Friday, July 25, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

حقوقِ نسواں۔۔ انسانی حقوق سے جدا نہیں۔۔

دیہی خواتین کی اکثریت کو لیڈی ڈاکٹر یا سکلڈ برتھ اٹنڈنٹ تک رسائی نہیں، تولیدی صحت کی سہولیات بہتر بنانا وقت کی ضرورت ہے
اخلاق علی خان
حقوقِ نسواں انسانی حقوق کی عمارت کا سب سے اہم ستون ہے اور انہیں انسانی حقوق سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ تقریباً نصف آبادی کے حقوق کو نظرانداز کرکے انسانی حقوق کی عمارت کو کھڑا رکھنا ناممکن ہے۔ اگر بانظر غائر دیکھا جائے تو دین اسلام خواتین کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار نظر آتا ہے جس نے عورت کو زندہ رہنے کا حق دلوایا۔ اسلام میں عورت کو معاشی طور پر خودمختاری اور بااختیار بنایا گیا ہے، اس کی واضح مثال خود حضورؐ کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہؓ کی ہے جو مکہ معظمہ کی دولت مند بزنس وومن تھیں، جن کا مال تجارت حضورؐ خود تجارتی قافلوں کے ساتھ دیگر علاقوں میں لے کر جاتے تھے اور حضرت خدیجہؓ نے اسلام کی ترویج کے لئے اپنی دولت سے حضورؐ کی مدد کی۔ خواتین کو طبی سہولتوں کی فراہمی اور نگہداشت کو حضورؐ نے اس قدر اہمیت دی کہ غزوہ بدر کے وقت حضرت عثمانؓ کی اہلیہ شدید بیمار ہونے کی وجہ سے حضورؐ نے حضرت عثمانؓ کو مالِ غنیمت میں جنگ میں شریک مجاہدین کے برابر حصہ دیا۔ یہ وہ چند مثالیں ہیں جو خواتین کے حقوق کی اہمیت کو اُجاگر کرنے اور آج کے جدید دور میں خواتین کی حق تلفی روکنے کے لئے ضروری تھیں۔ خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے جہاں ان کو تعلیم و تربیت، معاشی ترقی اور انہیں بااختیار کے مواقع فراہم کرنا ہیں، وہیں خواتین کو تولیدی صحت (ری پروڈکٹو ہیلتھ) کی سہولیات اور کنبہ سازی میں ان کی رائے کے احترام کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے۔
خوراک کی کمی، غربت کی وجہ سے بچے اور خواتین خون کی کمی انیمیا کا شکار ہیں، بچے پستہ قد ہیں، نشوونما نہیں ہورہی، ہر سال ہزاروں حاملہ خواتین دوران حمل و زچگی پیچیدگیوں کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں، ہزاروں نومولود لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ دیہی خواتین کی اکثریت کو لیڈی ڈاکٹر یا سکلڈ برتھ اٹینڈنٹ تک رسائی نہیں ہے اور وہ روایتی دایہ کے تجربات کا شکار ہوتی ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ گھر کے مرد حضرات کی سردمہری اور عدم توجہی ہے۔
ہم ایک مردانہ تسلط والا معاشرہ ہیں۔ خواتین کی تولیدی صحت، بچوں کی پیدائش میں وقفہ (کنبہ سازی) جیسے اہم معاملات میں خواتین کو بطور اسٹیک ہولڈر نہیں لیا جاتا لیکن اب ہمیں اپنی سوچ و انداز فکر اور رسم و رواج کو بدلنا ہوگا اور مذکورہ مسائل کے حق کے لئے خواتین سے مشاورت، ان کی چوائس کو احترام دینا ہوگا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے سرکاری و نیم سرکاری اداروں اور سماجی تنظیموں کو مربوط حکمت عملی اپناتے ہوئے مشترکہ کاوشوں میں تیزی لانا ہوگی تاکہ معاشرہ میں بدلاؤ لایا جاسکے۔ تولیدی صحت (ری پروڈکٹو ہیلتھ) کی سہولیات کو ریموٹ ایریاز اور دیہات تک پہنچانا ضروری ہے۔ انسانی حقوق کے اس پہلو کو اُجاگر کرنے کیلئے پنجاب پاپولیشن انوویشن فنڈ (پی پی آئی ایف) جو پبلک سیکٹر کا نان پروفٹ ایبل ادارہ ہے، نے خواتین کی تولیدی صحت کی سہولیات میں اضافہ، خاندانی منصوبہ بندی جیسے ایشوز کے بارے میں آگاہی اور شعور بیدار کرنے کا بیدار کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے، یہ ادارہ بین الاقوامی اور مقامی اداروں، ڈونر ایجنسیوں اور خواتین کی بہبود کیلئے سروسز فراہم کرنے والی این جی اوایس کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کررہا ہے، جس سے نئے اقدامات لینے کے لئے نئی راہیں کھل رہی ہیں