس سے بھی دو قدم آگے نکل چکے ہیں مگر اب معاشی میدان پر ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام معاشی شعبے ابتری اور انحاط کا شکار ہیں، پالیسی میں تسلسل نہ ہونا اور اہداف کا مقرر نہ ہونا اس کی بڑی وجوہوات ہیں، سکڑتی معیشت حکمرانوں کے علاوہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے لئے پریشانی کا باعث ہونا چاہئے۔ گزشتہ مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح نمو ہدف 5 فیصد رکھا گیا تھا جو 0.29 فیصد رہا، صنعتی شعبے کا شرح نمو 74 فیصد تھا مگر 2.94 ریصد رہا، خدمات کے شعبے میں شرح نمو 4 فیصد رکھا گیا تھا جو صرف 0.9 فیصد رہا۔ تاہم افراطِ زر اور آبادی بڑھنے کی شرح توقعات و اندازے سے زیادہ رہی، مہنگائی کی شرح 115 فیصد کے بجائے 36 فیصد سے 40 فیصد رہی، آبادی بڑھنے کی شرح 3 فیصد رہی جو الارمنگ ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دُنیا کا 5 واں بڑا ملک بن چکا ہے جبکہ جی ڈی پی کے لحاظ سے 42 ویں نمبر پر ہے۔ رواں مالی سال میں پاکستان کی فی کس آمدنی میں 198 ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ گزشتہ مالی سال میں فی کس آمدن 1766 ڈالر سالانہ تھی جو کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ گئی ہے۔ مالی سال 2023ء میں معیشت کا حجم 375 ارب ڈالر تھا جس میں 33.4 ارب کی کمی ہوئی۔ اس طرح اب ملکی معیشت 341.6 ارب ڈالر پر آگئی ہے۔ عالمی حالات کے اثرات بھی ہیں مگر گڈگورننس اور فیصلوں میں تاخیر، پالیسیوں میں تسلسل کا نہ ہونا اس کی بڑی وجوہات ہیں۔ اطراف کے ملکوں کو دیکھ لیں تو بنگالہ دیش کی شرح نمو گزشتہ سال 7 فیصد تھی جو 5.3 فصد پر آگئی۔ بھارت میں گزشتہ سال کی نسبت شرح نمو میں اضافہ ہوا ہے۔ اتنی بڑی آبادی والے ملک میں پالیسیوں کا تسلسل ہے، جن کے ثمرات واضح ہیں جبکہ آبادی میں دوسرے نمبر پر آنے والا بھارت جی ڈی پی میں پانچویں نمبر پر ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک چین کی جی ڈی پی میں شرح نمو دوسرے نمبر پر ہے جبکہ آبادی میں تیسرا بڑا ملک امریکا کی جی ڈی پی دوسرے نمبر پر ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دُنیا کا چھٹا بڑا ملک برازیل جی ڈی پی میں دسویں پوزیشن پر ہے۔ انڈونیشیا جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے ایک درجہ اوپر یعنی چوتھے نمبر پر ہے۔ اس کی جی ڈی پی کی پوزیشن سولہویں ہے۔ اس گھمبیر معاشی بحران میں چین، سعودی عرب اور عرب امارات کی جانب سے سرمایہ کاری اہم پیش رفت ہے، صرف اس کو ایک میکنزم کے تحت مربوط کرنا ہے، ملک میں غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں تقریباً 80 لاکھ سے ایک کروڑ افراد کا اضافہ ہوا ہے، جس کے سدباب کے لئے حکومت کو ہنگامی اقدامات کے ساتھ ریلیف پیکیج کا اعلان کرنا ہوگا۔ روس سے سستے تیل کی خریداری شروع ہوجاتی ہے تو اس سے مہنگائی کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی، ساتھ ہی روس اپنے تیل کو ریفائن کرنے کے منصوبے کے لئے سرمایہ کاری بھی کرے گا۔ اس سے یقیناً ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوسکتا ہے یا اگر روس تیل کے بدلے بارٹر سسٹم کے تحت اپنی سرمایہ کاری کرے تو یہ بھی پاکستان کے لئے بہتر ہے، کیونکہ ہمیں تیل کی مد میں ادائیگی نہیں کرنا پڑے گی۔ غرض کہ حکمران عقل و شعور اور وژن سے کام لیں تو معیشت ٹھیک کرنے کے بہت سے راستے نکل سکتے ہیں۔ اشرافیہ کو اپنے اللے تللے کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ اس وقت معاشی لحاظ سے قیامِ پاکستان جیسی صورتِ حال کا سامنا ہے، ملک چلانے کے لئے وسائل نہیں ہیں، ہر ادارے کے ذمہ دار کو اپنے طور پر بھی کچھ انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے، خوش قسمتی سے ہمارے تقریباً 80 لاکھ اوورسیز پاکستانی موجود ہیں جو ملکی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہیں، ان کے سرمائے کو محفوظ اور کارآمد بنانے سے اکنامک ایشین ٹائیگر کا خواب عملی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ اگر ابھی اس ہدف کا تعین کرکے کام شروع کیا جائے تو آئندہ 10 سال میں پاکستان طاقتور معاشی ملک بن سکتا ہے۔ زرعی شعبے میں شرح نمو کا ہدف 3.9 فیصد رکھا گیا تھا جو گندم کی بمپر پیداوار کے باوجود 1.6 فیصد تک رہا۔ یعنی ایک سال میں جتنا آبادی میں اضافی ہوا اس کا صرف نصف زرعی پیداوار بڑھی، سیلاب سے کپاس کی فصل کو 205 ارب، چاول کی فصل کو 50 ارب، کھجور کی فصل کو تقریباً سات ارب اور دیگر اجناس سمیت 297 ارب روپے کا نقصان پہنچا، جس سے مقررہ اہداف کا حصول نہ ہوسکا، صرف 10 بلین ڈالر کا ریزرو معیشت کے ذمہ داروں کی نااہلی عیاں کررہا ہے، کل جی ڈی پی کا صرف 10 فیصد ٹیکس کا حصول ایف بی آر جیسے طاقتور ادارے اور اس کے کرتادھرتاؤں کے سخت احتساب کی ٹھوس وجہ بنتا ہے کہ بھاری تنخواہیں اور شاہانہ مراعات لینے والے ادارے کے ذمہ دار ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنے میں کیوں ناکام رہے، پانچ ارب ڈالر کی پرچوں معیشت کا ایف بی آر کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملکی بینکوں میں 85 ملین اکاؤنٹ ہولڈرز ہیں لیکن ایف بی آر کے ریکارڈ میں صرف 2 ملین فائلر ہیں، 30 لاکھ سے زائد دکاندار جو روزانہ تقریباً 200 کھرب کا ماہانہ کاروبار کرتے ہیں وہ ٹیکس ادا نہیں کرتے، کچی پرچیوں اور کیش میمو پر روزانہ کروڑوں اور لاکھوں روپے کی سیل اور خریداری کرتے ہیں۔ افغانستان سے براستہ چمن، طورخم بارڈر اور میران شاہ کی غلام خان اور وانا سے متصل انگوراڈہ کی چیک پوسٹس سے یومیہ اربوں کی غیرقانی تجارت ہوتی ہے جسے سرکاری نیٹ ورک میں لے آیا جائے تو یومیہ کروڑوں کا ٹیکس مل سکتا ہے لیکن تمام سرکاری اسٹیک ہولڈرز کے لئے یہ ذاتی آمدنی بڑھانے کا ذریعہ ہیں تو انہیں ملکی خزانے کے لئے کیوں وقف کیا جائے۔ تباہ حال ملکی معیشت کے شاہانہ انداز کے لئے ایک مثال کافی ہے کہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زائد سرکاری گاڑیاں ہیں جن کو افسر شاہی کو متحرک رکھنے کے لئے یومیہ تقریباً 9 ملین لیٹر پیٹرول صرف ہوتا ہے جبکہ دُنیا کی تیسری بڑی معیشت برطانیہ کے سرکاری بیڑے میں صرف 45 گاڑیاں ہیں۔ حکومت نے گزشتہ دنوں کفایت شعاری کا بہت ذکر کیا، بڑے فیصلے کئے مگر ان پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ بجلی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مہنگے درآمد کئے گئے تیل کو ضائع کیا جارہا ہے، فیصلہ تو یہ ہوا تھا کہ بازار، شاپنگ سینٹرز اور دکانیں رات آٹھ بجے بند کردی جائیں گی مگر بوجوہ اس پر عمل نہیں ہوسکا، ہماری 80 فیصد مارکیٹیں دوپہر میں کھلتی ہیں اور تقریباً رات گیارہ بجے تک بند ہوتی ہیں جبکہ موبائل فونز، سوئٹس شاپس اور بڑی شاہراہوں پر بنے ہوٹلز رات گئے تک کھلے رہتے ہیں، ان کے دیر تک کھلے رہنے سے بجلی کا لوڈ 70 فیصد بڑھ جاتا ہے۔ سرکاری اداروں میں 20 فیصد افرادی قوت کے گھر سے کام کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا گیا تھا کہ 56 ارب روپے کی بچت ہونا تھی۔ سرکاری دفاتر میں ایئرکنڈیشنز کے استعمال کو کم سے کم کرنے کا کہا گیا تھا لیکن عمل درآمد نہ ہوا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بجلی کی کُل کھپت کا 70 فیصد صنعت و زراعت کے بجائے کمرشل استعمال ہورہا ہے۔ حکومتی فیصلوں پر عمل درآمد سے 8 سے 9 ہزار میگاواٹ بجلی کی بچت کی جاسکتی تھی جس سے تیل کے درآمدی بل میں خاطرخواہ کمی ہوتی۔ اس طرح زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم ہوتا مگر شاہانہ اخراجات و انداز کی عادی اشرافیہ یہ کیسے کرے۔ ان تمام خرابیوں کے باوجود معیشت سنبھلنے اور پھلنے پھولنے کے امکانات ہیں۔ سب سے بڑھ کر سی پیک، اوورسیز پاکستانیز کا بھیجا جانے والا زرمبادلہ، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ، روس سے تیل خریداری، سعودی عرب کا روڈ ٹو مکہ مکرمہ پروجیکٹ اور گوادر سے کاشغر ریلوے ٹریک جیسے منصوبے ایسے ہیں جو پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایران سے ملنے والی گیس قطر سے لی جانے والی گیس سے سستی ہے۔ یہ منصوبہ گزشتہ 13 سال سے التوا کا شکار ہے۔ 2013ء سے 2022ء تک اگر قطر سے گیس نہ لی جاتی تو سالانہ 3.3 بلین ڈالر کا اضافی بوجھ پڑا کیونکہ امریکی ڈراوے کے باعث پاکستان ایران گیس پائپ لائن سے گیس لینے سے اجتناب کرتا رہا، اسی طرح 58 بلین ڈالر کا گوادر ٹو کاشغر ریلوے ٹریک پاکستانی معیشت کی ڈوبتی نبض کے لئے آکسیجن بنا سکتا ہے کیونکہ اس طویل منصوبے کے آغاز سے چینی سرمایہ کاری فوری آ رہی ہے، بس ہمیں تندہی اور تسلسل سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کا بھیجا جانے والا زرمبادلہ ہمارے سالانہ خسارے کو پورا کرنے کا بڑا سہارا ہوتا ہے، اس سرمائے کو رئیل اسٹیٹ کے ڈیڈ پروجیکٹس پر لگوانے کے بجائے ہمیں پیداواری منصوبوں میں لگانا ہوگا۔ موبائل فونز کی صنعت میں اس سرمائے کو لگانے سے مقامی طور پر روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ ساتھ ہی موبائل فونز کی درآمد پر خرچ کیا جانے والا قیمتی زرمبادلہ بھی بچے گا۔ اگر روس سے ملکی ضروریات کا 50 فیصد تیل درآمد کیا جانے لگے تو پیٹرولیم مصنوعات کا درآمدی بل نصف کم ہوسکتا ہے۔ ساتھ ہی ایران سے اسمگل ہونے والی پیٹرولیم مصنوعات جو ملکی ضروریات کا تقریباً 20 سے 25 فیصد ہے اُسے ریگولیٹ کرکے 50 فیصد پر لے آیا جائے تو زرمبادلہ کے ذخائر بہت تیزی سے بڑھ سکتے ہیں۔ کیونکہ ایرانی تیل کی ادائیگی مقامی کرنسی میں ہوگی، مواقع بہت ہیں صرف حکومت میں درست فیصلے کرنے کی اہلیت ہونا چاہئے، روڈ ٹو مکہ منصوبہ سے بڑی مقدار میں سعودی سرمایہ کاری کرنے کے امکانات ہیں جو ایسے حالات میں جب ہم آئی ایم ایف کے پیکیج کے حصول کے لئے ان کی جائز و ناجائز تمام شرائط مان رہے ہیں، پھر بھی محروم ہیں تو سعودی سرمایہ کاری ہماری مددگار ہوسکتی ہے۔

مطلقہ خبریں