Monday, July 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

خدا کا تحفہ

افسانہ
ندا آفتاب

جمال اور وہ مسجد کی جانب نماز کے لئے روانہ ہوگئے۔ نماز ختم کرکے دونوں نے دعا مانگی پھر جمال صاحب نے باسط کو گھر چلنے کے لئے کہا۔ جیسے ہی مسجد سے باہر نکلے تو کچھ فاصلے پر سیڑھیوں کے پاس کوئی چیز حرکت کرتی محسوس ہوئی لیکن ہلکا سا اندھیرا ہونے کے باعث کچھ صاف دکھائی نہ دے رہا تھا۔ جمال صاحب ڈرتے ہوئے آگے بڑھے تو دیکھا کہ وہ تقریباً 2 سال کا ایک معصوم بچہ ہے جو نیند سے بیدار ہورہا تھا۔ جمال نے فوراً اسے اپنی گود میں اٹھا لیا اور مولوی صاحب کے پاس لے جا کے تمام واقعہ سے آگاہ کیا اور سب لوگوں کے بیچ جو مسجد میں اُس وقت موجود تھے اس بچے کو لے جانے کا اعلان کیا۔ جمال نے بچے کو مریم کی گود میں دے دیا۔ ساتھ ہی بتا دیا کہ یہ بچہ کب، کہاں اور کیسے ملا۔ مریم پہلے تو حیران ہوئی لیکن پھر اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور کہا کہ ہم اس کا نام یاسر رکھیں گے۔
آج باسط کی سالگرہ ہے۔ وہ 20 سال کا ہوجائے گا۔ یاسر خوشی سے امی کو بتا رہا تھا۔ یاسر امی کی بات سن کر بازار سامان لینے کے لئے نکل گیا۔ دکان میں یاسر کے برابر میں ایک لڑکا کھڑا سودا لے رہا تھا کہ اچانک پیچھے سے چار لڑکوں نے آ کے اُسے پیٹنا شروع کردیا۔ یاسر نے ایک لڑکے کا ہاتھ پکڑ کر اُسے مارنے سے روکا۔ ابھی وہ اسے سمجھا ہی رہا تھا کہ اُن میں سے ایک لڑکے نے تیش میں آکر یاسر کے سر پر اینٹ دے ماری۔
یہ کیا ہوگیا جمال؟ حوصلہ رکھو بیگم۔ امی یاسر کب ہوش میں آئے گا؟ ارے مریم۔ دیکھو یاسر آنکھیں کھول رہا ہے۔ اسپتال سے گھر آنے کے چند دن بعد یاسر نے اُس لڑکے کے گھر کا پتہ معلوم کرلیا کیونکہ وہ اُس سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔ یاسر نے دروازے پہ لگی گھنٹی بجائی۔ دروازہ ایک بوڑھی عورت نے کھولا اور دروازہ کھولتے ہی وہ ٹک سے یاسر کو دیکھنے لگی۔ آنٹی ماجد یہاں رہتا ہے؟ ہاں۔ وہ میرے کرائے دار کا بیٹا ہے۔ اوپر والی منزل پہ اُن کا گھر ہے۔ یاسر فوراً اوپر کی طرف بڑھا لیکن بوڑھی عورت کے چہرے سے حیرانی ابھی تک کم نہ ہوئی تھی۔ یاسر نے ماجد کی امی کو اُس دن کے بارے میں سب بتا دیا اور پولیس کے پاس لے جانے کی دھمکی دی۔ نہ بیٹے۔ اسے معاف کردو۔ ماجد نے بھی ڈر کے مارے معافی مانگ لی اور وعدہ کیا کہ دوبارہ کسی کے ساتھ ایسا نہ کرے گا۔ یاسر اب گھر کے لئے نکلا تو وہ عورت دروازے کے پاس ہی کھڑی تھی۔ اُس کے آتے ہی انہوں نے کہا تمہارا کیا نام ہے؟ یاسر آنٹی۔ تم کس کے بیٹے ہو؟ تمہارا گھر کہاں ہے؟ بیٹا مجھے اپنے گھر لے چلو۔ وہ بہت حیران و پریشان ہوا۔ وہ انہیں گھر لے گیا۔ مریم کمرے میں سلام کرتی ہوئی آئی۔ سچ سچ بتانا ایک بات بیٹی۔ سچ؟ کیا؟ پوچھیں۔ کیا یہ لڑکا تمہاری اپنی اولاد ہے؟ 14 سال بعد یہ سوال سن کے مریم حیران رہ گئی۔ م۔ م۔ م م۔ وہ کچھ نہ بول پائیں۔ یاسر کو اس سوال سے بے حد غصہ آیا، اس سے پہلے مزید کچھ کہتی یاسر نے انہیں روک دیا۔ اس سے پہلے جمال صاحب مزید غصہ کرتے یاسر نے کہا ابا میں بتاتا ہوں۔ جمال صاحب نے مریم کو گھورا پھر خاموشی سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ مریم نے سکون کا سانس لیا۔
ہمیں اُس عورت سے ملنا چاہئے مریم۔ لیکن جمال؟ میں آپ کے ساتھ چلوں گا اُس عورت کے پاس۔ مگر باسط؟ امی اللہ میاں کی جو مرضی ہوگی وہی ہوگا۔ حوصلہ رکھیں۔ باسط نے گھنٹی بجائی تو دروازہ اُسی عورت نے کھولا۔ ماں جی میرا نام جمال ہے۔ اپنے بیٹے یاسر کے رویے کے لئے میں معذرت خواں ہوں۔ باسط سے مزید چپ نہ رہا گیا۔ آنٹی آپ کیا جانتی ہیں؟ دراصل یاسر میرا پوتا ہے اُس کا اصل نام موسیٰ ہے۔ وہ تو بہت خوش نصیب ہے کہ اُسے آپ جیسے نیک لوگ مل گئے تھے۔ حنا، فاروق دونوں بہت خوش تھے۔ بس اولاد کی محرومی نے حنا کو پریشان کیا ہوا تھا۔ آخرکار 3 سال بعد اللہ نے اُس کی سن لی اور موسیٰ جیسی پیاری نعمت ہمارے گھر میں عطا فرما دی۔ جس دن موسیٰ ہم سے جدا ہوا وہ قیامت بھری رات تھی۔ حنا، فاروق کھانے پہ باہر گئے ہوئے تھے۔ واپسی پر چوروں نے اُن کی گاڑی کو گھیر لیا۔ فاروق کے پاس اُس وقت زیادہ پیسے نہ تھے۔ حنا کے پاس سے بھی قیمتی بالیوں کے علاوہ مزید کچھ برآمد نہ ہونے پر اُن کمبختوں نے موسیٰ کو اٹھا لیا اور اُسے مارنے کی دھمکی دینے لگے۔ اُسی دوران وہاں پولیس کی گاڑی آپہنچی۔ اپنی جان بچانے کے لئے جو وہ بھاگے تو موسیٰ کو بھی بنا کسی مقصد اپنے ساتھ لے گئے۔ فاروق، موسیٰ کو پکارنے کی ناکام کوشش میں لگا ہوا تھا۔ میرے بیٹے نے خود کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ حنا کو بھی بہت حوصلہ دیا لیکن وہ موسیٰ کو کھونے کا صدمہ برداشت نہ کر پائی اور 8 ماہ بعد ہی دنیا سے چل بسی۔ فاروق ٹوٹ گیا تھا لیکن نااُمید نہ ہوا۔ پولیس کی تلاش آخرکار ایک سال بعد رنگ لے آئی اور وہ تمام چور پکڑے گئے۔ اُن لوگوں نے بتایا کہ موسیٰ کو ایک گلی کے کنارے رکھ دیا تھا اور اس کے بعد وہاں کبھی پلٹ کر نہ گئے۔ فاروق نے موسیٰ کی تلاش میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن میرے بچے کی قسمت میں موسیٰ کا دوبارہ ملنا نہ لکھا تھا۔
