افسانہ
محمد عارف قریشی
بس رُکی تو سڑک کنارے اُس کے انتظار میں کھڑی سواریوں کا ایک ہجوم اُس پر ٹوٹ پڑا۔ مَیں اکیلا بیٹھا دُعا مانگ رہا تھا کہ ”اللہ کرے، کوئی ایسا شخص میرے برابر بیٹھے، جس کے ساتھ سفر خوش گوار گزر سکے۔“ لیکن میری دُعا قبول نہ ہوئی اور روایتی وضع قطع لئے قبائلی علاقے کے ایک خان صاحب میرے ساتھ آن براجمان ہوئے۔ سر پر بڑی سی پگڑی، میلی سی گھیردار شلوار، گھٹنوں تک لمبا قمیص نما کُرتا اور اس پر واسکٹ، جو شاید کئی نسلوں سے ان کی وَراثت چلی آرہی تھی۔
وہ میرے ساتھ جُڑ کر بیٹھ گئے اور پھر اپنے کُرتے کی جیب سے نسوار کی بڑی سی ڈبیا نکال کر میری طرف بڑھاتے ہوئے بولے۔ ”بابو صیب! نسوار کاعئے گا۔“ (بابو صاحب! نسوار کھاؤ گے)۔ مَیں نے کوئی جواب دینے کی بجائے کھڑکی کی طرف اپنا منہ پھیر لیا۔ اُس نے میری اس حرکت کا کوئی نوٹس نہ لیا اور اپنے داہنے ہاتھ کی انگلی سے خاصی مقدار میں نسوار نکال کر اپنے نچلے ہونٹ تلے دبا لی۔
مَیں نے مُڑ کر بس کا جائزہ لیا کہ کہیں کوئی سیٹ خالی ہو، تو اُٹھ کر وہاں چلا جاؤں، لیکن وہاں تو کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہیں تھی، تو سِیٹ کیا خالی ہوتی۔ ناچار مَیں نے دوبارہ اپنا منہ کھڑکی کی طرف کرلیا اور اپنے آپ میں کچھ اور سمٹ گیا۔ اسمگلر، خرکار، ظالم جیسے جتنے ”القابات“ میں نے ان قبائلیوں سے متعلق سُن رکھے تھے، یاد آنے لگے۔ مَیں نے حقارت سے اُس کی طرف دیکھا، وہ بڑے مزے سے اگلی سیٹ کی پشت پر ماتھا ٹیکے سو رہا تھا۔ میری اس سے حقارت دوچند ہوگئی۔
اچانک ایک جھٹکا سا لگا اور بس یوں رُکی کہ تمام سواریاں اُچھل کر ایک دوسرے پر جا گریں۔ اُسی لمحے دو آدمی بس میں چڑھے، ایک کے ہاتھ میں بندوق اور دوسرے کے پاس ریوالور تھا۔ پہلا خیال یہی آیا کہ بس پر ڈاکا پڑ گیا ہے۔ تمام مسافر دَم بخود اور خوف زدہ سے تھے۔ باہر سے آنے والوں نے ایک نظر بس میں گھمائی اور دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔ ”کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلے، ہم کسی کو کچھ نہیں کہیں گے، بس اپنا کام کرکے بس کو روانہ کردیں گے۔“ اسی دوران اُن میں سے ایک آدمی آگے بڑھا اور ہم سے اگلی سیٹ پر بیٹھی ایک نوجوان لڑکی کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ ”چپ چاپ ہمارے ساتھ چلو۔“ پھر لڑکی کے ساتھ بیٹھی بوڑھی عورت سے مخاطب ہوا۔ ”بڑھیا! ہم ٹیڑھی انگلی سے بھی گھی نکالنا جانتے ہیں۔ تمہیں کہا تھا ناں کہ شرافت سے اپنی بیٹی ہمارے حوالے کر دو، لیکن تم نے ہماری بات نہیں مانی۔“ اور یہ کہہ کر لڑکی کو بازو سے پکڑ کر گیٹ کی طرف گھسیٹنا شروع کردیا۔ لڑکی نے چیخ و پکار شروع کردی اور بڑھیا اُن کی منّت سماجت کرنے لگی۔ ”خدا کے لئے یہ ظلم نہ کرو۔“ وہ ہاتھ جوڑے کہہ رہی تھی۔ ”کیوں مجھ غریب کی عزّت خراب کرتے ہو۔ مَیں تو گاؤں ہی چھوڑ کر جا رہی ہوں کہ نہ یہ بدبخت تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوگی اور نہ…!“ بڑھیا کی آواز بھرّا گئی۔ اُس نے بڑی حسرت سے بس میں بیٹھی سواریوں کی طرف دیکھا، اس اُمید پر کہ شاید کوئی اس زیادتی کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو، لیکن کسی نے اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کی، مجھ سمیت سب نے نظریں جھکا لیں اور کرتے بھی کیا، جان بوجھ کر موت کے منہ میں کون جاتا ہے۔
