Friday, January 31, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

خلیج بحران اور پاکستان کا مصالحتی مشن

ساجد حسین ملک

سعودی عرب سمیت سات مسلم ممالک بحرین، متحدہ عرب امارات، یمن، مصر، لیبیا اور مالدیپ کی طرف سے مسلم و عرب دْنیا اور خلیج تعاون کونسل کے اہم ملک قطر پر دہشت گرد تنظیموں کی مدد کرنے اور خطے کو غیرمستحکم کرنے کے الزامات عائد کر کے اس سے سفارتی، تجارتی اور دیگر ہر طرح کے تعلقات منقطع کرنے سے جو بحران پیدا ہوا ہے اور جسے عرفِ عام میں خلیج بحران کا نام دیا جا رہا ہے اس پر پاکستان کو شروع سے شدید تشویش ہے۔ پچھلے ماہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لئے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ تشریف لے گئے تو انہوں نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے برملا یہ کہا کہ پاکستان سعودی عرب، قطر اور ایران سے اپنے قریبی تعلقات کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ اْسے خلیجی ممالک کے درمیان جاری کشیدگی پر شدید تشویش ہے اور وہ اس بحران کے حل کے لئے سفارتی سطح پر بھرپور کوششیں کرے گا۔ جنابِ وزیراعظم نے آستانہ میں اپنے قیام کے دوران تْرک صدر رجب طیب اردوان سے ٹیلی فون پر قطر، سعودی عرب اور ایران سمیت خلیجی ممالک کی صورت حال پر گفتگو کی اور دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ خلیجی ممالک اور عرب ممالک کے درمیان کشیدگی کسی صورت میں قبول نہیں اور کشیدگی کے خاتمے کے لئے پاکستان اور ترکی کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ اسی دوران پاکستان کی قومی اسمبلی میں قطر اور خلیجی ممالک کے مابین تنازع اور ایران میں ہونے والے دہشت گرد حملوں سے متعلق دو قراردادیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔ پہلی قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان قطر اور سعودی عرب اور دوسرے مسلم ممالک کے درمیان کشیدگی کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے اور ان ممالک پر زور دیتا ہے کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ قرارداد میں حکومتِ پاکستان سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ مسلم اْمہ کے درمیان اتحاد کی فضا کو یقینی بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ ایران کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے منظور کی جانے والی قرارداد میں ایرانی پارلیمنٹ اور ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی کے مزار پر دہشت گردوں کے حملوں کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ قومی اسمبلی کا ایوان برادر ہمسایہ ملک ایران کی پارلیمنٹ پر دہشت گردوں کے حملے پر ایرانی عوام سے اظہارِ یکجہتی کرتا ہے۔ خلیج کے بحران اور برادر ہمسایہ ملک ایران کی پارلیمنٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے خلاف پاکستان کے سب سے بڑے اور عوام کے نمائندہ ادارے کی طرف سے متفقہ قراردادوں کی منظوری سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور پاکستان کے عوام برادر اسلامی ممالک کے مسائل و معاملات سے اپنے آپ کو الگ تھلگ نہیں سمجھتے اور انہیں اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات اور تنازعات پر گہری تشویش اور پریشانی ہے۔
