Wednesday, July 16, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

خطرناک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دُنیا کے اہم ممالک

اسرائیل اور شمالی کوریا سمیت دُنیا کے 9 ممالک کے جوہری ہتھیاروں پر مبنی خصوصی رپورٹ
عبدالرحمن محمود خان

حال ہی میں امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون نے روس کی جانب سے خطرات کے جواب میں امریکا کے جوہری اسلحہ خانہ کی تجدید اور نئے کم خرچ بم تیار کرنے کا خاکہ پیش کیا ہے۔ اگرچہ سرد جنگ کے بعد دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے تاہم دنیا میں اب بھی ایسے سینکڑوں جوہری ہتھیار موجود ہیں جنہیں مختصر سے نوٹس پر چلایا جاسکتا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیار رکھنے والا ہر ملک انہیں جدت دے رہا ہے یا اس کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک اپنے جوہری ہتھیاروں کی تفصیلات کو مخفی رکھتے ہیں مگر ان ممالک میں 9 ملک ایسے بھی ہیں جن کے تقریباً 16,000 جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات منظر عام پر آچکی ہیں۔ یہ ہتھیار یا تو زمین پر یا پھر بحری اور فضائی اڈوں پر لگائے گئے ہیں اور تقریباً 2000 ایسے ہیں جوکہ چند لمحوں کے نوٹس پر لانچ کئے جاسکتے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں سے اکثریت امریکا اور روس کے پاس ہیں۔
پہلی جنگ عظیم میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے میزائلوں کے حصول کی شروع کی ہوئی لڑائی اب اس سطح تک پہنچ چکی ہے کہ اس کو روکنا بہت ہی مشکل ہوگیا ہے۔ اگر امریکا اور اس کے اتحادی اپنے میزائلوں کی تیاری ترک کردیں اور برابری کی سطح پر بات چیت کے ذریعے ایک دوسرے کو سمجھیں تو تب شاید دیگر ممالک بھی اس نوعیت کے اپنے ہتھیار بنانے چھوڑ دیں کیونکہ دھمکیوں اور لڑائیوں سے یہ باتیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ مزید شدت اختیار کر جاتی ہیں۔
گزشتہ سال کے آخر میں فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیار بھی تیار کررہا ہے جو سائز میں اس قدر چھوٹے ہیں کہ انہیں انتہائی آسانی سے میدانِ جنگ میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس روایتی ایٹمی ہتھیار صرف شہروں یا دیگر بڑے انفرااسٹرکچر پر ہی گرائے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کے یہ ٹیکٹیکل ہتھیار جنگی جہازوں اور آبدوزوں کے ذریعے بھی انتہائی مختصر نوٹس پر استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان نیوکلیئر ٹرائی ایڈ کی تیاری کے بھی قریب پہنچ چکا ہے جس سے وہ زمین، فضا اور سمندر تینوں جگہوں سے ایٹمی میزائل لانچ کرنے کی صلاحیت کا حامل بن جائے گا۔ پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام بھارت کے بعد شروع کیا مگر اب وہ بھارت سے کافی آگے نکل چکا ہے۔ دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ جوہری ہتھیار اور جوہری مواد روس اور امریکا کے پاس ہے۔ یہ دونوں ممالک 6 سے 7 ہزار ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں جبکہ فرانس کے پاس 300، چین کے پاس 270، برطانیہ کے پاس 225 اور اسرائیل 80 ایٹمی ہتھیار کا مالک ہے جبکہ بھارت کے پاس 100 اور پاکستان کے پاس 120 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
اس کے علاوہ 10 ویں ایٹمی طاقت ایسی بھی ہے جس نے ابھی تک اپنے جوہری ہتھیاروں کا باضابطہ اعلان تو نہیں کیا لیکن مذکورہ ایٹمی ممالک تو یہ سمجھتے ہیں کہ ’’ایران‘‘ بھی ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ دنیا کے 50 سے زائد ممالک کے پاس کسی نہ کسی نوعیت کی میزائل ٹیکنالوجی موجود ہے۔ آج کا زیرنظر فیچر بھی اسی منظرنامے پر تشکیل دیا گیا ہے کہ دنیا میں ایٹمی ہتھیار کہاں کہاں موجود ہیں اور کون سا ملک ان کا مالک ہے؟
روس 7000 جوہری ہتھیار