ماں جی آپ نے یاسر کو کیسے پہچانا؟ کیسے بیٹا؟ کیسے نہ پہچانتی۔ وہ تو بالکل فاروق کا بچپن ہے۔ پھر کیا ہوا تھا آنٹی؟ اُس حادثے کو 5 سال بیت گئے تھے مگر فاروق نے میرے لاکھ سمجھانے پر بھی دوبارہ شادی نہ کی۔ آہستہ آہستہ کاروبار میں بھی نقصان ہونے لگا۔ بیوی، بچہ، خوشیاں کچھ بھی تو نہ باقی تھا۔ تمام غم اپنے اندر سمیٹے ہوئے وہ مجھ بوڑھی کو تنہا کرکے خالق حقیقی سے جاملا۔ امی آپ کیوں رو رہی ہیں؟ مریم جائے نماز پہ پچھلے ایک گھنٹے سے بیٹھی خدا کے آگے یاسر کو مانگ رہی تھیں۔ میں آپ کے پاس ہی ہوں امی۔ تم مجھے چھوڑ کر تو نہ جاؤ گے؟ میں کیوں جاؤں گا؟ بس اب آپ رونا بند کریں اور چلیں کھانا لگا دیں۔ میں نہا کے آتا ہوں جب تک۔
امی جی؟ ہاں؟ باسط؟ جمال؟ شکر ہے کہ آپ آگئے۔ کیا ہوا؟ میرا دل ہول رہا ہے جمال۔ کچھ بولیں آپ، بیگم وہ بہت نیک دل خاتون ہیں۔ یاسر کے بارے میں جو انہوں نے بتایا سب درست ہے۔ تو؟ کیا یاسر اب اُن کے پاس چلا جائے گا؟ نہیں امی۔ ان کی درخواست ہے کہ یاسر کو حقیقت سے آگاہ کردیا جائے اور انہیں یاسر سے ملنے کے لئے نہ روکا جائے۔ پھر باسط نے تمام قصہ مریم کو سنا دیا۔ وہ سب کچھ سننے کے بعد دنگ رہ گئی اور اپنی خودغرضی پر ندامت کے آنسو بہانے لگی۔ جمال؟ میری ممتا اُن کے غموں کے آگے بے معنی ہے۔ ان کا یاسر پہ پورا حق ہے۔ آپ مجھے معاف کردیں پلیز۔ مریم تم بس ایک ماں بن کے سوچ رہی تھی۔ رہی معافی کی بات تو وہ مجھ سے نہیں اُن سے مانگو۔ سوائے گردن ہلانے کے وہ کچھ نہ کر پائی۔ امی یاسر ہمارا ہی ہے۔ خدا نے اُسے ہمیں ہی عطا کیا ہے۔ بس اب آپ کو ہمت دکھانی ہے، یاسر کو سنبھالنے کے لئے۔ ہاں مریم باسط بالکل صحیح کہہ رہا ہے۔ مجھے تو بہت بھوک لگی ہے۔ کھانا نہ دو گی؟ جمال صاحب کی اس بات سے وہ تینوں مسکرانے لگے اور کمرے سے نکل کے میز کی جانب بڑھ گئے جہاں یاسر بھی کھانے کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ جمال نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا، ماتھے پہ بوسا دیا اور بہت ہمت دکھاتے ہوئے اُسے سچ سے آگاہ کیا۔ وہ حیران ہو کر سب کو دیکھتا رہا پھر کہا، ابا مجھے آپ لوگوں سے کوئی گلا نہیں ہے لیکن دادی کو میری ضرورت ہے۔ میں اُن سے ملوں گا اور ان کے ہر حکم کو مانوں گا۔ بالکل بیٹا مریم بولی۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں یار پھر باسط نے اُسے گلے لگا لیا۔ تم ان کے پاس ابھی ہی جاؤ بیٹے جمال صاحب بولے۔ جی ابا۔ خدا حافظ کہتے ہوئے وہ چلا گیا۔ جمال یاسر ہمارے ساتھ اپنی دادی کا بھی حق ادا کرے گا مجھے یقین ہے۔ ہاں مریم۔ یاسر واقعی خدا کا تحفہ ہے اور وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل