زلیخا اویس
عورتوں کی تعلیم نہ صرف خاندان کی فلاح و بہبود بلکہ اگلی سطح پر پورے معاشرے کی ترقی اور فلاح و بہبود کی ضامن ہے
عورت ہر معاشرے کا اتنا ہی اہم حصہ ہے جتنا کہ مرد۔ تب ہی ترقی یافتہ سے لے کر ترقی پذیر معاشروں تک عورتوں کو اپنے جائز مقام اور مردوں کے مساوی حقوق کے لئے جدوجہد کرنا پڑرہی ہے۔ مشرق ہو یا مغرب، خواتین کا مقام وہاں کی معاشرتی اقدار اور روایات کے مطابق ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ دور میں دونوں ہی طرح کے معاشروں میں خواتین کے روایتی کردار میں تبدیلی آئی ہے۔ خواتین اب اپنی روایتی ذمہ داریاں پورا کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کا بڑھتا رجحان ہے۔ عورتوں کی تعلیم کی اہمیت کا شعور اب دنیا کے ان قدامت پسند معاشروں میں بھی اجاگر ہونے لگا ہے جہاں والدین لڑکی کی پیدائش سے ہی زر اور زیور جمع کرنے کی فکر میں گھلنا شروع ہوجاتے تھے کیونکہ انہیں اپنی بیٹی کو بیاہنے کا بندوبست کرنا اپنا اولین فریضہ لگتا تھا۔ عورت معاشرے کا اہم جز ہے جسے ہر روپ میں اسلام نے اعلیٰ مقام و مرتبہ دیا ہے۔ اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے عورتوں کو حقوق دیئے اور ان حقوق میں ایک حق تعلیم کا بھی ہے۔
تعلیم کے حصول کے لئے خواتین کو یکساں مواقع کی فراہم ہونے چاہئیں۔ تعلیم یافتہ خواتین قومی ترقی کے فروغ میں اہم کردار کی حامل ہیں۔ یہ امر ضروری ہے کہ خواتین تعلیم حاصل کریں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ قومی ترقی کی رفتار تیز ہو۔ صنفی امتیاز کے خاتمے اور یکساں حقوق کی فراہمی سے ہی پسماندگی کا خاتمہ ممکن ہے، ملک کی نصف سے زائد آبادی کو ترقی کے دھارے سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔ قومی ترقی کے مقاصد کے حصول کے لئے مردوں کے ساتھ خواتین کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ خواتین کی شرکت سے نہ صرف ملک کی افرادی قوت دوگنا ہوگی بلکہ پُرعزم اساتذہ، بیورو کریٹس، سائنسدانوں، انجینئرز اور مختلف شعبوں کے ماہرین کی بڑی تعداد میں دستیابی بھی یقینی ہوگی۔ حضور پاکﷺ کا فرمان ہے: ’’علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر لازم ہے‘‘۔ پاکستان کا آئین بھی کسی صنفی امتیاز کے بغیر تعلیم کے یکساں مواقع کی ضمانت دیتا ہے تاہم ملک میں بعض مقامی روایات کی بنا پر کچھ لوگ خواتین کو تعلیم کی فراہمی سے ہچکچاتے ہیں مگر پاکستان میں اب بھی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں نصف کلومیٹر سے زائد کے فاصلے پر اسکول موجود ہونے کے باوجود بھی لڑکیوں کے داخلے میں کمی واقع ہورہی ہے۔ بعض والدین ملک میں امن و امان کی خراب صورتِ حال سے خوفزدہ ہیں اور وہ اپنی بچیوں کی تعلیم یہ سوچ کر روک لیتے ہیں کہ یہ اتنی اہم نہیں کہ اس کے لئے خطرہ مول لیا جائے۔ بعض یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر ہر لڑکی نے پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تو پھر کیا ہوگا جبکہ بعض اپنی بچیوں کی تعلیم استطاعت نہ رکھنے کے باعث منقطع کروا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی اور معاشی عوامل دونوں ہی کارفرما نظر آتے ہیں۔ خاندانی رسوم و رواج، عورتوں کے تحفظ کے بارے میں مخصوص اندازِ فکر، کم عمری کی شادیاں، معاشی کمزور حالات، پڑھی لکھی خواتین کی بیروزگاری، لڑکیوں کے لئے اسکول کا دور ہونا یا الگ اسکول نہ ہونا، بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر نہ سمجھنا اور بیٹی کو پرائی امانت سمجھتے ہوئے اس کے تعلیمی اخراجات کو بے فائدہ سمجھنا جیسی وجوہات عام نظر آتی ہیں۔ ملک کی نصف سے زائد آبادی کو تعلیم سے محروم کرنا سماجی لحاظ سے کسی بھی طور پر قابل جواز نہیں ہے اور یہ آئین کی روح کے بھی منافی ہے۔ خواتین کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے اور بااختیار بنا کر ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے معاشرہ میں متضاد خیالات موجود ہیں اور اس قسم کے کئی منفی تصورات جہالت کی بنا پر پائے جاتے ہیں۔ بعض ایسے بھی رواج پائے جاتے ہیں کہ لڑکیوں کو ایک خاص عمر تک پہنچنے پر اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر اپنا گھر بسانا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بچیوں کی اعلیٰ تعلیم خاص طور پر تکنیکی میدان میں تعلیم کے دوران استعمال ہونے والے بے شمار وسائل ضائع ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کی سوچ صحیح نہیں ہے۔ اگر حضرت خدیجہؓ کئی ممالک پر محیط کاروباری سرگرمیاں مستعدی سے انجام دے سکتی ہیں اور اگر حضرت عائشہؓ حدیث کا بہت بڑا ذخیرہ مرتب کرنے کی استعداد رکھتی تھیں تو پھر ہماری بیٹیاں بھی اپنی گھریلو زندگی اور کاروبار چلانے میں توازن پیدا کر کے ان کے نقش قدم پر چل سکتی ہیں۔ اہلِ دانش نے ایک مرد کی تعلیم کو ایک فرد کی تعلیم جبکہ ایک عورت کی تعلیم کو پورے خاندان کی تعلیم قرار دیا ہے جو اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ عورتوں کی تعلیم نہ صرف خاندان کی فلاح و بہبود بلکہ اگلی سطح پر پورے معاشرے کی ترقی اور فلاح و بہبود کی ضامن ہے۔ تمام الہامی مذاہب اور ترقی پسند معاشروں نے عورتوں کی تعلیم و تربیت کے حق اور ضرورت و اہمیت کو معاشرتی ترقی کا لازمی جزو قرار دیا ہے۔ پاکستان اپنے قیام سے ہی مختلف مسائل کا سامنا کررہا ہے، جس کا نتیجہ ملک کی سماجی و معاشی ترقی میں مستقل نااہلی کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ اگر ہم گہرائی میں جاکر اصل مسائل کا تفصیلی جائزہ لیں تو صرف ایک ہی نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہماری آبادی کی اکثریت ناخواندہ ہے۔ پاکستان نائیجیریا کے بعد دوسرا ملک ہے جہاں اسکول تک رسائی نہ رکھنے والے بچوں کی تعداد ڈھائی کروڑ ہے جبکہ 7 سے 15 سال کی 62 فیصد لڑکیوں نے کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی۔
قائداعظم نے کہا تھا: ’’دنیا میں دو طاقتیں ہیں، ایک تلوار ہے اور دوسرا قلم ہے۔ ان دونوں کے درمیان شدید مسابقت اور رقابت ہے۔ ان دونوں سے زیادہ طاقتور ایک اور قوت بھی ہے اور وہ خواتین ہیں۔‘‘ لڑکیوں کو تعلیم کی فراہمی بلامقابلہ ڈھالنے والی طاقت ہے۔ لڑکیوں کو علم کی فراہمی کے علاوہ یہ لڑکیوں میں اپنی مکمل مہارت کا احساس دلاتی ہے اور اعتماد کے ساتھ بااختیار بناتی ہے تاکہ انہیں اپنے خوابوں کی تعبیر پانے میں مدد ملے۔ خواتین کو تعلیم کی فراہمی سے غربت میں کمی، صحت مند رہنے کے لئے بنیادی سہولیات سے آگاہی، ملازمتوں کے بڑھتے ہوئے مواقع اور معاشی خوشحالی میں زیادہ مدد ملتی ہے۔ حقیقت میں خواتین کا بااختیار ہونا معاشی طور پر مضبوط ممالک کی بنیاد ہے۔ جب زیادہ خواتین کام کرتی ہیں تو افرادی قوت بڑھنے سے معیشت ترقی کرتی ہے اور اسی طرح کھپت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