امریکا اور روس کی دشمنی بہت پرانی ہے۔ امریکا سوویت یونین کے ٹکڑے کرکے دنیا کی واحد سپر پاور تو بن گیا لیکن روس کی دفاعی طاقت نے اسے پھر بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ آئے روز کوئی ایسا انکشاف سامنے آتا ہے کہ سپر پاور ہونے کے باوجود امریکا کو اپنی سلامتی کی فکر پکڑ جاتی ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکہ 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت باضابطہ طور پر 7000 جوہری ہتھیار موجود ہیں جبکہ شنید ہیں کہ تعداد 8000 تک بھی ہوسکتی ہے۔
رواں سال کے پہلے عشرے میں امریکی دفاعی ادارے پنٹاگون کی لیک ہونے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ روس نے حال ہی میں سمندر کی تہہ میں چھپ کر وار کرنے والا ایٹمی ڈرون بنایا ہے۔ یہ ڈرون 100 میگا ٹن کے تباہ کن ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور بغیر کسی پائلٹ کے پرواز کرتا ہوا برق رفتاری کے ساتھ اپنے ہدف تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکی جریدے ڈیفنس نیوز سے وابستہ ماہر ویلری انسپیٹا کا کہنا تھا کہ روس کے زیرآب ڈرون کا آفیشل نام ’’اوشن ملٹی پرپزسٹم اسٹیٹس 6‘‘ ہے اور اسے مختصراً ’’کیینین‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا پہلا ٹیسٹ نومبر 2016ء میں کیا گیا۔ جب اسے ساروف کلاس آبدوز سے لانچ کیا گیا۔ اس نئی قسم کے ہتھیار کے متعلق میڈیا میں خبریں سامنے آنے سے پہلے امریکی دفاعی ادارے پنٹاگون نے اس پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ اس ہتھیار کی رینج 6200 میل جبکہ انتہائی رفتار 56 ناٹ ہے اور یہ سمندر میں 3280 فٹ کی گہرائی تک جا کر چھپ سکتا ہے۔ اسے آبدوزیں بنانے والے روس کے سب سے بڑے ادارے ’’روبن ڈیزائن بیورو‘‘ نے تیار کیا ہے۔
امریکا 6800 سے 7000 جوہری ہتھیار
انیس سو پینتالیس ء میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناکاساکی پر ایٹمی حملے کئے تھے۔ سپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 6800 یا 7300 کے قریب ایٹم بم موجود ہیں۔ سال رواں کے آغاز میں ایک نئی سوچ کا انکشاف نیوکلیئر پوسچر ریویو (این پی آر) نامی پنٹاگون پالیسی بیان میں ہوا جس میں امریکی فوج کی طرف سے تجویز دی گئی کہ روس سے نمٹنے کے لئے امریکا اپنے جوہری ہتھیاروں کو تبدیل کرکے نئے چھوٹے ایٹم بم بنائے۔ 2010ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی فوج نے مستقبل کے جوہری خطرات کے بارے میں اس کی سوچ کا اظہار کیا ہے۔ امریکی فوج کو خدشہ ہے کہ ماسکو کے خیال میں امریکا کے جوہری ہتھیار استعمال کرنے میں بہت بڑے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ کسی بھی قسم کی مزاحمت کے لئے موثر نہیں ہیں تاہم یہ پھر بھی تباہ کن ہوتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جاپانی شہر ناگاساکی پر جو ایٹم بم گرایا گیا تو وہ بھی اتنی ہی طاقت رکھتا تھا لیکن پھر بھی اس کے نتیجے میں 70 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’’ہمارے حکمت عملی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ روس اس بات کو سمجھ جائے کہ جوہری ہتھیار کا کسی بھی قسم کا استعمال چاہے چھوٹے پیمانے پر ہی کیوں نہ ہو قابل قبول نہیں۔‘‘
فرانس 300 جوہری ہتھیار
فرانس یورپی یونین کے بانی ارکان میں سے ہے اور رقبے کے لحاظ سے اس کا سب سے بڑا رکن ہے۔ فرانس نیٹو کے بانی ارکان میں سے بھی ہے۔ فرانس اقوام متحدہ کے بانی ارکان میں سے بھی ہے اور سلامتی کونسل کا مستقبل رکن ہے۔ یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔ فرانس کے چند علاقے سمندر پار شمالی و جنوبی امریکا، بحرالکاہل اور بحر ہند میں بھی واقع ہیں۔ یورپ میں فرانس کے ہمسایہ ممالک ہیں بیلجیم، لگزمبرگ (ٹوگسام بورغ)، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، اٹلی، مناکو، انڈورا (اندورا) اور اسپین۔ یورپ سے باہر فرانس کی سرحدیں برازیل، سورینام اور نیدرلینڈز سے ملتی ہیں۔ فرانس ایک متحدہ، نیم صدارتی، جمہوری ریاست ہے۔ فرانس کی بنیادیں اس کے آئین اور ’’آدمی اور شہری کے حقوق کا اعلان‘‘ ہیں۔ فرانس ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے۔