سب جانتے تھے کہ جو کوئی مزاحمت کرے گا، غنڈے اُسے گولی مار دیں گے۔ ”او خو ٹیرو!“ (او ٹھہرو!) اچانک ایک دہاڑتی ہوئی آواز آئی۔ ”توم، امارے سامنے یہ بدماشی نہیں کرسکتا۔“ (تم، میرے سامنے یہ بدمعاشی نہیں کرسکتے) مَیں نے دائیں طرف دیکھا، میرے ساتھ بیٹھا قبائلی اُٹھ کھڑا ہوا اور دونوں غنڈوں کو للکارنے لگا۔ ”بی بی کو چوڑ دو“ (بی بی کو چھوڑ دو) پچاس، ساٹھ افراد سے بھری بس میں تنہا ایک آدمی کا اُن کے مقابلے میں کھڑا ہونا، اُن بدمعاشوں کے لئے باعثِ حیرت تھا۔ ”خان صاحب…!“ اُن میں سے ایک نے کہا۔ ”تم بیٹھ جاؤ، یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے۔ تم اس میں دخل مَت دو۔“ ”ام دخل مخل نہیں جانتا“ خان نے اُسی لمحے کڑک دار لہجے میں کہا۔ ”اَم بولتا ہے، بی بی کا بازو چوڑ دو۔“ اس سے پہلے کہ وہ غنڈے، خان کا جواب سن کر اس کے خلاف کوئی اقدام کرتے، خان نے آگے بڑھ کر لڑکی کو گھسیٹنے والے بدمعاش کا وہ بازو پکڑ لیا، جس سے اُس نے پستول تان رکھا تھا۔ اتنے میں پیچھے کھڑے دوسرے بدمعاش نے بندوق کا بٹ خان کے سر پر دے مارا۔ ضرب خاصی شدید تھی۔
ایک دفعہ تو خان چکرا گیا، لیکن اگلے ہی لمحے اس نے سنبھل کر دوسرے ہاتھ سے بندوق پکڑ لی۔ اب ہر دیکھنے والا اس انتظار میں تھا کہ بندوق یا ریوالور سے اچانک گولی چلے گی اور خان فرش پر ڈھیر ہوجائے گیا۔ مَیں نے اتنا خوف ناک منظر اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ دو درندے، ایک انسان سے نبردآزما تھے۔ دونوں ایڑی چوٹی کے زور سے اپنے ہتھیار چھڑانے کی کوشش کررہے تھے، لیکن خان کی گرفت اتنی آہنی تھی کہ انہیں کسی صورت بھی کامیابی نہیں ہورہی تھی۔
چند منٹوں کی خوف ناک کشمکش کے بعد لڑکی کے بازو پر غنڈے کی گرفت کمزور پڑ گئی۔ اُس نے فوراً اپنا بازو چھڑایا اور بجلی کی تیزی سے اپنی ماں کے سینے سے جا لگی۔ اس دوران خان نے غنڈے سے ریوالور چھین کر، رُخ اُس کی طرف کرتے ہوئے کہا۔ ”خنزیر کا بچّہ! غریب کی عزت خراب کرتا ہے، ام تمیں زندہ نئیں چوڑے گا۔“ (خنزیر کے بچّے! غریب کی عزّت خراب کرتے ہو، مَیں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔) دونوں غنڈوں نے بمشکل خان کی گرفت سے خود کو چھڑوایا اور تیزی سے بس سے کُود گئے۔
پوری بس میں کھسر پھسر شروع ہوگئی۔ سب لوگ خان کی تعریف کررہے تھے اور لڑکی، ماں سے لپٹی سِسکیاں لے رہی تھی۔ اُس کی ماں، خان کو تشکّر آمیز نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ وہ شخص، جسے مَیں تھوڑی دیر پہلے بہت بے رحم اور سنگ دل سمجھ رہا تھا، اب میری نظروں میں سب سے بڑا بہادر، غیرت مند اور محترم ہو چکا تھا۔ میرے دل سے یک دَم ہی اُس کی نفرت کا غبار چَھٹا اور اُس کی جگہ عظمت کے ایک ایسے مینار نے لے لی، جو آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔
”تو آپ کے بارے میں سنا تھا کہ یہاں کوئی اولڈ ہوم ہے آپ وہاں بھی جاتے ہیں؟ میں نے سوال کیا۔ ”ہاں، قریب ہی ایک بنگلہ ہے، وہاں چند معمر افراد جمع ہوگئے ہیں۔ تقریباً سب کی یہی کہانی ہے۔ وہاں چلا جاتا ہوں اور گپیں ہانکتے ہیں۔ چائے پیتے ہیں۔ دل تو چاہتا ہے کہ وہیں رہوں مگر حمیدہ کی وجہ سے واپس آنا پڑتا ہے۔“ جاوید صاحب بولے۔
”تو کیا کبھی آپ نے بچوں سے کہا نہیں کہ ہم تنہا ہوگئے ہیں، واپس آجاؤ؟“
”ہاں کئی مرتبہ کہا تو ہے مگر وہ بھی مجبور ہیں، یہاں کہاں ملازمت ہے۔ بیگمات اور