سچا افسانہ
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میرے سامنے دو پڑھے لکھے جوان آتش فشاں کی طرح پھٹ رہے تھے، دوران گفتگو ان کے منہ سے گالیوں کا طوفان ابل پڑتا، پے در پے ناکامیوں اور مایوسیوں کی وجہ سے تلخی ان کے اندر اتر گئی تھی، اب وہی تلخی دونوں کے لہجوں سے چھلک رہی تھی، پہلے تو دونوں ملک، یہاں کا نظام، عدالتی بے انصافی، کرپشن، اقرباپروری پر زہر گھولتے رہے پھر اچانک خدائے بزرگ و برتر کی ناانصافی کا رونا رونے لگے کہ خدا بھی امیروں اور طاقتوروں کا ہے، وہ بھی انہی کو دیتا ہے جن کے پاس پہلے سے سب کچھ موجود ہے، میں پچھلے ایک گھنٹے سے سامنے بیٹھے ہوئے یونیورسٹی سے فارغ نوجوان کی باتیں صبر سے سن رہا تھا، دونوں کو یہ اعتراض تھا کہ وہ ماسٹر ڈگریاں ہاتھ میں پکڑے ایک در سے دوسرے در تک ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں، جن کے تعلقات بااثر خاندانوں سے ہیں وہ ہم سے کم نمبروں کے باوجود نوکریوں پر ہیں جبکہ ہم بہتر تعلیمی ریکارڈ کے ساتھ بھی دھکے کھاتے پھر رہے ہیں، پتہ نہیں اس ملک کا نظام کب ٹھیک ہوگا۔ پتہ نہیں خدا کب ہم جیسوں کی بھی سنے گا یا ہم اسی طرح ناکامیوں اور مایوسیوں کے سمندر میں دھکے کھاتے پھریں گے، سر ہم نے بہت ساری عبادات بھی کی ہیں، صدقہ خیرات بھی اپنی اوقات کے مطابق ذکر اذکار بھی خوب کئے ہیں، خدا کو منانے کی بہت کوششیں کیں لیکن خدا بھی طاقتوروں کا ہے وہ ہم جیسوں کی نہیں سنتا، میں خاموشی سے ان کی تلخ باتیں سنتا رہا، جب وہ دونوں خوب زہر اگل چکے تو میں نے دونوں کے کندھے شفقت سے تھپکے، پیار سے دیکھا اور کہا خدا بہت رحیم کریم ہے کہ کبھی کسی پر بے جا ظلم نہیں کرتا، اس کی رحمت کا دائرہ بہت وسیع ہے، آپ کوشش کریں تو کامیابی ضرور آپ کے قدم چومتی ہے، لیکن وہ دونوں کوئی بھی بات ماننے کو تیار نہیں تھے، بے یقینی اور مایوسی سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولے سر ہم کیسے یقین کریں کہ وہ سب کی سنتا ہے اور ہماری بھی سنے گا، اب میں نے دونوں سے اپنی زندگی کی موٹیویشن شیئر کرنے کا فیصلہ کیا اور بولا مجھے بچپن سے عام نوجوانوں کی نسبت کھیلوں سے زیادہ ہی لگاؤ تھا، میں دنیا کے ہر کھیل کو انجوائے کرتا تھا، فطری چستی پھرتی کی وجہ سے بہت ساری گیموں میں بھرپور حصہ بھی لیتا تھا، میرے پسندیدہ کھیلوں میں ٹینس کا کھیل بھی تھا۔ میری نوجوانی کے دور میں لوگ دنیا میں ایک کھلاڑی کے نام کا ڈنکا بجتا تھا، اس کا نام آرتھر آش تھا، وہ اپنے وقت پر دنیا کا نمبر ون پلیئر تھا، وہ ورجینیا کے مشہور قصبے اچمنڈ میں پیدا ہوا، وہ افریقی کالا امریکن تھا جن کے ماں باپ بھی کالے تھے، بچپن سے کھیلوں کی طرف فطری رحجان رکھتا تھا، شروع میں اتھلیٹ بننے کی کوشش کی لیکن جسمانی کمزوری اور ساخت کی وجہ سے کامیاب نہ ہوا، پانچ چھ سال کی عمر میں اس کی والدہ اسے دنیا میں تنہا چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملیں، اب وہ اکیلا رہ گیا تھا، اب اس کے پاس وقت تھا، بچپن سے کھیلوں کا جنون اسے ٹینس کورٹ کی طرف لے گیا، جلد ہی اسے ٹینس سے جنون کی حد تک عشق ہوگیا، اس نے سوچا وہ دنیا میں اس سطح کا کھلاڑی بنے گا کہ لوگ اس کو مرنے کے بعد یاد کریں گے۔ خداداد صلاحیتیں اور جنون نے کام کر دکھایا۔ 1963ء میں وہ امریکہ کا نمبر ون کھلاڑی تھا لہٰذا اسے ڈیوس کپ ٹیم میں شامل کرلیا گیا، وہ امریکی تاریخ کا پہلا سیاہ فام کھلاڑی تھا، شاندار محنت اور کھیل کی وجہ سے وہ ڈیوس کپ جیت گیا، یہ کامیابی بہت سارے لوگوں کے لئے حیران کن تھی، اس کے شاندار کھیل کی وجہ سے ذرائع ابلاغ نے اسے شہ سرخیوں میں جگہ دی، ریڈیو ٹی وی پر بھی اس کے ہی چرچے تھے، وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا تھا، ہر طرف اسی کا نام ہی گونج رہا تھا، پھر اس کا زندگی کا سب سے اہم موڑ سامنے آیا۔ 1969ء میں جنوبی افریقہ میں ٹینس کھیلنے کے لئے اس نے ویزے کی درخواست دی جو افریقن حکومت نے اس بنیاد پر خارج کردی کہ وہ کالا تھا اور افریقہ پر قابض گوروں کی حکومت کسی کالے کو ویزہ جاری نہیں کرتی تھی۔ آرتھر آش کو یہ ناانصافی ہضم نہ ہوئی اس نے ٹینس کو خیرآباد کہا اور امریکہ میں سیاہ فاموں کے حقوق کی جنگ شروع کردی کیونکہ وہ مشہور کھلاڑی تھا، عوام اور اس کے مداحوں نے اس کا بھرپور ساتھ دیا، حکمرانوں نے جلد ہی کالوں کے بنیادی حقوق تسلیم کر لئے اور سفارتخانے نے آش کو ویزہ جاری کردیا، ویزہ تو مل گیا اب ناقدین نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اتنے سال کورٹ سے باہر رہنے کی وجہ سے اب آش کبھی بھی اس لیول کا ٹینس نہیں کھیل پائے گا لیکن آرتھر آش پھر ایک نئے جنون کے ساتھ کورٹ میں اترا خوب محنت کی اور پھر دنیا نے وہ منظر بھی دیکھا جب تماشایوں کے سامنے ٹینس کا سب سے بڑا ومبلڈن کپ لہرا رہا تھا، ومبلڈن چیمپئن کے بعد وہ سپر اسٹار بن چکا تھا لیکن اس کی زندگی میں ایک اور حساس موڑ اس وقت آیا جب 1980ء میں اسے دل کا دورہ پڑا، اسے اسپتال لے جایا گیا، دوران آپریشن اسے جو خون دیا گیا اس میں ایچ آئی وی تھا، آرتھر آش آپریشن کے بعد جب اسپتال سے نکلا تو اس کی رگوں میں ایڈز کی بیماری دوڑ رہی تھی، یہاں سے اس کی ایک اور دوڑ اسٹارٹ ہوگئی، اب وہ اور