چین 270 جوہری ہتھیار
چین کو دنیا کی سب سے پرانی تہذیبوں میں سے ایک ہے جو آج ایک کامیاب ریاست کے روپ میں موجود ہیں اور اس کی ثقافت 6 ہزار سال پرانی ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد ہونے والی چین کی خانہ جنگی کے اختتام پر چین کو تقسیم کرکے 2 ممالک بنا دیا گیا تھا۔ ایک کا نام عوامی جمہوریہ چین اور دوسری کا نام جمہوریہ چین رکھا گیا۔ عوامی جمہوریہ چین کے کنٹرول میں میں لینڈ، ہانگ کانگ اور میکاؤ جبکہ جمہوریہ چین کا کنٹرول تائیوان اور اس کے ملحقہ علاقوں پر تھا۔ چین کی تہذیب دنیا کی ان چند ایک تہذیبوں میں سے ایک ہے جو بیرونی مداخلت سے تقریباً محفوظ رہیں اور اسی وقت سے اس کی زبان تحریری شکل میں موجود ہے۔ چین کی کامیابی کی تاریخ کوئی 6 ہزار سال قبل تک پہنچتی ہے۔ صدیوں تک چین دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم مشرقی ایشیا کا تہذیبی مرکز رہا جس کے اثرات آج تک نمایاں ہیں۔ اسی طرح چین کی سرزمین پر بہت ساری نئی ایجادات ہوئی ہیں جن میں چار مشہور چیزیں یعنی کاغذ، قطب نما، بارود اور چھاپہ خانہ بھی شامل ہیں۔ ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 یا 270 ایٹم بم موجود ہیں۔ چین نے 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
برطانیہ 225 جوہری ہتھیار
برطانیہ یورپ کے ان ممالک میں سے ہے جن کی تاریخ بہت زرخیز ہے، برٹن قبائل کی وجہ سے ان جزائر کا نام برطانیہ قرار پایا جو یورپ اور دیگر خطوں سے ہجرت کرکے برطانیہ میں آباد ہوئے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔ برطانیہ G-8 کا رکن اور انتہائی ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس کی معیشت دنیا کی 5 ویں اور یورپ کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے جس کا اندازہ 2.2 کھرب امریکی ڈالرز ہے۔ برطانیہ آبادی کے لحاظ سے یورپی یونین کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے جس کی آبادی 60.2 ملین ہے۔ برطانیہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے۔ برطانیہ دنیا کی بڑی جوہری طاقتوں میں سے ایک ہے، یہ یورپی یونین کا بھی رکن ہے۔
پاکستان 110 اور 120 جوہری ہتھیار
پاکستان کے پاس 100 سے 120 کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ 1996ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی، تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 3 جنگیں ہوچکی ہیں اور اگرچہ دونوں پڑوسیوں کے درمیان امن مذاکرات کئی مرتبہ تھم کر دوبارہ شروع ہوچکے ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان جوہری ہتھیاروں اور میزائلوں کی ایک ایسی دوڑ ہمیشہ جاری رہی ہے جس کے ختم ہونے کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ دونوں جوہری ملکوں میں سے کسی نے بھی کبھی اپنے ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں کھل کر بات نہیں کی ہے تاہم امریکا کے ایک مشاورتی ادارے یا تھنک ٹینک ’’فارن ریلیشنز کمیٹی‘‘ نے گزشتہ سال اپنی ایک رپورٹ میں اندازہ ظاہر کیا تھا کہ پاکستان کے پاس اتنا جوہری مواد موجود ہے کہ وہ 110 اور 120 کے درمیان جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے جبکہ بھارت 90 سے لے کر 110 جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں سے بھی لیس ہے جس نے بھارت کے اس منصوبے کا جو کولڈ اسٹارٹ ڈوکٹرائن کہلاتا ہے یعنی پاکستان کے 8 کمزور حصوں سے گھس کر اس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے ناکام بنا دیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کو اپنے کئی ہتھیاروں کے تجربے کے ذریعے جوابی پیغام دیا ہے۔ پاکستان روایتی ہتھیاروں کے معاملے میں بھی بھارت سے کہیں آگے ہے۔ فضائی طور سے وہ اس سے کہیں مضبوط اور دفاعی صلاحیت سے آراستہ ہے۔ اس نے اپنے آپ کو جدید ایف-17 تھنڈر طیاروں سے لیس کرلیا ہے۔
بھارت 90 سے 100 جوہری ہتھیار