ہمیں عورت کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے ساتھ لوگوں کے سوچنے کے انداز کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، جو لڑکیوں کو اپنے بہتر مستقبل کے لئے پڑھائی جاری رکھنے کا اچھا موقع فراہم کرے، کیونکہ پاکستان میں خواتین کو صنفی تفریق اور صنفی عدم مساوات جیسے شدید مسائل اور عصبیت کا سامنا ہے۔ خاص طور پر خواتین جسمانی، ذہنی، نفسیاتی، مالی، ثقافتی، جنسی اور جذباتی تشدد کا شکار ہیں۔ ایسے تمام معاشرے جہاں دیگر حقوق میں لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے وہاں لڑکیوں کو تعلیم کے حق میں بھی شدید صنفی تفریق کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور نتیجتاً وہاں معاشرتی ترقی کی رفتار مایوس کن ہے۔ تعلیم ہی وہ بنیادی اور موثر ترین ہتھیار ہے جس کی مدد سے نہ صرف ہمہ قسم صنفی تفریق، صنفی تشدد اور عدم مساوات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے بلکہ مستقبل میں ان مسائل سے مستقل چھٹکارا بھی پایا جاسکتا ہے۔
پاکستانی معاشرہ ایک پدر سری معاشرہ ہے جہاں لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے اور اسی وجہ سے پاکستان میں بھی لڑکیوں کی تعلیم صنفی عدم مساوات کا شکار ہے۔ خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں صورتِ حال خاصی تشویشناک ہے۔ اسکولوں میں داخلوں کی تعداد، روزانہ حاضری کی شرح، سالانہ امتحان میں شمولیت کی فیصد اور ڈراپ آؤٹ کی شرح، عورتوں اور مردوں میں شرح خواندگی کا تقابلی جائزہ اس صنفی تفریق کا واضح اشارہ ہے۔
صنفی امتیاز اور صنفی عدم مساوات کے خاتمے کے لئے معاشی طور پر خواتین کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے اور ایسا ہونا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک لڑکیاں تعلیم یافتہ اور ہنرمند نہ ہوں۔ ہمارے معاشرے میں یہ بہت عام صورتِ حال ہے کہ عورتوں کو تعلیم کے معاملے میں بھی ایک الگ صنف کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔ عورت کس طرح کی تعلیم حاصل کرے اور وہ تعلیم حاصل کر لے تو اس تعلیم کا کیا کرے؟ ہمارے بہت سے پڑھے لکھے مرد حضرات بھی عورتوں کی تعلیم کے متعلق نہایت دقیانوسی خیالات رکھتے ہیں۔ عورت کو تعلیم کا حق دینے میں بھی ہمارے معاشرے میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ ایک طبقہ کہتا ہے (جس میں عورتیں اور مرد دونوں شامل ہیں) کہ عورتوں کو تعلیم کی خاص ضرورت نہیں چونکہ وہ معاشرے کا فعال کردار ادا نہیں کرسکتیں لہٰذا انہیں تعلیم کی سختیاں برداشت کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ طبقہ اپنے سخت گیر تصورات سے بچنے کے لئے عورتوں کی معمولی یا ابتدائی تعلیم کے حق میں رہتا ہے جیسے میٹرک یا ایف اے تک کی تعلیم۔ ایسی خواتین بھی اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں ہوتیں۔ نظریہ یہ ہوتا ہے کہ پڑھ لکھ کے کیا کرنا ہے آخرکار گھر ہی سنبھالنا ہے جبکہ دوسرا طبقہ ذرا فراخ دل ہے۔ یہ طبقہ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے مکمل حق میں ہے۔ یونیورسٹیوں میں اعلیٰ ڈگریوں کا حصول اور اپنی بیٹیوں کے لئے ہر طرح کی تعلیمی سہولیات کی فراہمی اس طبقے کے افراد میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مگر یہ طبقہ لڑکیوں کی تعلیم کے پس منظر میں اسے بھی بے کار اور اضافی سرگرمی سمجھ رہا ہوتا ہے۔ میں نے اکثر ایسے افراد اور خاندان دیکھے ہیں جو لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا کے لڑکیوں کے رشتے ہوتے ہی انہیں گھر بیٹھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ خاندان لڑکیوں کے اچھے رشتوں کے لئے لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے حق میں ہوتے ہیں۔ یہ سب باتیں تو ہمارے معاشرے میں ابھی بہت دور ہیں کہ عورت اپنا حق اور آزادی فطری طور پر لینے لگے مگر جس طرح کی پابندیوں کا ذکر سب سے پہلے ہوا کہ عورت کو پڑھانے کی کیا ضرورت اس نے گھر ہی تو بسانا ہے اس قسم کے رویوں کی شدید مذمت کی جانی چاہئے۔ عورتوں کو خود بھی احساس کرنا چاہئے کہ وہ گھر بسانے کی اہم ذمہ داری کو تعلیم کے ساتھ بھی نبھا سکتی ہیں یا شاید تعلیم کے ساتھ زیادہ بہتر طور پر ادا کرسکیں۔ عورتوں کی تعلیم مرد حاکم معاشروں میں زیادہ ضرورت کی متقاضی ہے۔ عورت کو عزت کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہونا چاہئے اور نہ صرف گھر داری بلکہ زندگی کے تمام شعبہ ہائے جات میں اس کی شمولیت کو تسلیم کیا جائے۔ اس کے لئے نہ صرف تعلیم، تربیت بلکہ ہنر سکھانے کے ادارے قائم کئے جائیں۔ اس طرح وہ معاشرے کا فعال حصہ بنے گی اور یوں معیشت کے استحکام کے ساتھ ساتھ اس کا وژن اپنی اور اپنی نسلوں کے مستقبل کے فیصلے کرنے میں ایک مثبت کردار کا حامی ہوگا۔ عورت کی ہمہ گیر صفات میں دور اندیشی بھی شامل ہوتی ہے، اس کے فیصلے ہمیشہ آئندہ نسل کے مستقبل کے پیشِ نظر ہوتے ہیں اس کے برعکس پاکستان میں خواتین کو محض عضو معطل تصور کیا جاتا ہے جبکہ وہ شہروں میں نسبتاً کم تعداد اور گاؤں، دیہاتوں، کھیتوں کھلیانوں میں ایک بڑی تعداد کام کرتی نظر آتی ہے لیکن اس محنت و جانفشانی کے باوجود اس کی حیثیت تیسرے اور چوتھے درجے کی صنف کی ہی رہتی ہے یعنی جانور سے صرف ایک گریڈ اوپر، گو کہ اسے بولنے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن اس کا کام صرف سننا قرار دے دیا جاتا ہے اور زندگی کے چھوٹے بڑے فیصلوں میں اسے نظرانداز کردیا جاتا ہے حالانکہ یہ مساویانہ حقوق کی خلاف ورزی ہے اور معاشرے کے لئے ایک سوالیہ نشان۔ قانون سازی کرتے ہوئے خواتین کے حقوق کو مدنظر رکھنا اور ان سے متعلق مظالم کو قانون سازی کے ذریعے جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا بھی ضروری ہے جس کے تحت عورت ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھی جاتی ہے، ونی کردی جاتی ہے، کاروکاری کے الزام میں مار دی جاتی ہے اور عین اسلام ہونے کے باوجود اپنی زندگی کے ساتھی کا انتخاب تک نہیں کرسکتی۔ سرکاری و نیم سرکاری اور نجی ملازمتوں کے حوالے سے آج عورت دفاتر میں عدم تحفظ کا شکار ہے، جس کی ایک بڑی وجہ ان کا تعداد میں کم ہونا ہے، اگر ان کی تعداد برابری کی یا اس سے کچھ کم کی بنیاد پر ہو تو ان پر حاوی ہونے کا سلسلہ ازخود ختم ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ماں، بہن اور بیٹی کو زیورِتعلیم سے آراستہ کیا جائے اور تعلیم بالغاں کے مختلف نصاب ترتیب دیئے جائیں جس میں الف ب سے بے بہرہ خواتین کو بنیادی تعلیم سے روشناس کروانے کا سلسلہ شروع کیا جائے جبکہ ان خواتین کو جن کا مڈل پاس کرنے کے بعد تعلیمی سلسلہ منقطع ہوچکا تھا انہیں میٹرک کی تیاری کروائی جائے۔ بنیادی تعلیمی سہولتوں کے علاوہ دور جدید کی اہم ضرورت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ سیلف گرومنگ اور صحت عامہ سے متعلق بھی کونسلنگ کی جائے۔ آج اگر حکمران خواتین کو حقیقی حقوق دینا چاہتے ہیں تو ان کے کے لئے تعلیمی مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔ تعلیم یافتہ اور ہنرمند خواتین ہی پاکستان کا مستقبل ہیں۔ مذہب، غیرت، رسم و راج کے نام پر عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اور قتل عام ختم ہونا چاہئے۔