دنیا بھر کے ڈاکٹر ایڈز کے خلاف سر توڑ لڑائی لڑ رہے تھے، وہ 13 سال مسلسل ایڈز کے خلاف فائٹ کرتا رہا، ہزاروں ڈاکٹروں نے دن رات اسے بچانے کی پوری کوشش کی لیکن بیماری جیت گئی وہ ہار گیا اس طرح دنیائے ٹینس کا عظیم کھلاڑی 6 فروری 1993ء کو منوں مٹی کے نیچے جا سویا لیکن جانے سے پہلے وہ دنیا والوں کو ایک عظیم سبق آموز پیغام دے کر جاتا ہے، زندگی کے آخری ایام میں جب وہ موت کی دہلیز پر تھا تو اس کے ایک فین نے خط لکھ کر اس سے عجیب سوال کیا کہ اس وقت کرۂ ارض پر 15 ارب انسان ہیں، خدا نے صرف تمہیں ہی کیوں اس موذی مرض کے لئے چنا، آرتھر آش کا جواب قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے ایک مشعل راہ تھا۔ آرتھر آش نے کہا دنیا میں ہر سال کروڑوں بچے ٹینس کورٹ کھیلنا شروع کرتے ہیں لیکن صرف 5 کروڑ اس کھیل کو سیکھ پاتے ہیں، ان 5 کروڑ بچوں میں سے صرف 5 لاکھ پروفیشنل پلیئر بنتے ہیں، ان 5 لاکھ کھلاڑیوں میں صرف 5 ہزار گرینڈ سلام تک پہنچتے ہیں، ان 5 ہزار جوانوں میں سے صرف 50 ومبلڈن کھیلنے آتے ہیں، ان 50 میں سے صرف 4 سیمی فائنل تک پہنچتے ہیں، ان چار میں سے صرف 2 کے مقدر میں فائنل آتا ہے اور پھر 2 میں سے ایک کے سر پر فتح کا تاج جگمگاتا ہے، میں دنیا کے 50 کروڑ کھلاڑیوں میں واحد ہوں جنہوں نے ٹینس کھیلنا شروع کیا اور وہ ومبلڈن تک پہنچ گیا، میں نے دنیا بھر سے 800 کے قریب بڑے اعزاز حاصل کئے، میں جب بھی وکٹری اسٹینڈ پر کھڑا ہوتا تو ہمیشہ ہی سوچتا کہ میں اس کپ کا حقدار تھا، میں نے کبھی اللہ سے نہیں پوچھا، اے پروردگار تو نے مجھے ہی اس اعزاز کے لئے کیوں چنا۔ آج جب میں بیماری میں مبتلا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے پوچھنے لگتا ہوں کہ ’’وائے می‘‘ تو مجھے وہ وقت یاد آجاتا ہے جب دنیا کے ہر کورٹ میں میری کامیابی کا جھنڈا اور ترانا گایا جا چکا تھا، جب میں نے اپنی کامیابیوں پر اللہ سے یہ نہیں کہا کہ اے خدا میں ہی کیوں اس فتح کا حقدار تو آج مجھے بیماری میں بھی یہ پوچھنے کا حق حاصل نہیں کہ بیماری مجھے ہی کیوں، جب میں نے اپنی کامیابیوں پر خدا کا شکر نہیں کیا تو ناکامی پر شکوہ نہیں بنتا۔ آرتھر آش نے بستر مرگ پر آخری جملے سب کو یاد ہیں، اے لوگو! خدا کو کبھی نہ بتاؤ کہ تمہاری مشکل کتنی بڑی ہے بلکہ اپنی مشکل کو یہ بتاؤ کہ تمہارا رب کتنا بڑا ہے، اس طرح آپ ہر درد مشکل سے نجات پا جائیں گے، بڑی سے بڑی مصیبت بھی خدا کی عظمت کے دائرے سے باہر نہیں۔ دونوں نوجوانوں کی آنکھوں میں شرمندگی کے آنسو تھے، یہ کہہ کر چلے گئے ہماری مشکلات اور ناکامیاں خدا سے بڑی نہیں ہیں۔