انیس سو چوہترء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس 90 سے 110 تک ایٹم بم موجود ہیں۔ بھارت نے 1960ء کی دہائی میں اپنا ایٹمی پروگرام شروع کردیا تھا اور 80 کی دہائی میں ایٹمی طاقت بن چکا تھا جس کی وجہ سے پاکستان کو مجبوراً اپنا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی ترغیب ملی اور آج اس کے پاس بھارت سے زیادہ ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ جنگی جنون میں مبتلا بھارت ہر سال اربوں ڈالر جھونک کر خطے میں اسلحہ کی دوڑ جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اس کے باوجود وہ جوہری ہتھیاروں کے شعبے میں پاکستان سے پیچھے ہے۔ بھارت کے ’’کولڈ اسٹارٹ ڈوکٹرائن‘‘ منصوبہ ناکام بننے کی وجہ سے بھارت کی پریشانی اور بڑھ گئی ہے۔ پریشان ہو کر اس نے بچوں کی طرح سے رویہ اختیار کرلیا ہے اگرچہ وہ خود بھی ایٹمی طاقت ہے۔ اس نے پاکستان کی سرحدوں پر بلااشتعال فائرنگ، بلوچستان میں مداخلت اور خودکش دھماکے کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
اسرائیل 80 جوہری ہتھیار
اسرائیل ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور دنیا کی 43 ویں بڑی معیشت ہے۔ مشرقی وسطیٰ میں معیارِ زندگی کے اعتبار سے اسرائیل سب سے آگے ہے اور ایشیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ یہ ایک خوشحال ملک ہے، جس کی وجہ سے اسرائیل دنیا میں اوسط زیادہ سے زیادہ عمر کے حوالے سے دنیا کے چند بہترین گنے چنے ممالک میں شامل ہے۔ 1948ء سے 1973ء تک 3 بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔ معرضِ وجود میں آنے کے بعد بانیانِ اسرائیل نے سب سے پہلی قومی پالیسی یہ تشکیل دی تھی کہ شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی اور ریسرچ و ڈویلپمنٹ پر سب سے زیادہ رقم خرچ کرنی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں کامیابیاں پا کر اسرائیل معاشی، عسکری، معاشرتی غرض ہر لحاظ سے ایک ناقابل تسخیر طاقت بن سکتا ہے اور واقعی وہ صحیح سمجھتے تھے۔ 1948ء کے بعد جس سیاسی جماعت یا اتحاد کی بھی حکومت آئی۔ اس نے یہ قومی پالیسی جاری رکھی اور GDP کا بڑا حصہ شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی پر خرچ کرتی رہی، نتیجہ آج دنیا کے سامنے ہے۔ آج اسرائیل سائنس و ٹیکنالوجی پر سب سے زیادہ رقم خرچ کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن چکا ہے۔ وہ اپنے جی ڈی پی کا 4.25 فیصد اس مد میں خرچ کرتا ہے۔ اسرائیل کا جی ڈی پی 323 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ گویا اسرائیلی حکومت ہر سال تقریباً پونے 14 ارب ڈالر سائنس و ٹیکنالوجی اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے شعبوں پر خرچ کرتی ہے۔ اس رقم کی وسعت کا اندازہ یوں لگایئے کہ پاکستان کی برآمدات 20 سے 21 ارب ڈالر کے مابین گھوم رہی ہے۔
شمالی کوریا 60 جوہری ہتھیار
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی 60 جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے 2006ء میں جوہری تجربہ کیا تھا۔ شمالی کوریا جو گزشتہ کئی سالوں سے نیوکلیئر کارروائیوں میں مصروف ہے اور جس کے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ رہتے ہیں، اب نہایت تیزی سے اسلحہ حاصل کرنے کی دوڑ کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ شمالی کوریا کی فوج کی تعداد ایک ملین سے زائد ہے اور اس کے پاس 407 ملین ریزرو فوجی موجود ہیں۔ ملک میں تقریباً ہر چوتھا شخص کسی نہ کسی شکل میں فوجی خدمات انجام دے رہا ہے۔ شمالی کوریا کے پاس کم و بیش چھوٹے بڑے تقریباً 1000 میزائل موجود ہیں، جن میں انتہائی طویل رینج کے ایسے میزائل بھی شامل ہیں جو مستقبل میں امریکا کو نشانہ بنانے کے قابل ہوسکیں گے۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں ٹیکٹیکل آرٹلری راکٹوں سے شروع ہونے والا شمالی کوریا کا میزائل پروگرام گزشتہ چند دہائیوں میں کافی پیش رفت کرچکا ہے اور اب پیانگ یانگ کے پاس شارٹ اور میڈیم رینج کے بیلسٹک میزائل ہیں۔
این پی ٹی معاہدہ اور ایٹمی ممالک
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری) کے مطابق جن وار ہیڈز کو ختم کیا جاتا ہے۔ ان کی تعداد 15,000 جوکہ 1980ء کی دہائی میں 70,000 کے قریب تھی۔ حالیہ کچھ ماہ میں شمالی کوریا نے جدید سے جدید تر میزائل تجربے کئے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکا کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ 1970ء سے لے کر اب تک امریکا، روس، برطانیہ، چین اور فرانس سمیت 190 ممالک نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کئے ہیں۔ بھارت، اسرائیل اور پاکستان نے اس معاہدے پر کبھی دستخط نہیں کئے جبکہ شمالی کوریا نے 2003ء میں اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
این پی ٹی (نیوکلیئر پاور ٹریٹی) امریکا، روس، فرانس، برطانیہ اور چین کو قانونی طور پر جوہری طاقت مانتا ہے کیونکہ ان ممالک نے اس معاہدے سے قبل جوہری ہتھیاروں کے تجربات کئے تھے۔ اس معاہدے کے تحت ان ممالک کو بھی جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ این پی ٹی معاہدے کے تحت ان ممالک کے علاوہ دیگر کو جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں۔ جنوبی افریقہ، بیلاروس، قازقستان اور یوکرائن نے اپنے جوہری ہتھیار ختم کردیئے ہیں۔ فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کا کہنا ہے کہ امریکا، برطانیہ اور روس اپنے ہتھیاروں کی تعداد کم کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل اور فرانس کے پاس ہتھیاروں کی تعداد قدرے مستحکم رہی ہے جبکہ چین، پاکستان اور شمالی کوریا نئے ہتھیار بھی بنا رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیار رکھنے والا ہر ملک اپنے ہتھیاروں میں جدت ضرور لا رہا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری) کے سربراہ شینن کائل کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں میں جدت لانا این پی ٹی کی روح کے منافی ہے۔ برطانیہ کا منصوبہ ہے کہ جوہری میزائلوں سے لیس ’’وین گارڈ جوہری آبدوزوں‘‘ کو بدلا جائے۔ 2020ء کی دہائی تک برطانیہ کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہو کر 180 یا اس سے کم رہ جائے گی۔
ادھر امریکا نے اپنے ہتھیاروں میں جدت لانے کے لئے 2040ء کی دہائی تک ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔ امریکا کے تقریباً 150 وارہیڈز بلجیم، جرمنی، اٹلی، ہالینڈ اور ترکی میں نصب ہیں۔ شمالی کوریا نے گزشتہ سال ستمبر میں اپنا 6 واں جوہری تجربہ کیا تھا تاہم ماہرین ابھی تک اس پر اتفاق نہیں کرسکے کہ شمالی کوریا کا جوہری پروگرام ان وارہیڈز کو اس کے لانگ رینج میزائلوں کو لے جانے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ شمالی کوریا نے حالیہ کچھ مہینوں میں جدید میزائل تجربات کئے ہیں جن کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکا کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
ایران۔۔ ایٹمی ملک بننے کے قریب
میزائل بھی دیگر عام ہتھیاروں کی طرح دوسرے ممالک سے خریدے جاسکتے ہیں۔ یہ بھی ہتھیار تیار کرنے والے اداروں کی ایک مہنگی اور جدید پراڈکٹ ہے اور ان کو بہتر سے بہتر بنانے کا عمل بھی جاری ہے۔ ایران کا شہاب سوم میزائل زمین سے زمین پر مار کرنے والا بیلسٹک میزائل ہے۔ یہ 1300 کلومیٹر دور تک مار کرتا ہے۔ یہ میزائل 1998ء میں تیار کیا گیا تھا جس کا تجربہ کامیاب رہا۔ یہ میزائل اسرائیل تک پہنچ سکتا ہے جبکہ اسرائیل کے پاس بھی بیلسٹک میزائلوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ جیریکو I اور جیریکو II نہ صرف ایران بلکہ تمام اسلامی دنیا اور ایشیا کے دیگر ممالک تک مار کرسکتا ہے۔ پورے خطے میں ایران کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ امریکا، سعودی عرب اور ان کے ان اتحادیوں کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ دوسری طرف امریکا کے پاس موجود میزائل سسٹم میں کئی میزائل ایسے موجود ہیں جن کے نشانے پر ایران اور شام کا وسیع ترین علاقہ آتا ہے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل