امریکا افغانستان سے چلا گیا مگر اُس کی جنگ ختم نہیں ہوئی ہے، اپنے مفادات کے تحفظ اور اہداف کے حصول کے لئے امریکا کی پس پردہ کارروائیاں جاری ہیں، جس کی ایک دلیل پاکستان میں سیاسی تبدیلی ہے، امریکی ابتدا ہی سے پاکستان کی سیاست میں اپنا اثرورسوخ قائم کرچکے ہیں، طریقہئ واردات یہ ہے کہ جو امریکا کا کھلا مخالف ہوتا ہے یا اس کے مفادات کے آگے رکاوٹ بنتا ہے تو وہ اُسے سبق ضرور سکھاتا ہے۔ ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، پرویز مشرف اور شہید بے نظیر بھٹو کا انجام ماضی اور عمران خان کی مثال حالیہ دنوں میں ہے، امریکی اپنے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا ضرور دیتے ہیں، جو بھی پاکستانی حکمران امریکا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اُسے بے عزت کرکے اقتدار کے ایوان سے نکالا جاتا ہے، 1999ء میں نواز شریف کو بل کلنٹن کا حکم نہ ماننے کی سزا ملی تھی، انہیں ہتھکڑیاں بھی لگیں تھیں، جس کا انہیں اب تک ملال ہے، اسی طرح عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ میرا جرم کیا تھا کہ آدھی رات کو میرے خلاف عدالتیں کھولی گئیں۔ پاکستان میں حکومتوں کے وقت سے پہلے ختم ہونے کے واقعات کا جو تسلسل ہے اس میں امریکی مداخلت واضح اور عیاں ہے۔ سوال یہ ہے کہ غیرملکی مداخلت کی وجوہات کیا ہیں؟ کیوں پاکستانی سیاست میں امریکا، برطانیہ اور عرب ممالک کی اتنی دلچسپی ہے؟ عرب ممالک تو اپنی پراکسی مذہبی جنگ کے لئے پاکستان کو تخت ِمشق بناتے ہیں لیکن امریکا اور برطانیہ اپنے تزویراتی اہداف کو مدنظر رکھ کر پاکستان کے خلاف اقدامات کرتے ہیں کیونکہ پاکستان 57 اسلامی ملکوں میں واحد تسلیم شدہ ایٹمی طاقت ہے، پاکستان کے پاس جدید میزائل سسٹم ہے، ایک بڑی فوج ہے، جغرافیائی اہمیت کا حامل بھی ہے، ایک جانب چین، ایران، افغانستان اور دوسری طرف بھارت کے ساتھ لمبی سرحدی پٹی ہے۔ براستہ افغانستان یورپ کے لئے گیٹ وے ہے، تجارتی راہداری کے لئے بحرہ عرب کے سنگم پر واقع ہے گوادر اور کراچی جیسے پورٹس اسٹرٹیجک اہمیت رکھتے ہیں، امریکا کو چین، ایران اور خود پاکستان پر نظر رکھنے کے لئے پاکستان کا تعاون درکار ہے، کیونکہ بھارت اس کے تزویراتی اہداف کے حصول میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتا، نہ ہی وہ صلاحیت رکھتا ہے، اگرچہ امریکا نے نیوکلیئر پلانٹس اور جدید ہتھیاروں کی دستیابی بھی یقینی بنائی، وہ بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کرنے کے لئے ہر طرح کی امداد اور تعاون کرتا رہا لیکن بھارت امریکی اُمیدوں پر پورا نہیں اتر سکا، 1962ء میں چین کے ساتھ چند روزہ ٹکراؤ نے بھارت کی عسکری صلاحیت کا پول کھول دیا اور 2021ء میں لداخ میں بھارت کی جس طرح چین نے ٹھکائی کی اس سے بھی امریکیوں کو اندازہ ہوگیا کہ جنوبی ایشیا کے شیروں سے مقابلہ کرنے کے لئے گدھے کو جتنی بھی گھاس کِھلا دیں کچھ حاصل نہیں ہوسکتا، کیونکہ فطری طور پر گدھا لڑنے نہیں بلکہ بوجھ اٹھانے کا کام کرسکتا ہے، برصغیر میں انگریزوں کے خلاف بھی ہندو کھڑے نہیں ہوئے بلکہ ان کی غلامی اور چاپلوسی کرتے رہے تھے اور یہی رویہ مغل حکمرانوں کے دور میں بھی رہا تھا، امریکا نے بہت زور لگایا لیکن بھارت عسکری حوالے سے اس کی اُمیدوں پر پورا نہیں اُتر سکا۔ جبکہ پاکستان نے 1948ء، 1965ء اور 1999ء کی جنگوں میں اپنے سے پانچ گنا بڑے طاقتور ملک کی ناک رگڑوائی، 1971ء کا معرکہ اس لئے ہارے کے لڑائی اپنوں سے تھی، بھارت کے ساتھ امریکا کے علاوہ روس نے بھی بہت عسکری تعاون کیا لیکن وہ خطے میں مضبوط فوجی طاقت بن کر نہیں دکھا سکا، 27 فروری 2019ء میں بھی بھارت اپنی عسکری صلاحیت دکھانے سے قاصر رہا، پاکستان کے خلاف ایک محدود کارروائی میں بھی اُسے منہ کی کھانا پڑی تھی، اس واقعہ سے پاکستان کی جدید عسکری صلاحیت کا بھی اظہار ہوگیا، اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان کی افواج نے جو شجاعت کی تاریخ رقم کی اس کا اعتراف امریکا سمیت تمام مغربی ممالک نے کیا کہ پاکستان واحد ملک ہے جو اس جنگ میں کامیاب ہوا۔ ان کامیابیوں نے امریکا کو مضطرب بھی کیا کیونکہ واشنگٹن کو یہ برداشت نہیں کہ کوئی مسلمان ملک عسکری لحاظ سے مضبوط ہوجائے، افغانستان میں پاکستان کا مینجمنٹ سسٹم بھی امریکا کو ناگوار گزرا، حالانکہ اسلام آباد کی مدد کے بغیر امریکی فوجیوں کا پُرامن انخلا ناممکن تھا، طالبان کے تمام گروہوں کو متحد کرنا، مخالفین کو مطمئن کرنا اور پھر طالبان کی حکومت کا قائم ہونا، یہ سب پاکستان کے تعاون اور رہنمائی کے بغیر ہو نہیں سکتا تھا، اگرچہ طالبان پاکستان کے لئے دردِسر بھی ہیں، سرحد پر باڑ لگانے کا عمل طالبان کے لئے ناقابل برداشت ہے، آئے دن پاکستان کے سرحدی محافظوں پر حملہ ہوتا رہتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کی ان صلاحیتوں کی بناء پر امریکا یہ چاہتا ہے کہ اس کا اسٹیک پاکستان کے اندر رہے، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ میں اس کے گہرے اثرات ہیں، بیورو کریسی میں اس کا اثرورسوخ ہے کیونکہ اعلیٰ سرکاری افسران کی اکثریت کی اولادیں امریکا و برطانیہ میں زیرتعلیم ہیں، اسی طرح سیاست دانوں کی اولادیں بھی امریکا و برطانییہ میں تعلیم حاصل کرتی ہیں بلکہ ان کے کاروباری مفادات بھی ان ملکوں سے وابستہ ہیں، پاکستان کی داخلی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر امریکا سیاست کی راہداری کے ذریعے مداخلت کرتا رہے گا، امریکی پاکستان کو نہیں چھوڑ سکتے، وہ کام بھی لیتے ہیں، تعاون بھی کرتے ہیں اور جہاں رکاوٹیں ڈالنا ہو وہاں ایف اے ٹی ایف یا آئی ایم ایف کو استعمال کرتے ہیں، جب زیادہ سبق سکھانا ہو تو دہشت گردوں کے گروپس کو متحرک کر دیتے ہیں، داعش کا وجود کیوں برقرار رکھا ہے جو امریکا القاعدہ کے خاتمے کے لئے افغانستان پر چڑھ دوڑا، وہ اپنے مذموم مقاصد کے لئے خطے میں داعش کی پشت پناہی کررہا ہے، پاکستان نے 90 کی دہائی میں روس کو ہزیمت سے دوچار کیا تو 20 سالہ افغان لڑائی میں امریکا کو بھی کامیاب نہیں ہونے دیا، اسی لئے پاکستان امریکا کے لئے ایک ایسی ریاست ہے جسے آگے بڑھنے بھی نہیں دینا اور اتنا کمزور بھی نہیں کرنا کہ وہ کسی کام کرنے کے قابل بھی نہ رہے، بہرحال پاکستان کی سیاست میں امریکی مداخلت کو قبول کرنا اب شاید ممکن نہ رہے کیونکہ عمران خان نے اس بیانیے کو گھر گھر پہنچا دیا ہے کہ ہماری سیاست میں تبدیلی کا حق پاکستان کے عوام کو ہے، امریکا یا کسی اور ملک کی مداخلت ناقابل قبول ہے۔