خلیج بحران اور سعودی عرب، ایران اختلافات پاکستان کے لئے محض پریشانی اور تشویش کا باعث ہی نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے لئے تَنے ہوئے رَسے پر چلنے کی صورت حال پیدا کیے ہوئے ہیں۔ یہ کہنا آسان ہے کہ پاکستان خلیج بحران اور ایران سعودی تنازعات میں غیرجانبدار رہے لیکن اس پر عملدرآمد کرنا آسان نہیں ہے۔ بہت سارے امور ایسے ہیں جو ہمارے لئے اہمیت رکھتے ہیں اور ہم اْن کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ سعودی عرب، ایران اور قطر بلاشبہ ہمارے برادر اسلامی ملک ہیں لیکن ان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت یقیناً ایک جیسی نہیں ہے۔ سعودی عرب ہمارا ایسا برادر اسلامی ملک ہے جو آزمائش کی ہر گھڑی میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے اور پھر یہ حرمین شریفین کی دھرتی ہونے کے ناتے اسلامیان پاکستان کی عقیدت اور محبت کا مرکز بھی ہے۔ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کی دوستی ہر آزمائش میں پوری اْتری ہے۔ سعودی حکمران خواہ شاہ سعود مرحوم ہوں، شاہ فیصل مرحوم ہوں، شاہ خالد مرحوم ہوں، شاہ فہد مرحوم ہوں، شاہ عبداللہ مرحوم ہوں ان سب کے پاکستان کے ساتھ خصوصی قریبی مراسم رہے ہیں اور یہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے رہے ہیں۔ موجودہ فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز بھی بلاشبہ پاکستان کو اپنا قریبی دوست سمجھتے ہیں لیکن پچھلے دو تین سالوں میں کچھ مسائل پیدا ہوئے ہیں جن کی وجہ سے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان کچھ معاملات میں اختلافات کا تاثر بھی اْبھرا ہے۔ پاکستان بلاشبہ ایک آزاد اور خودمختار ریاست ہے اور اْسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے قومی مفاد میں اپنی پالیسیاں ترتیب دے لیکن کچھ معاملات ایسے نازک ہوتے ہیں کہ اْن میں قریبی دوستوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اب یہ کہنا آسان ہے کہ پاکستان سعودی عرب اور ایران کے ساتھ یکساں طرح کے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات قائم رکھے۔ یہ بھی درست ہے کہ ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور پاکستان نے ہمیشہ اس کے ساتھ برادرانہ اور دوستانہ تعلقات قائم رکھنے کی سعی کی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران کی پالیسیاں اور دوسرے ممالک سے تعلقات کی نوعیت صرف اور صرف اْس کے اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ پچھلے سال ایرانی صدر حسن روحانی پاکستان کے دورے پر آئے تو انہوں نے برملا کہا کہ پاکستان کے ساتھ اگر ایران کی دوستی ہے تو بھارت کے ساتھ بھی ہماری دوستی ہے پھر ایران شیعہ مسلک کی ریاست ہونے کے ناتے ہم مسلک ہونے کو ہر بات پر فوقیت دیتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تعلقات کی نوعیت یکساں نہیں ہوسکتی اور سعودی عرب بہر کیف ایران کے مقابلے میں پاکستان کے لئے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
سعودی عرب سے پاکستان کے برادرانہ تعلقات شروع سے بہت گہرے اور دوستانہ چلے آرہے ہیں۔ پاکستان زبانی کلامی ہی نہیں بلکہ عملی طور پر سعودی عرب کی سلامتی اور تحفظ اور حرمین شریفین کے دفاع کے لئے ہر طرح کے اقدامات کرنے کا دعویدار رہا ہے اور سعودی عرب کو دفاعی معاملات میں ضروری معاونت فراہم کرتا رہا ہے۔ 80 کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں سعودی عرب میں پاکستان کے فوجی دستے متعین رہے ہیں۔ سعودی عرب میں مدینہ منورہ کے انتہائی شمال میں شام اور اسرائیل کی سرحدوں کے قریب تبوک کی چھاؤنی میں پاکستان کا ایک آرمڈ بریگیڈ متعین رہا ہے۔ جنرل جہانگیر کرامت جو 1996ء میں پاکستان کے آرمی چیف بنے وہ بریگیڈیئر کی حیثیت سے اس بریگیڈ کی کمان کرتے رہے۔ اس کے ساتھ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں بھی پاکستان کے ایئرڈیفنس کے دستے متعین رہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے پاکستان اور سعودی عرب میں قریبی دفاعی تعاون عرصے سے چلا آ رہا ہے تاہم دو ڈھائی سال قبل سعودی عرب اور یمن میں حوثی باغیوں کے درمیان تنازع پیدا ہوا تو ایران کھل کر حوثی باغیوں کی حمایت میں سرگرم ہوا۔ سعودی عرب کی خواہش تھی کہ پاکستان اس کا کھل کر ساتھ دے لیکن پاکستان اس کے لئے بوجوہ تیار نہیں ہوا۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں طویل بحث مباحثہ کے بعد متفقہ طور پر قرارداد منظور کی گئی جس میں پاکستان کے غیرجانبدار رہنے اور سعودی عرب اور ایران میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ قرارداد کی منظوری سے قبل اور پارلیمنٹ میں بحث کے دوران ہمارے کچھ سیاسی رہنماؤں نے جوشِ خطابت میں یا کسی بنا پر سعودی عرب کے بارے میں ایسے خیالات کا اظہار کیا جسے سعودی حکمرانوں نے محسوس ہی نہیں کیا بلکہ دبے لفظوں میں پاکستان کی قیادت سے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان سعودی تعلقات میں کسی حد تک سرد مہری سامنے آئی جو کسی نہ کسی طور پر اب تک موجود ہے۔
موجودہ خلیج بحران پچھلے ماہ ریاض میں منعقد ہونے والی امریکہ عرب مسلم کانفرنس کے بعد پید اہوا ہے۔ اس کانفرنس میں امریکی صدر ٹرمپ نے ہی نہیں سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے بھی ایران کو دہشت گردی کا مرکز قرار دیا۔ قطر کی حکومت نے خلیج کی دیگر ریاستوں کی طرح ایران سے اپنے تعلقات کی نوعیت میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں کی اْلٹا قطر کے امیر نے ایران کی برملا حمایت کا اعلان کیا جس کی بنا پر سعودی عرب سمیت متحدہ عرب امارات، بحرین، یمن، مصر، لیبیا اور مالدیپ نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ہی نہیں منقطع کر دیئے ہیں بلکہ قطر کے ساتھ تجارتی، فضائی اور زمینی پابندیاں لگانے کا فیصلہ بھی کرلیا۔ اس دوران ترکی نے جو چاہتا ہے کہ اسلامی ممالک میں اختلافات اس حد تک نہ جائیں قطر میں اپنے فوجی دستے بھجوانے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ افواہ بھی زور شور سے پھیلائی گئی کہ پاکستان بھی قطر میں اپنی 25 ہزار فوج بھیج رہا ہے۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس کی سختی سے تردید کی لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان کے قطر کے ساتھ گہرے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات ہی نہیں ہیں بلکہ پاکستان نے قطر کے ساتھ ایل این جی کی سپلائی کا اربوں ڈالر کا 15 سالہ معاہدہ بھی کر رکھا ہے۔ اس سیاق و سباق میں پاکستان یہ نہیں چاہتا ہے کہ قطر کو تنہائی کا احساس ہو یا اْسے مصائب کا سامنا ہو۔ دوسری طرف پاکستان سعودی عرب سے بھی اپنے تعلقات میں کسی طرح کی سردمہری کا خواہاں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف سعودی عرب کے ہنگامی دورے پر تشریف لے گئے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز اْن کے ہمراہ تھے۔ جدہ کے شاہی محل میں سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے انتہائی خوشگوار ماحول میں وزیراعظم کے مذاکرات ہوئے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے شاہ سلمان سے ملاقات میں اس عزم کا اظہار کیا کہ سعودی عرب کی سلامتی، خودمختاری اور حرمین شریفین کے تحفظ کے لئے پاکستان پْرعزم ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ خلیج میں موجودہ بحران مسلم اْمہ کے بہترین مفاد میں حل کرلیا جائے۔ پاکستان بحران کے حل کے لئے قطر پر اپنا اثرورسوخ بھی استعمال کرے گا۔ یہ صورت حال یقیناً حوصلہ افزا ہے اور اْمید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ دنوں میں پاکستان ترکی اور کویت کی مدد سے خلیج کے اس بحران کا کوئی نہ کوئی حل نکالنے میں کامیاب رہے گا۔

مطلقہ خبریں