اور پنجاب پاپولیشن انوویشن فنڈ کی کوششوں کے حوصلہ افزا نتائج نکل رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ پی پی آئی ایف نے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ (آئی پی ایچ) کے تعاون سے خواتین کے حقوق خصوصاً تولیدی صحت کے بارے میں ایڈووکیسی سیمینار کا اہتمام کیا، جس میں سیکریٹری وومن ڈویلپمنٹ سمیرا صمد، پی پی آئی ایف کے چیف ایگزیکٹو طلحہ حسین فیصل، چیئرمین بورڈ آف مینجمنٹ آئی پی ایچ لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول، ڈین آئی پی ایچ پروفیسر ڈاکٹر زرفشاں طاہر، یواین ایف پی اے میری اسٹوپس سوسائٹی، یونیسیف اور دیگر تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی اور خواتین کے حقوق، تولیدی صحت، فیملی پلاننگ اور اس حوالے سے درپیش مشکلات پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر سہیل ثقلین جو قبل ازیں محکمہ صحت پنجاب میں اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہے ہیں جنہوں نے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ میں بھی ممبر ہیلتھ کام کیا ہے، وہ اب پی پی آئی ایف سے وابسطہ ہیں اور خواتین کی تولیدی صحت کی سہولیات اور فیملی پلاننگ کے حوالے سے نئے جذبہ کے ساتھ کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ پی پی آئی ایف ری پروڈکٹو ہیلتھ اور فیملی پلاننگ کو فروغ دینے کیلئے دیگر اداروں، میڈیکل یونیورسٹیز، کالجز کے ساتھ کام کررہا ہے اور جلد ہی مذکورہ اداروں کے شعبہ ٹیلی میڈیسن میں تولیدی صحت کا بھی الگ ڈیسک کام کا آغاز کر دے گا جس سے خواتین گھر بیٹھے اپنے ڈاکٹر سے رہنمائی حاصل کرسکیں گی۔ خالد مقبول کا کہنا تھا کہ خواتین کو حقوق دلوانے، خواتین کی صحت اور وسائل کے مطابق خاندان کی تشکیل کے لئے مردوں کی تربیت، کونسلنگ بہت ضروری ہے تاکہ سوچ اور رویوں میں تبدیلی آئے۔ سیکریٹری محکمہ وومن ڈویلپمنٹ پنجاب نے کہا کہ خواتین کو بااختیار بنانے اور انہیں معاشی استحکام دینے کے لئے ان کا محکمہ دیگر اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کررہا ہے اور اس میں بہت کامیابی ہوئی ہے۔ طلحہ حسین فیصل کا کہنا تھا کہ پی پی آئی ایف نے خواتین کی صحت اور فیملی پلاننگ کے حوالے سے بہت سے اداروں کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کا آغاز کیا ہے اور مقصد کے حصول کیلئے مربوط اقدامات کئے جارہے ہیں اور غیرسرکاری سماجی تنظیموں کی بھی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ ڈین آئی پی ایچ ڈاکٹر زرفشاں طاہر نے سیمینار سے خطاب میں کہا کہ خواتین کی مجموعی فلاح و بہبود کے ساتھ ری پروڈکٹو ہیلتھ کی سہولیات دوردراز علاقوں تک پہنچانا ضروری ہے کیونکہ ایک صحت مند ماں ہی صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے جو صحت مند معاشرہ کی تشکیل کی بنیاد ہے۔ ڈاکٹر زرفشاں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ انسٹی ٹیوٹ خواتین کے صحت سے متعلق مسائل کے حل کے لئے تمام اداروں اور محکموں سے تعاون جاری رکھے گا۔ پنجاب پاپولیشن انوویشن فنڈ جس تیز رفتاری سے سرکاری و غیرسرکاری اداروں اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون کو فروغ دے رہا ہے، نیز طبی اداروں سے مل کر ٹیکنالوجی کی مدد سے نئی انوویشن متعارف کرا رہا ہے، اس سے یہ اُمید پیدا ہو چلی ہے کہ آنے والے برسوں میں خواتین کے حقوق کے بارے میں عوامی شعور اور انڈر اسٹنڈنگ میں بہترین آئے گی، خواتین کو تولیدی صحت کی سہولیات ریمورٹ ایریاز اور دیہات میں باآسانی دستیاب ہوں گی، ان کو ان کی رائے کو کنبہ سازی میں اہمیت ملے گی اور خاندان کے سربراہ اپنی فیملی کو توسیع دیتے وقت ”اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا“ کے محاورہ پر عمل کرتے نظر آئیں گے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل