Thursday, May 9, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

خوشبو کی شاعرہ۔۔ پروین شاکر

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بُھلا ہی دیں گے لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے

رانا اعجاز حسینین محبت کی خوشبو کو شعروں میں سمو کر بیان کرنے والی منفرد لہجے کی شاعرہ پروین شاکر کو ہم سے بچھڑے 29 برس بیت گئے لیکن ان کے الفاظ آج بھی ہزاروں دلوں میں اپنے زندہ ہونے کا احساس دلا رہےہیں، اور اس عظیم شاعرہ کے ہمارے درمیان موجود ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئیں، ان کے والد سید ثاقب حسین بھی ایک شاعر تھے۔ انہوں نے انگلش لٹریچر اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر کو ایم بی اے کی ڈگری امریکا کی ہاورڈ یونیورسٹی سے حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ پروین شاکر 9 سال تک استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔ 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ میں بحیثیت سیکریٹری خدمات سرانجام دیں۔ جبکہ امریکا کی ایک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے مکمل کیا گیا مقالہ، زندگی کے ساتھ نہ دینے کے سبب پیش کرنے سے قاصر رہیں۔ آپ کو اردو کے منفرد لب و لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت قلیل سی متاع حیات میں وہ کارنامے سرانجام دیئے، جن کی بدولت آپ کو پرائیڈ آف پرفارمنس اور آدم جی کے ایوارڈز کے ساتھ ساتھ ”خوشبو کی شاعرہ“ کے خطابات و القابات سے نوازا گیا۔ پی ٹی وی کے پروگرامز میں بہترین میزبان کی حیثیت سے بھی جلوہ گر ہوئیں۔ وہ اپنی اولین کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی ادبی رسالوں کے ذریعے ہزاروں دلوں کو اپنا مداح بنا چکی تھیں، جبکہ 1976ء میں محض 24 برس کی عمر میں پروین شاکر کی پہلی کتاب ”خوشبو“ شائع ہونے پر اس کتاب کو بے حد پذیرائی ملی، اور پروین شاکر کے فکرو فن کی خوشبو چار سو پھیل گئی۔ خوشبو کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ پہلی اشاعت کے چھ ماہ بعد ہی اس کا دوسرا ایڈیشن چھاپنا پڑا۔ اور کتاب نے تحفوں کی شکل اختیار کرنا شروع کردی، اس کتاب نے پروین شاکر کے ادبی کیریئر میں نئی روح پھونک دی۔ پروین شاکر نے کچی عمر اور نسل نو کے جذبات کی ترجمانی سے الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کر سادہ الفاظ میں نسائی انا، خواہش اور انکار کو شعر کا روپ دیا، گہری شاعری کے اسلوب بیاں نے پروین شاکر کو جلد ہی شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ پروین شاکر کی ذاتی زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو ان کی ذاتی زندگی کا دکھ ازدواجی زندگی کے اختتام پر منتج ہوا۔ انہوں نے کراچی کے ڈاکٹر نصیر علی سے شادی کی جس سے ایک بیٹا مراد علی پیدا ہوا، بعدازاں ڈاکٹر نصیر سے طلاق لے کر ازدواجی زندگی کو خیرآباد کہہ دیا۔ پروین شاکر کی شاعری کے موضوعات میں جہاں محبت،عورت اور اقدار کا گراں قدر احساس موجود ہے، وہاں ان کی شاعری میں دکھ اور حزن کی کیفیت بھی ابھر کر سامنے آئی ؎
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
پروین شاکر کا شمار ان چند ایک خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے خود کو منوایا۔ انہوں نے عورت کے مشرقی احساس، کٹھن، دکھ اور ملال کی جو منظرکشی کی ان سے پہلے کسی شاعرہ نے نسوانی جذبات کو اتنی نزاکت سے بیان نہیں کیا۔ ماں کے جذبات، شوہر سے ناچاقی اور علیحدگی، ورکنگ وومن کے مسائل، ان سبھی کو انہوں نے بہت خوبصورتی سے قلمبند کیا ہے۔ جبکہ ان کی شاعری میں روایت سے انکار اور بغاوت بھی نظر آتی ہے۔ پروین شاکر کی پوری شاعری ان کے اپنے جذبات اور درد کائنات کے احساسات کا اظہار ہے، ان کی شاعری میں قوس قزح کے ساتوں رنگ نظر آتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہیں دور جدید کی شاعرات میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان کے شعری مجموعے 1976ء میں خوشبو، 1980ء میں صد برگ، 1990ء میں خود کلامی، 1990ء میں ہی انکار، اور 1994ء میں ماہ تمام شائع ہوئے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نویسی بھی کی۔ ابھی فن وادب کے متوالے پوری طرح سیراب بھی نہ ہوپائے تھے کہ خوشبو بکھیرتی پروین شاکر 26 دسمبر 1994ء پیر کے دن اسلام آباد اپنے آفس جاتے ہوئے ٹریفک حادثے میں 42 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔ آپ نے اپنی شاعری میں کہا تھا کہ ؎
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی نظمو ں اور غزلوں کے الفاظ آج بھی نوجوان نسل اور شاعری کے دلدادہ لوگوں کی زبانوں پر اور دلوں میں زندہ ہونے کا احساس دلا رہے ہیں۔ وہ جس لہجے میں بات کرتیں اچھی لگتی۔ پروین شاکر کی نظمیں بھی اسی معیار کی ہیں جو گہرے تخلیقی تاثر میں ڈوبی ہوئی ہیں اور ان کی عظمت کے اثبات کے لئے کافی ہیں۔ انہوں نے غزلیں تو ایسی عمدہ کہی کہ زبان زد خاص و عام ہوگئی مثلاً غزل کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں ؎
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی

تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پر گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی

اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہے عجب خواہشیں انگڑائی کی

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل